کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا قیامت کے دن انبیاء اور دوسرے لوگوں سے کلام کرنا برحق ہے
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: The Talk of the Lord عزّ وجلّ to the Prophets and others on the Day of Resurrection)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7514.
صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے ایک آدمی نے سرگوشی کے متعلق سوال کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کیسے سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے رب کے قریب ہوگا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال کر فرمائے گا: تو نے فلاں فلاں عمل کیا تھا؟ وہ کہے گا: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”تو نے یہ یہ عمل بھی کیا تھا؟ بندہ ہاں میں جواب دے کر ان کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں تجھ ہر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تجھے معاف کرتا ہوں۔“ ایک دوسری روایت میں ہے، سیدنا ابن عمر ؓ نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
تشریح:
1۔اس میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے سر گوشی کے انداز میں گفتگو کرے گا۔ اسے قریب کرنے اور اس پر پردہ ڈالنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ گفتگو کوئی اور نہ سنے تاکہ بندے کو ذلت اور رسوائی سے محفوظ رکھا جائے یہ گفتگو مبنی بر حقیقت اور الفاظ و حروف پر مشتمل ہو گی۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کا موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ایک قدیم نفسی صفت ہے جس میں آواز اور حروف نہیں ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا ہے تو بندہ اس سر گوشی کو کیسے سن سکے گا؟ اللہ تعالیٰ اہل جہنم سے بھی گفتگو کرے گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ وہ ایک ایسے کافرسے کہے گا جسے بہت ہلکا سا عذاب دیا جارہا ہو گا۔ ’’اگر تجھے دنیا اور اس کا ساز و سامان دے دیا جائے تو کیا اسے فدیے کے طور پر دے کر اس عذاب سے نجات حاصل کر لے گا؟‘‘ وہ جواب دے گا۔ میں اس کے لیے تیار ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ’’جب تو اپنے باپ کی پشت میں تھا تو تجھ سے بہت آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا لیکن تونے (ڈھٹائی سے) شرک ہی کیا۔‘‘ (صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 7083(2805) 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں ایک اور سند بیان کی ہے تاکہ راوی حدیث صفوان سے قتادہ کے سماع کی تصریح ہو جائے اور انقطاع کا احتمال ختم ہو جائے ۔ واللہ أعلم۔
یہ آٹھواں عنوان ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے متکلم ہونے کو ثابت کررہے ہیں۔قبل ازیں اللہ تعالیٰ کا حضرت جبرئیل علیہ السلام اور دیگر فرشتوں سے ہم کلام ہوناثابت کیا تھا اور اس باب میں انبیاء علیہ السلام اوردیگر لوگوں سے ہم کلام ہونا ثابت کیاجائے گا۔
صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے ایک آدمی نے سرگوشی کے متعلق سوال کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کیسے سنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے رب کے قریب ہوگا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا پردہ ڈال کر فرمائے گا: تو نے فلاں فلاں عمل کیا تھا؟ وہ کہے گا: جی ہاں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”تو نے یہ یہ عمل بھی کیا تھا؟ بندہ ہاں میں جواب دے کر ان کا اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے دنیا میں تجھ ہر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تجھے معاف کرتا ہوں۔“ ایک دوسری روایت میں ہے، سیدنا ابن عمر ؓ نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے سر گوشی کے انداز میں گفتگو کرے گا۔ اسے قریب کرنے اور اس پر پردہ ڈالنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ گفتگو کوئی اور نہ سنے تاکہ بندے کو ذلت اور رسوائی سے محفوظ رکھا جائے یہ گفتگو مبنی بر حقیقت اور الفاظ و حروف پر مشتمل ہو گی۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں جن کا موقف ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ایک قدیم نفسی صفت ہے جس میں آواز اور حروف نہیں ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا ہے تو بندہ اس سر گوشی کو کیسے سن سکے گا؟ اللہ تعالیٰ اہل جہنم سے بھی گفتگو کرے گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ وہ ایک ایسے کافرسے کہے گا جسے بہت ہلکا سا عذاب دیا جارہا ہو گا۔ ’’اگر تجھے دنیا اور اس کا ساز و سامان دے دیا جائے تو کیا اسے فدیے کے طور پر دے کر اس عذاب سے نجات حاصل کر لے گا؟‘‘ وہ جواب دے گا۔ میں اس کے لیے تیار ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ ’’جب تو اپنے باپ کی پشت میں تھا تو تجھ سے بہت آسان چیز کا مطالبہ کیا تھا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا لیکن تونے (ڈھٹائی سے) شرک ہی کیا۔‘‘ (صحیح مسلم، صفات المنافقین، حدیث: 7083(2805) 3۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے آخر میں ایک اور سند بیان کی ہے تاکہ راوی حدیث صفوان سے قتادہ کے سماع کی تصریح ہو جائے اور انقطاع کا احتمال ختم ہو جائے ۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے صفوان بن محرز نے بیان کیا کہ ایک شخص نے ابن عمر ؓ سے پوچھا: سرگوشی کے بارے میں آپ نے رسول اللہ ﷺ سے کس طرح سنا ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ تم میں سے کوئی اپنے رب کے قریب جائے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا پردہ اس پر ڈال دے گا اور کہے گا تو نے یہ یہ عمل کیا تھا؟ بندہ کہے گا کہ ہاں۔ چنانچہ وہ اس کا اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے گناہ پر پردہ ڈالا تھا اور آج بھی تجھے معاف کرتا ہوں۔ آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، کہا ہم سے صفوان نے بیان کیا، ان سے ابن عمر ؓ نے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔
حدیث حاشیہ:
اس سند کےلانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ صفوان سے قتادہ کے سماع کی تصریح ہو جائے اور انقطاع دفع ہو جائے۔ حدیث کی اس باب سے مطابقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندے سے سرگوشی کرنا مذکور ہے۔ حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے اس کے بعد اب کہاں گئے وہ لوگ جو کہتے ہیں اللہ کا کلام ایک قدیم نفسی صفت ہے نہ اس میں آوا ز ہے نہ حروف ہیں۔ فرمائیے یہ قدیم صفت موقع بموفع کیونکر حادث ہوتی رہتی ہے۔ اگر کہتے ہیں کہ اس کا تعلق حادث ہے جیسے سمع اوربصرہ وغیرہ ہیں تو مسموع اور مبصر ذات الہی کا غیر ہے۔ اس لیے تعلق حادث ہو سکتا ہے یہاں تو کلام اسی کی صفت ہے اس کا غیر نہیں ہے۔ اگر اس کے کلام میں آواز اور حروف نہیں ہیں توپھر پیغمبروں نےاس کا کلام کیوں کرسنا اور متواتر احادیث میں جو آیا ہے کہ اس نے دوسرے لوگوں سے بھی کلا م کیا اور خصوصا مومنوں سےآخرت میں کلام کرے گا تویہ کلام جب اس میں آواز اورحروف نہیں ہیں کیوں کر سمجھ میں آیا اور آسکتا ہے۔ افسوس ہے کہ یہ (متکلمین ) لوگ اتنا علم پڑھ کر پھر اس مسئلہ میں بے وقوفی کی چال چلے اورمعلوم نہیں کیا کیا تاویلات کرتے ہیں۔ اس قسم کی تاویلیں درحقیقت صفت کلام کا انکار کرنا ہے پھر سرے سے یوں نہیں کہہ دیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی نہیں کرتا جیسے جعد بن درہم مردود تھا۔ آج کل بھی اکثر نیچری مغرب زدہ نام نہاد مسلمان ایسی ہی باتیں کرتےہیں۔ ھدا ھم اللہ إلیٰ صراط مستقیم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Safwan bin Muhriz: A man asked Ibn 'Umar (RA), "What have you heard from Allah's Apostle (ﷺ) regarding An-Najwa?" He said, "Everyone of you will come close to His Lord Who will screen him from the people and say to him, 'Did you do so-and-so?' He will reply, 'Yes.' Then Allah will say, 'Did you do so-and-so?' He will reply, 'Yes.' So Allah will question him and make him confess, and then Allah will say, 'I screened your sins in the world and forgive them for you today.' "