کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: نبی کریمﷺ کا ارشاد کہ ایک شخص جسے اللہ نے قرآن کا علم دیا اور رات اور دن اس میں مشغول رہتا ہے ، اور ایک شخص ہے جو کہتا ہے کہ کاش مجھے بھی اسی جیسا قرآن کا علم ہوتا تو میں بھی ایسا ہی کرتا جیسا کہ یہ کرتا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: ‘If I have been given what this man has been given, I would do the same as he is doing.’)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
تو اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ اس قرآن کے ساتھ «قيام» اس کا فعل ہے۔ اور فرمایا کہ «ومن آياته خلق السموات والأرض واختلاف ألسنتكم وألوانكم» اس کی نشانیوں میں سے آسمان و زمین کا پیدا کرنا ہے اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا ہے۔ اور اللہ جل ذکرہ نے (سورۃ الحج میں) فرمایا «وافعلوا الخير لعلكم تفلحون» اور نیکی کرتے رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو۔
7529.
سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”رشک کے قابل تو دو ہی آدمی ہیں: ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا وہ دن رات اسکی تلاوت کرتا رہتا ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا وہ اسے دن رات خرچ کرتا ہے۔“ (علی بن مدینی نے کہا:) میں نے یہ حدیث سفیان بن عینیہ سے کئی مرتبہ سنی ہے لیکن حدیث صحیح اور متصل ہونے کے باوجود وہ اسے أخبرنا کے الفاظ سے بیان نہیں کرتے۔
تشریح:
1۔عنوان میں ذکر کی گئی پہلی آیت کے مطابق زبانوں کا مختلف ہونا اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے، مختلف زمانوں میں ہر قسم کا کلام آ جاتا ہے۔ ان میں قرآن کریم کی تلاوت بھی ہے جو بندے کا فعل ہے اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔ اسی طرح دوسری آیت میں اچھے کام کرنے کی تلقین ہے۔ ان میں قراءت ذکر الٰہی اوردعا کرنا بھی ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قراءت کرنا قاری کا فعل ہے، جو اس کا کسب اور اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہواہے۔ 2۔ذکر کی گئی احادیث میں قاری کی قراءت اوراس کے قیام کو اس کی طرف منسوب کیا گیا ہے جو اس کا فعل ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا محل استدلال یہی ہے کہ قاری کی زبان کا حرکت کرنا، اس کے ہونٹوں کا ہلنا، پھراس کا قراءت کرنا سب اس کا فعل اور کسب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، البتہ جو کچھ پڑھا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے یوں تعبیر کیا جا سکتا ہے: (الصوت صوت القارئ والكلام كلام الباري) یعنی آواز تو قاری کی ہے اور اس کے ذریعے سے پڑھا جانے والا کلام اللہ رب العزت کا کلام ہے۔ ولله الحمد۔
تو اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ اس قرآن کے ساتھ «قيام» اس کا فعل ہے۔ اور فرمایا کہ «ومن آياته خلق السموات والأرض واختلاف ألسنتكم وألوانكم» اس کی نشانیوں میں سے آسمان و زمین کا پیدا کرنا ہے اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا ہے۔ اور اللہ جل ذکرہ نے (سورۃ الحج میں) فرمایا «وافعلوا الخير لعلكم تفلحون» اور نیکی کرتے رہو تاکہ تم مراد کو پہنچو۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”رشک کے قابل تو دو ہی آدمی ہیں: ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن دیا وہ دن رات اسکی تلاوت کرتا رہتا ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا وہ اسے دن رات خرچ کرتا ہے۔“ (علی بن مدینی نے کہا:) میں نے یہ حدیث سفیان بن عینیہ سے کئی مرتبہ سنی ہے لیکن حدیث صحیح اور متصل ہونے کے باوجود وہ اسے أخبرنا کے الفاظ سے بیان نہیں کرتے۔
حدیث حاشیہ:
1۔عنوان میں ذکر کی گئی پہلی آیت کے مطابق زبانوں کا مختلف ہونا اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی ہے، مختلف زمانوں میں ہر قسم کا کلام آ جاتا ہے۔ ان میں قرآن کریم کی تلاوت بھی ہے جو بندے کا فعل ہے اور اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔ اسی طرح دوسری آیت میں اچھے کام کرنے کی تلقین ہے۔ ان میں قراءت ذکر الٰہی اوردعا کرنا بھی ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ قراءت کرنا قاری کا فعل ہے، جو اس کا کسب اور اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہواہے۔ 2۔ذکر کی گئی احادیث میں قاری کی قراءت اوراس کے قیام کو اس کی طرف منسوب کیا گیا ہے جو اس کا فعل ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا محل استدلال یہی ہے کہ قاری کی زبان کا حرکت کرنا، اس کے ہونٹوں کا ہلنا، پھراس کا قراءت کرنا سب اس کا فعل اور کسب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، البتہ جو کچھ پڑھا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسے یوں تعبیر کیا جا سکتا ہے: (الصوت صوت القارئ والكلام كلام الباري) یعنی آواز تو قاری کی ہے اور اس کے ذریعے سے پڑھا جانے والا کلام اللہ رب العزت کا کلام ہے۔ ولله الحمد۔
ترجمۃ الباب:
فرمان الہیٰ ہے: ”اس کی نشانیوں میں سے آسماںوں اور زمین کا پیدا کرنا اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا مختلف ہونا ہے“ ¤نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اچھے کام کرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا رشک کے قابل تو دو ہی آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے قرآن دیا اور وہ اس کی تلاوت رات دن کرتا رہتا ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ نے مال دیا ہو اور وہ اسے رات و دن خرچ کرتا رہا۔ علی بن عبداللہ نے کہا کہ میں نے یہ حدیث سفیان بن عیینہ سے کئی بار سنی «أخبرنا» کے لفظوں کے ساتھ انہیں کہتا سنا باوجود اس کے ان کی یہ حدیث صحیح اور متصل ہے۔
حدیث حاشیہ:
باب اوراحادیث ذیل سےامام بخاری نے یہ ثابت کیا ہےکہ قرآن مجید مخلوق ہے اورہم جو تلاوت کرتے ہیں یہ ہمارا فعل ہے جو فعل ہونے کی حیثیت سےمخلوق ہے۔ کلام الہی ہر وقت اورہر حال میں کلام الہی ہے جوغیرمخلوق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim's father (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Not to wish to be the like of except the like of two (persons): a man whom Allah has given the knowledge of the Qur'an and he recites it during the hours of the night and the hours of the day; and a man whom Allah has given wealth and he spends it (in Allah's Cause) during the hours of the night and during the hours of the day."