کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب:سورۂ القیامہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ’’قرآن نازل ہوتے وقت اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کر‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Move not your tongue concerning to make haste therewith.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
آپ ﷺ اس آیت کے اترنے سے پہلے وحی اترتے وقت ایسا کرتے تھے۔ ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے یہ نقل کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں، اس وقت تک جب بھی وہ مجھے یاد کرتا ہے اور میری یاد میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہے تشریح اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ذکر وہی معتبر ہے جو زبان سے کیا جائے اور جب تک زبان سے نہ ہو دل سے یاد کرنا اعتبار کے لائق نہیں زبان اور دل ہر دو سے ذکر ہونا لازم وملزوم ہے۔
7524.
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے ارشاد باری تعالیٰ: (لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ) کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا کہ نبی ﷺ نزول وحی کے وقت شدت محسوس کرتے تھے اور اپنے ہونٹ ہلاتے تھے۔ میں تمہیں ہونٹ ہلا کر دکھاتا ہوں جس طرح رسول اللہ ﷺ انہیں حرکت دیا کرتے تھے۔ (راؤی حدیث) سیدنا سعید بن جبیر نے کہا: میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جیسے میں نے سیدنا ابن عباس ؓ کو ہونٹ ہلاتے دیکھا تھا، پھر انہوں نے اپنے دونوں ہونٹ ہلائے۔ (ابن عباس ؓ کہتے ہیں) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اس (وحی) کو آپ کے دل میں جمع کرنا اور زبان سے پڑھوا دینا ہمارے ذمے ہے۔“ یعنی تمہارے سینے میں قرآن کا ج دینا اور اس کا پڑھا دینا ہمارا کام ہے۔ ”پھر جب اس کو پڑھ چکیں تو اس وقت پڑھے ہوئے کی اتباع کریں۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ جبریل کے پڑھتے وقت کان لگا سنتے رہیں اور خاموش رہیں یہ ہمارا ذمہ ہے کہ آپ قرآن اسی طرح پڑھیں گے۔ سیدنا ابن عباس ؓ نے کہا: اس آیت کے اترنے کے بعد سیدنا جبریل ؑ آتے تو رسول اللہ ﷺ کان لگا کر سنتے۔ پھر جب جبریل چلے جاتے تو نبی ﷺ لوگوں کو اسی طرح پڑھ کر سناد یتے جیسا کہ سیدنا جبریل ؑ نے آپ کو پڑھ کر سنایا تھا۔
تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ قرآنی الفاظ جو ہمارے منہ سے نکلتے ہیں یہ ہمارا فعل ہے جو مخلوق ہے اور قرآن کریم جسے پڑھا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو غیر مخلوق ہے یعنی تلاوت اور مَتلُو میں فرق واضح کیا ہے۔ اس سے ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ قاری کو قراءت بھی قدیم ہے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت فرمائی کہ قرآن کے ساتھ زبان کی حرکت قاری کا فعل ہے جو مخلوق اور حادث ہے اور جوپڑھا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو غیر مخلوق ہے جیسا کہ اللہ کریم کا ذکر کرتے وقت زبان کا حرکت کرنا بندے کا فعل اور حادث ہے اور جس کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ وہ قدیم ہے، اسی طرح اس کی صفات بھی قدیم ہیں۔ آئندہ تراجم میں بھی اسی مقصد کو بیان کیا جائے گا۔ (فتح الباري: 623/13)
آپ ﷺ اس آیت کے اترنے سے پہلے وحی اترتے وقت ایسا کرتے تھے۔ ابوہریرہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے یہ نقل کیا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں، اس وقت تک جب بھی وہ مجھے یاد کرتا ہے اور میری یاد میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہے تشریح اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ذکر وہی معتبر ہے جو زبان سے کیا جائے اور جب تک زبان سے نہ ہو دل سے یاد کرنا اعتبار کے لائق نہیں زبان اور دل ہر دو سے ذکر ہونا لازم وملزوم ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے ارشاد باری تعالیٰ: (لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ) کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کیا کہ نبی ﷺ نزول وحی کے وقت شدت محسوس کرتے تھے اور اپنے ہونٹ ہلاتے تھے۔ میں تمہیں ہونٹ ہلا کر دکھاتا ہوں جس طرح رسول اللہ ﷺ انہیں حرکت دیا کرتے تھے۔ (راؤی حدیث) سیدنا سعید بن جبیر نے کہا: میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جیسے میں نے سیدنا ابن عباس ؓ کو ہونٹ ہلاتے دیکھا تھا، پھر انہوں نے اپنے دونوں ہونٹ ہلائے۔ (ابن عباس ؓ کہتے ہیں) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”اس (وحی) کو آپ کے دل میں جمع کرنا اور زبان سے پڑھوا دینا ہمارے ذمے ہے۔“ یعنی تمہارے سینے میں قرآن کا ج دینا اور اس کا پڑھا دینا ہمارا کام ہے۔ ”پھر جب اس کو پڑھ چکیں تو اس وقت پڑھے ہوئے کی اتباع کریں۔“ اس کا مطلب یہ ہے کہ جبریل کے پڑھتے وقت کان لگا سنتے رہیں اور خاموش رہیں یہ ہمارا ذمہ ہے کہ آپ قرآن اسی طرح پڑھیں گے۔ سیدنا ابن عباس ؓ نے کہا: اس آیت کے اترنے کے بعد سیدنا جبریل ؑ آتے تو رسول اللہ ﷺ کان لگا کر سنتے۔ پھر جب جبریل چلے جاتے تو نبی ﷺ لوگوں کو اسی طرح پڑھ کر سناد یتے جیسا کہ سیدنا جبریل ؑ نے آپ کو پڑھ کر سنایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ قرآنی الفاظ جو ہمارے منہ سے نکلتے ہیں یہ ہمارا فعل ہے جو مخلوق ہے اور قرآن کریم جسے پڑھا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو غیر مخلوق ہے یعنی تلاوت اور مَتلُو میں فرق واضح کیا ہے۔ اس سے ان لوگوں کی تردید کرنا مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ قاری کو قراءت بھی قدیم ہے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت فرمائی کہ قرآن کے ساتھ زبان کی حرکت قاری کا فعل ہے جو مخلوق اور حادث ہے اور جوپڑھا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو غیر مخلوق ہے جیسا کہ اللہ کریم کا ذکر کرتے وقت زبان کا حرکت کرنا بندے کا فعل اور حادث ہے اور جس کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ وہ قدیم ہے، اسی طرح اس کی صفات بھی قدیم ہیں۔ آئندہ تراجم میں بھی اسی مقصد کو بیان کیا جائے گا۔ (فتح الباري: 623/13)
ترجمۃ الباب:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے نبی ﷺ سے نقل کیا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”میں اپنے بندے کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا رہے اور میری اپنے ہونٹ ہلاتا رہے۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے (سورۃ القیامہ میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد (لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ) کے متعلق کہ وحی نازل ہوتی ہے تو نبی کریم ﷺ پر اس کا بہت بار پڑتا ہے اور آپ اپنے ہونٹ ہلاتے۔ مجھ سے ابن عباس ؓ نے کہا کہ میں تمہیں ہلا کے دکھاتا ہوں جس طرح نبی کریم ﷺ ہلاتے تھے۔ سعید نے کہا کہ جس طرح ابن عباس ؓ ہونٹ ہلا کر دکھاتے تھے، میں تمہارے سامنے اسی طرح ہلاتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے ہونٹ ہلائے۔ (ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی (لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ) یعنی تمہارے سینے میں قرآن کا ج دینا اور اس کو پڑھا دینا ہمارا کام ہے جب ہم (جبرائیل ؑ کی زبان پر) اس کو پڑھ چکیں اس وقت تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔ مطلب یہ ہے کہ جبرائیل ؑ کے پڑھتے وقت کان لگا کر سنتے رہو اور خاموش رہو، یہ ہمارا ذمہ ہے کہ ہم تم سے ویسا ہی پڑھوا دیں گے۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ اس آیت کے اترنے کے بعد جب جبرائیل ؑ آتے (قرآن سناتے) تو آپ کان لگا کر سنتے۔ جب جبرائیل ؑ چلے جاتے تو آپ لوگوں کو اسی طرح پڑھ کر سنا دیتے جیسے جبرائیل ؑ نے آپ کو پڑھ کر سنایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت اما م بخاری کامقصد یہ ہے کہ ہمارے الفاظ قرآن جومنہ سے نکلتے ہیں یہ ہمارا فعل ہے جومخلوق ہے اورقرآن اللہ کا کلام ہے جوغیر مخلوق ہے۔ حضر ت سعید بن جبیر مشہور تابعی اسدی کوفی ہیں۔ حجاج بن یوسف نےان کوشعبان سنہ 99ھ میں بعمر50سال شہید کیا۔ حضرت سعید بن جبیر کی بدعا سےحجاج بن یوسف پندرہ دن بعد مر گیا۔ یو ں کہتا ہوا کہ میں جب سونے کا ارادہ کرتا ہوں توسعید ین جبیر میرا پاؤں پکڑ لیتا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر مضافات میں دفن کئے گئے۔ رحمه اللہ رحمة واسعة۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Musa bin Abi ' Aisha (RA) : Sa'id bin Jubair reported from Ibn 'Abbas (RA) (regarding the explanation of the Verse: 'Do not move your tongue concerning (the Qur'an) to make haste therewith) . He said, "The Prophet (ﷺ) used to undergo great difficulty in receiving the Divine Inspiration and used to move his lips.' Ibn 'Abbas (RA) said (to Sa'id), "I move them (my lips) as Allah's Apostle (ﷺ) used to move his lips." And Said said (to me), "I move my lips as I saw Ibn 'Abbas (RA) moving his lips," and then he moved his lips. So Allah revealed:-- '( O Muhammad (ﷺ) !) Do not move your tongue concerning (the Qur'an) to make haste therewith. It is for Us to collect it and give you ( O Muhammad (ﷺ) ) the ability to recite it. (i.e., to collect it in your chest and then you recite it).' (75.16-17) But when We have recited it, to you ( O Muhammad (ﷺ) through Gabriel (ؑ)) then follow you its recital.' (75.18) This means, "You should listen to it and keep quiet and then it is upon Us to make you recite it." The narrator added, "So Allah's Apostle (ﷺ) used to listen whenever Gabriel (ؑ) came to him, and when Gabriel (ؑ) left, the Prophet (ﷺ) would recite the Qur'an as Gabriel (ؑ) had recited it to him."