کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب:سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد’’ پس اللہ کے شریک نہ بناؤ‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “….Then do not set up rivals unto Allah while you know.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد(سورۃ حم سجدہ میں)”تم اس کے شریک بناتے ہو، وہ تو تمام دنیا کا مالک ہے۔“اللہ تعالیٰ کا ارشاد”اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے(سورۃ الفرقان)۔“”اور بلاشبہ آپ پر اور آپ سے پہلے پیغمبروں پر وحی بھیجی گئی کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل غارت ہو جائے گا اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہو جاؤ گے(سورۃ الزمر)۔“اور عکرمہ نے کہا«وما يؤمن أكثرهم بالله إلا وهم مشركون»کا مطلب یہ ہے کہ”اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ ان کا ایمان ہے لیکن عبادت غیر اللہ کی کرتے ہیں۔“اور اس باب میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ بندے کے افعال، ان کا کسب سب مخلوق الٰہی ہیں کیونکہ اللہ نے(سورۃ الفرقان میں)فرمایا”اسی پروردگار نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر ایک انداز سے اس کو درست کیا۔“اور مجاہد نے کہا کہ(سورۃ الحج میں)جو ہے«ما تنزل الملائكة إلا بالحق»کا معنی یہ ہے کہ”فرشتے اللہ کا پیغام اور اس کا عذاب لے کر اترتے ہیں۔“اور(سورۃ الاحزاب)میں جو فرمایا”سچوں سے ان کی سچائی کا حال پوچھے یعنی پیغمبروں سے جو اللہ کا حکم پہنچاتے ہیں۔“اور(سورۃ حجر)میں فرمایا”ہم قرآن کے نگہبان ہیں۔“مجاہد نے کہا یعنی اپنے پاس اور(سورۃ الزمر میں)فرمایا”اور سچی بات لے کر آیا یعنی قرآن اور اس نے اس کو سچا جانا یعنی مومن جو قیامت کے دن پروردگار سے عرض کرے گا تو نے مجھ کو قرآن دیا تھا، میں نے اس پر عمل کیا۔“
7520.
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: تیرا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ ”میں نے کہا: یہ تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے۔“ میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرنا وہ تیرے ساتھ کھانا کھائیں گے۔“ میں نے کہا:پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرنا.“
تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں کئی ایک فتنوں نے جنم لیا۔ ان میں سے ایک فتنہ خلق قرآن کا تھا۔ کچھ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرآن مخلوق ہے۔ اس کے برعکس رد عمل کے طور پر بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا کہ قرآن ہی غیر مخلوق نہیں بلکہ قرآن تلاوت کرتے وقت قاری کی آواز اور حروف بھی غیر مخلوق ہیں حتی کہ اس حد تک مبالغہ کیا گیا کہ کتابت قرآن کے بعد جو سیاہی اور کاغذ استعمال ہوا ہے وہ بھی غیر مخلوق ہے۔ محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ قاری کی آواز اور ادا ہونے والے حروف تو مخلوق ہیں البتہ تلاوت کیا جانے والا کلام غیر مخلوق ہے کیونکہ تلاوت بندے کا فعل اور اس کا کسب ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہے پھر اسی بنیاد پر مسئلہ خلق افعال العباد پیدا ہوا۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق مستقل ایک رسالہ لکھا ہے جس میں دلائل و براہین سے ثابت کیا گیا کہ بندوں کے افعال ان کا کسب ہیں البتہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں وہ افعال اچھے ہوں یا برے۔ بہرحال انھیں پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے جبکہ معتزلہ اور جہمیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تمھیں اور جو تم عمل کرتے ہو۔‘‘(الصافات:37۔96) لہذا یہ عقیدہ رکھنا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ہم سر ٹھہرانے کے مترادف ہے۔ یہ شرکیہ عقیدہ ہے۔ اگر انسان کی موت اسی عقیدے پر ہوئی تو ایسے مشرک پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کیا ہے قرآن مجید میں شرک کی قباحت و شناعت (گندگی) بیان ہوئی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان آیات کا انتخاب کیا ہے جن میں شرک کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے پیش کردہ حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ بندہ اپنے فعل کا خالق نہیں۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ بندہ اپنے افعال کا خالق ہے شرک پر مبنی عقیدہ ہے۔ وہ ایسا ہے گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا اور اس کے متعلق سخت وعید ہے۔ احادیث میں شرک کو اکبر الکبائر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس بنا پر یہ عقیدہ رکھنا حرام ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے۔
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد (سورۃ حم سجدہ میں) ”تم اس کے شریک بناتے ہو، وہ تو تمام دنیا کا مالک ہے۔“ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے(سورۃ الفرقان)۔“ ”اور بلاشبہ آپ پر اور آپ سے پہلے پیغمبروں پر وحی بھیجی گئی کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل غارت ہو جائے گا اور تم نقصان اٹھانے والوں میں ہو جاؤ گے(سورۃ الزمر)۔“ اور عکرمہ نے کہا «وما يؤمن أكثرهم بالله إلا وهم مشركون» کا مطلب یہ ہے کہ ”اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمان و زمین کو کس نے پیدا کیا تو وہ جواب دیں گے کہ اللہ نے یہ ان کا ایمان ہے لیکن عبادت غیر اللہ کی کرتے ہیں۔“ اور اس باب میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ بندے کے افعال، ان کا کسب سب مخلوق الٰہی ہیں کیونکہ اللہ نے (سورۃ الفرقان میں) فرمایا ”اسی پروردگار نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر ایک انداز سے اس کو درست کیا۔“ اور مجاہد نے کہا کہ (سورۃ الحج میں) جو ہے «ما تنزل الملائكة إلا بالحق» کا معنی یہ ہے کہ ”فرشتے اللہ کا پیغام اور اس کا عذاب لے کر اترتے ہیں۔“ اور (سورۃ الاحزاب) میں جو فرمایا ”سچوں سے ان کی سچائی کا حال پوچھے یعنی پیغمبروں سے جو اللہ کا حکم پہنچاتے ہیں۔“اور (سورۃ حجر) میں فرمایا ”ہم قرآن کے نگہبان ہیں۔“ مجاہد نے کہا یعنی اپنے پاس اور (سورۃ الزمر میں) فرمایا ”اور سچی بات لے کر آیا یعنی قرآن اور اس نے اس کو سچا جانا یعنی مومن جو قیامت کے دن پروردگار سے عرض کرے گا تو نے مجھ کو قرآن دیا تھا، میں نے اس پر عمل کیا۔“
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اللہ کے ہاں سب سے بڑا گناہ کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: تیرا اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ ”میں نے کہا: یہ تو واقعی بہت بڑا گناہ ہے۔“ میں نے پھر پوچھا: اس کے بعد کون سا گناہ عظیم تر ہے؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرنا وہ تیرے ساتھ کھانا کھائیں گے۔“ میں نے کہا:پھر کون سا ؟ آپ نے فرمایا: ”تیرا اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرنا.“
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں کئی ایک فتنوں نے جنم لیا۔ ان میں سے ایک فتنہ خلق قرآن کا تھا۔ کچھ لوگوں کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا قرآن مخلوق ہے۔ اس کے برعکس رد عمل کے طور پر بعض حضرات نے یہ موقف اختیار کیا کہ قرآن ہی غیر مخلوق نہیں بلکہ قرآن تلاوت کرتے وقت قاری کی آواز اور حروف بھی غیر مخلوق ہیں حتی کہ اس حد تک مبالغہ کیا گیا کہ کتابت قرآن کے بعد جو سیاہی اور کاغذ استعمال ہوا ہے وہ بھی غیر مخلوق ہے۔ محدثین کرام رحمۃ اللہ علیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ قاری کی آواز اور ادا ہونے والے حروف تو مخلوق ہیں البتہ تلاوت کیا جانے والا کلام غیر مخلوق ہے کیونکہ تلاوت بندے کا فعل اور اس کا کسب ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ ہے پھر اسی بنیاد پر مسئلہ خلق افعال العباد پیدا ہوا۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق مستقل ایک رسالہ لکھا ہے جس میں دلائل و براہین سے ثابت کیا گیا کہ بندوں کے افعال ان کا کسب ہیں البتہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں وہ افعال اچھے ہوں یا برے۔ بہرحال انھیں پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے جبکہ معتزلہ اور جہمیہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے حالانکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تمھیں اور جو تم عمل کرتے ہو۔‘‘(الصافات:37۔96) لہذا یہ عقیدہ رکھنا کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ہم سر ٹھہرانے کے مترادف ہے۔ یہ شرکیہ عقیدہ ہے۔ اگر انسان کی موت اسی عقیدے پر ہوئی تو ایسے مشرک پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کیا ہے قرآن مجید میں شرک کی قباحت و شناعت (گندگی) بیان ہوئی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان آیات کا انتخاب کیا ہے جن میں شرک کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے پیش کردہ حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ بندہ اپنے فعل کا خالق نہیں۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ بندہ اپنے افعال کا خالق ہے شرک پر مبنی عقیدہ ہے۔ وہ ایسا ہے گویا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا اور اس کے متعلق سخت وعید ہے۔ احادیث میں شرک کو اکبر الکبائر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس بنا پر یہ عقیدہ رکھنا حرام ہے کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے۔
ترجمۃ الباب:
فرمان الہیٰ ہے: ”اور تم(اللہ تعالیٰ) کے لیے شریک ٹھہراتے ہو،حلانکہ وہی تمام دنیا کا مالک ہے“ ¤نیز فرمایا: ”اور بلاشبہ یقیناً آپ کی طرف وحی کی گئی اور آپ سے پہلے لوگوں کی طرف بھی کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل برباد ہوجائے گا۔۔۔۔۔بلکہ آپ صرف اللہ کی عبادت کریں اور شکر کرنے والوں سے ہوجائیں“ ¤فرمان باری تعالیٰ ہے: ”اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے“ عکرمہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ارشاد باری تعالیٰ : ”اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں مگر حال میں کہ وہ مشرک ہی ہوتے ہیں“ ¤(نیز فرمایا:) ”اگر آپ ان پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ۔“ ”اور آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ تو یقیناً کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں۔“ میں مشرکین کا ایمان واقرار بیان ہوا ہے لیکن اس کے باوجود وہ عبادت غیر اللہ کی کرتے ہیں۔¤ اس عنوان میں یہ بھی بیان ہے کہ بندے کے افعال ان کا کسب ہیں مگر سب مخلوق الہیٰ ہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اسی (اللہ) نے ہرچیز کو پیدا کیا ہے پھر اس کا صحیح صحیح اندازی لگایا ہے“ ¤اور امام مجاہد نے فرمان الہیٰ: ( مَا نُنَزِّلُ الْمَلَائِكَةَ إِلَّا بِالْحَقِّ) کی تفسیر میں فرمایا: فرشتے رسالت اور عذاب لے کر نازل ہوتے ہیں۔( ارشاد باری تعالیٰ ہے:) ”تاکہ سچے لوگوں سے ان کی سچائی کے متعلق سوال کرے۔ اس سے مراد اللہ کے پیغمبر ہیں جو اللہ کے احکام پہنچانے والے اور انہیں ادا کرنے والے ہیں۔(نیز فرمایا:) ”اور ہم ہی قرآن کریم کی حفاظت کرنے والے ہیں۔“ یعنی اپنے پاس سے حفاظت کرتے ہیں¤
(ارشاد باری تعالیٰ ہے:) ”اور جو شخص سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی۔“ صدق سے مراد قرآن ہے اور تصدیق کرنے والا مومن ہے جو قیامت کے دن اپنے رب سے عرض کرے گا: تو نے مجھے یہ(قرآن ) دیا تھا جو اس میں ہے میں نے اس پر عمل کیا تھا
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے، ان سے عمرو بن شرجیل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ کون سا گناہ اللہ کے یہاں سب سے بڑا ہے؟ فرمایا یہ کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراؤ حالانکہ اسی نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ میں نے کہا یہ تو بہت بڑا گناہ ہے۔ میں نے عرض کیا: پھر کون سا؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے بچے کو اس خطرہ کی وجہ سے قتل کر دو کہ وہ تمہارے ساتھ کھائے گا۔ میں نے عرض کیا کہ پھر کون؟ فرمایا یہ کہ تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔
حدیث حاشیہ:
زنا بہر حال برا کام ہے مگر یہ بہت ہی زیادہ برا ہے۔ امام بخاری نے یہ حدیث لا کراس طرف اشارہ کیا کہ قدریہ اورمعتزلہ جو بندے کو اپنے کا افعال کا خالق کہتے ہیں وہ گویا اللہ کا برابر والا بندے کو بتاتے ہیں توان کا یہ اعتقاد بہت بڑا گناہ ہوا۔ اللہ کی عبادت کے کاموں میں کسی غیر کو شریک ساجھی بنانا شرک ہے جواتنا بڑا گناہ ہے کہ بغیر توبہ کئے مرنے والے مشرک کے لیے جنت قطعا حرام ہے۔ سارا قرآن مجید شرک کی برائی بیان کرنےسے بھرا ہواہے پھربھی نام نہاد مسلمان ہیں جنہوں نےمزارات بزرگان کاعبادت گاہ بنایا ہوا ہے۔ مزاروں پرسجدہ کرنا بزرگوں سےاپنی مرادیں مانگنا اس کے لیے نذر ونیاز کرناعام جہال نے معمول بنا رکھا ہے جو کھلا ہوا شرک ہے ایسے مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ اصل اسلام سے کس قدر دور جا پڑے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : I asked Allah's Apostle (ﷺ) "What is the biggest sin in the sight of Allah?" He said, "To set up rivals unto Allah though He alone created you." I said, "In fact, that is a tremendous sin," and added, "What next?" He said, "To kill your son being afraid that he may share your food with you." I further asked, "What next?" He said, "To commit illegal sexual intercourse with the wife of your neighbor."