کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ المائدہ میں ) فرمان اے رسول ! تیرے پروردگار کی طرف سے جو تجھ پر اترا اس کو (بےکھٹکے ) لوگوں تک پہنچا دے
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “O Messenger! Proclaim which has been sent down to you from your Lord. And if you do not, then you have not conveyed His Message…”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور زہری نے کہا اللہ کی طرف سے پیغام بھیجنا اور اس کے رسول پر اللہ کا پیغام پہنچانا اور ہمارے اوپر اس کا تسلیم کرنا ہے۔ اور(سورۃ الجن)میں فرمایا«ليعلم أن قد أبلغوا رسالات ربهم»”اس لیے کہ وہ پیغمبر جان لے کہ فرشتوں نے اپنے مالک کا پیغام پہنچا دیا۔“اور(سورۃ الاعراف)میں(نوح علیہ السلام اور ہود ؑ کی زبانوں سے)فرمایا«أبلغكم رسالات ربي»”میں تم کو اپنے مالک کے پیغامات پہنچاتا ہوں۔“اور کعب بن مالک جب نبی کریمﷺکو چھوڑ کر غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے کہا عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھ لے گا اور عائشہ ؓ نے کہا جب تجھ کو کسی کا کام اچھا لگے تو یوں کہہ کہ عمل کئے جاؤ اللہ اور اس کا رسول اور مسلمان تمہارا کام دیکھ لیں گے، کسی کا نیک عمل تجھ کو دھوکا میں نہ ڈالے۔ اور معمر نے کہا(سورۃ البقرہ میں)یہ جو فرمایا«ذلك الكتاب»تو کتاب سے مراد قرآن ہے۔«هدى للمتقين»وہ ہدایت کرنے والا ہے یعنی سچا راستہ بتانے والا ہے پرہیزگاروں کو۔“جیسے(سورۃ الممتحنہ)میں فرمایا«ذلكم حكم الله»”یہ اللہ کا حکم ہے اس میں کوئی شک نہیں“یعنی بلا شک یہ اللہ کی اتاری ہوئی آیات ہیں یعنی قرآن کی نشانیاں(مطلب یہ ہے کہ دونوں آیات میں«ذلك»سے«هذا»مراد ہے)اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے(سورۃ یونس میں)«وجرين بهم»سے«وجرين بكم»مراد ہے اور انس نے کہا کہ نبی کریمﷺ نے ان کے ماموں حرام بن ملحان کو ان کی قوم بنی عامر کی طرف بھیجا۔ حرام نے ان سے کہا کیا تم مجھ کو امان دو گے کہ میں نبی کریم ﷺکا پیغام تم کو پہنچا دوں اور ان سے باتیں کرنے لگے۔تشریح:اس باب سے غرض امام بخاری کی یہ ہے کہ اللہ کا پیغام یعنی قرآن مجید غیر محلوق ہے لیکن اس کا پہنچانا اس کا سنانا رسول اللہﷺ کا فعل ہے اسی لے اللہ نے اسی کے خلاف کے لئے فان لم تفعل میں فعل کا صیغہ استعمال کیا فرمایا قرآن مجید کا غیر مخلوق ہونا امت کا متفقہ عقیدہ ہے عائشہؓ کا قول ان لوگوں سے متعلق ہے جو بظاہر قرآن کے بڑے قاری اور نمازی تھے مگر عثمان ؓ کے باغی ہوکر ان کے قتل پر مستعد ہوئے عائشہؓ کے کلام کا مطلب یہی ہے کہ کسی کی ایک آدھ اچھی بات دیکھ کر یہ اعتقاد نہ کر لینا چاہیے کہ وہ آدمی ہے بلکہ اخلاق اور عمل کے لحاظ سے اس کی اچھی طرح سے جانچ کر لینی چاہئیے
7530.
سیدنا مغیرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ”ہمارے نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اپنے رب کے پیغامات میں سے یہ پیغام پہنچایا کہ ہم میں سے کوئی (اللہ کے راستے میں) قتل کیا جائے گا تو وہ جنت میں جائے گا۔“
تشریح:
یہ حدیث ایک طویل حدیث کا حصہ ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایرانی فوج کے سامنے پر جوش تقریر کی تھی۔ جب ایرانی کمانڈر نے پوچھا تھا کہ تم کون ہو اور تمہارا کیا مقصد ہے؟ مذکورہ اقتباس اس تقریر سے ہے جو حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کی تھی۔ (صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث: 3159) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو امر، نہی، وعدہ، وعید اور گزشتہ اقوام کے حالات وواقعات آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے وہ کماحقہ ہم تک پہنچا دیے۔ پیغامات کا پہنچانا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور عمل ہے اور یہ رسالت کے علاوہ ہے اور ابلاغ مخلوق ہے جبکہ رسالت اللہ تعالیٰ کے امرونہی پر مشتمل ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔
مذکورہ عنوان سے مقصود یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچانا،یہ ان کافعل اور عمل ہے جس پر انھیں رب کی طرف سے جزا اور ثواب دیا جائے گا اور جو پیغام پہنچانا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔اور وہ غیر مخلوق ہے،یعنی رسالت اور ابلاغ رسول کی ذمہ داری ہے جواس کا فعل اور عمل ہے۔حضرت معمر کے حوالے سے جو بیان ہوا ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ دلالت کی مختلف قسمیں ہیں۔بعض اوقات کسی فنی نکتے کی وجہ سے اشارہ قریب کے مقام پر اشارہ بعید استعمال ہوتا ہے اور ضمیر خطاب کی جگہ پر ضمیر غائب استعمال ہوتی ہے۔اس کی متعدد مثالیں پیش کی گئی ہیں۔واضح رہے کہ رسالت میں چار چیزیں ہوتی ہیں:ایک مرسل (بھیجنے والا) دوسرا مرسل الیہ،یعنی جس کی طرف بھیجا گیا ،تیسرا رسول (پیغام لانے والا) اور چوتھا نفس رسالت (وہ پیغام جو بھیجا گیا ہے۔) ان میں سے ہر ایک کے لیے امر ہے۔مرسل کے لیے ارسال ہے۔رسول کے لیے ابلاغ اور مرسل الیہ کے لیے قبول وتسلیم ہے۔رسالت سے مراد وہ احکام واوامر ہیں جنھیں دوسروں تک پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔حضرت حرام بن ملحان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا جو اللہ رب العزت کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا تھا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ رسالت اللہ تعالیٰ کا پیغام ہےجو اس کے کلام پر مشتمل ہوتا ہے وہ غیر مخلوق ہے اور ابلاغ یعنی اس پیغام کا آگے قوم کو پہنچانا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور فعل ہے ۔ان دونوں میں فرق واضح ہے۔اسی طرح تلاوت قاری کا عمل ہے اور متلو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔واللہ اعلم۔
اور زہری نے کہا اللہ کی طرف سے پیغام بھیجنا اور اس کے رسول پر اللہ کا پیغام پہنچانا اور ہمارے اوپر اس کا تسلیم کرنا ہے۔ اور (سورۃ الجن) میں فرمایا «ليعلم أن قد أبلغوا رسالات ربهم» ”اس لیے کہ وہ پیغمبر جان لے کہ فرشتوں نے اپنے مالک کا پیغام پہنچا دیا۔“ اور (سورۃ الاعراف) میں (نوح علیہ السلام اور ہود ؑ کی زبانوں سے) فرمایا«أبلغكم رسالات ربي» ”میں تم کو اپنے مالک کے پیغامات پہنچاتا ہوں۔“ اور کعب بن مالک جب نبی کریم ﷺکو چھوڑ کر غزوہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے کہا عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارے کام دیکھ لے گا اور عائشہ ؓ نے کہا جب تجھ کو کسی کا کام اچھا لگے تو یوں کہہ کہ عمل کئے جاؤ اللہ اور اس کا رسول اور مسلمان تمہارا کام دیکھ لیں گے، کسی کا نیک عمل تجھ کو دھوکا میں نہ ڈالے۔ اور معمر نے کہا (سورۃ البقرہ میں) یہ جو فرمایا «ذلك الكتاب» تو کتاب سے مراد قرآن ہے۔ «هدى للمتقين»وہ ہدایت کرنے والا ہے یعنی سچا راستہ بتانے والا ہے پرہیزگاروں کو۔“ جیسے (سورۃ الممتحنہ) میں فرمایا «ذلكم حكم الله» ”یہ اللہ کا حکم ہے اس میں کوئی شک نہیں“ یعنی بلا شک یہ اللہ کی اتاری ہوئی آیات ہیں یعنی قرآن کی نشانیاں (مطلب یہ ہے کہ دونوں آیات میں «ذلك» سے «هذا» مراد ہے) اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے (سورۃ یونس میں) «وجرين بهم» سے «وجرين بكم» مراد ہے اور انس نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ان کے ماموں حرام بن ملحان کو ان کی قوم بنی عامر کی طرف بھیجا۔ حرام نے ان سے کہا کیا تم مجھ کو امان دو گے کہ میں نبی کریم ﷺکا پیغام تم کو پہنچا دوں اور ان سے باتیں کرنے لگے۔تشریح:اس باب سے غرض امام بخاری کی یہ ہے کہ اللہ کا پیغام یعنی قرآن مجید غیر محلوق ہے لیکن اس کا پہنچانا اس کا سنانا رسول اللہﷺ کا فعل ہے اسی لے اللہ نے اسی کے خلاف کے لئے فان لم تفعل میں فعل کا صیغہ استعمال کیا فرمایا قرآن مجید کا غیر مخلوق ہونا امت کا متفقہ عقیدہ ہے عائشہؓ کا قول ان لوگوں سے متعلق ہے جو بظاہر قرآن کے بڑے قاری اور نمازی تھے مگر عثمان ؓ کے باغی ہوکر ان کے قتل پر مستعد ہوئے عائشہؓ کے کلام کا مطلب یہی ہے کہ کسی کی ایک آدھ اچھی بات دیکھ کر یہ اعتقاد نہ کر لینا چاہیے کہ وہ آدمی ہے بلکہ اخلاق اور عمل کے لحاظ سے اس کی اچھی طرح سے جانچ کر لینی چاہئیے
حدیث ترجمہ:
سیدنا مغیرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ”ہمارے نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اپنے رب کے پیغامات میں سے یہ پیغام پہنچایا کہ ہم میں سے کوئی (اللہ کے راستے میں) قتل کیا جائے گا تو وہ جنت میں جائے گا۔“
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث ایک طویل حدیث کا حصہ ہے۔ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایرانی فوج کے سامنے پر جوش تقریر کی تھی۔ جب ایرانی کمانڈر نے پوچھا تھا کہ تم کون ہو اور تمہارا کیا مقصد ہے؟ مذکورہ اقتباس اس تقریر سے ہے جو حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کی تھی۔ (صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث: 3159) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو امر، نہی، وعدہ، وعید اور گزشتہ اقوام کے حالات وواقعات آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے وہ کماحقہ ہم تک پہنچا دیے۔ پیغامات کا پہنچانا یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور عمل ہے اور یہ رسالت کے علاوہ ہے اور ابلاغ مخلوق ہے جبکہ رسالت اللہ تعالیٰ کے امرونہی پر مشتمل ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔
ترجمۃ الباب:
امام زہری نے فرمایا: اللہ کی طرف سے رسالت ہے، رسول اللہﷺ کے ذمے اس پیغام کا آگے پہنچانا اور ہم پر اس کا تسلیم کرنا ضروری ہے¤ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”تاکہ وہ (رسول) جان لے کہ فرشتوں نے اپنے رب کے پیغامات صحیح صحیح پہنچا دیے ہیں ¤نیز فرمایا: ”میں تمہیں اپنے رب کے پیغام پہناتا ہوں۔ ¤سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: جب وہ(جنگ وتبوک میں) نبی ﷺ سے پیچھے رہ گئے تھے: ”اور عنقریب اللہ تمہارا عمل دیکھے گا اور اس کا رسول بھی۔ ¤سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: جب تجھے کسی کا کام اچھا تو یوں لگے تو یوں کہو: ”عمل کیے جاؤ،عنقریب اللہ تمہارا عمل دیکھے گا اور اس کا رسول اور اہل ایمان بھی۔“ کسی کا نیک عمل تجھے دھوکے میں نہ ڈالے¤سیدنا معمر نے کہا: ارشاد باری تعالیٰ : یہ کتاب(اس میں کوئی شک نہیں) میں کتاب سے مراد قرآن مجید ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”متقین کے لیے سراسر ہدایت ہے“ یعنی بیان اور دلالت کے زریعے سے ہدایت کرتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”یہ اللہ کا حکم ہے“ ذلکم سے مراد ھذا ہے¤ « لاریب فیہ» اسکے معنیٰ ہیں: اس کتاب میں کوئی شک نہیں¤ارشاد باری تعالیٰ ہے: یہ اللہ کی نشانیاں ہیں۔ اس آیت میں تلک سے راد ھذا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”حتیٰ کہ جب تم کشتی میں ہوتے ہو اور کشتیاں باد موافق سے انہیں کے کر چلتی ہیں۔“ اس آیت کریمہ میں بِھِم سے مراد بِکُمْ ہے، یعنی تمہیں لے کر چلتی ہیں¤سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی ﷺ نے ان کے ماموں سیدنا حرام ؓ کو ایک قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا:کیا تم امن دیتے ہو کہ میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کا پیغام پہنچاؤں ؟ اس کے بعد انہوں نے پیغام پہنچانا شروع کر دیا اور ان سے باتیں کرنے لگے¤
٭فائدہ: مذکورہ عنوان سے مقصود یہ ہےکہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سےاللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانا، یہ ان کا فعل اور عمل ہے، جس پر انہیں رب کی طرف سے جزا اور ثواب دیاجائے گا اور جو ”پیغام“ پہنچانا ہے وہ اللہ کا کلام ہے اور وہ غیر مخلوق ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن جعفر الرقی نے بیان کیا، ان سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے سعید بن عبیداللہ ثقفی نے بیان کیا، ان سے بکر بن عبداللہ مزنی اور زیاد بن جبیر بن حیہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ بن شعبہ ؓ نے (ایران کی فوج کے سامنے) کہا کہ ہمارے نبی ﷺ نے ہمیں اپنے رب کے پیغامات میں سے یہ پیغام پہنچایا کہ ہم میں سے جو (فی سبیل اللہ) قتل کیا جائے گا وہ جنت میں جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Mughira: Our Prophet (ﷺ) has informed us our Lord's Message that whoever of us is martyred, will go to Paradise.