کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: نبی کریم ﷺ کا اپنے رب سے روایت کرنا
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: What the Prophet (saws) mentioned and narrated of his Lord’s Sayings)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7540.
سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کو اونٹنی پر سوار دیکھا جبکہ آپ سورت ”الفتح“ یا اس کی کچھ آیات پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ نے تلاوت کرتے وقت ترجیع فرمائی۔ (راؤی حدیث) معاویہ بن قرہ نے سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ کی قراءت کی حکایت کرتے ہوئے کہا: اگر لوگ تم پرہجوم نہ کریں تو میں ترجیع کروں جیسے ابن مغفل ؓ نے ترجیع کی تھی۔ وہ اس سلسلے میں نبی ﷺ کی نقل کرتے تھے۔ (شعبہ نے کہا:) میں نے معاویہ سے پوچھا کہ ابن مغفل ؓ کیس ترجیع کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آآآ تین بار مد کے ساتھ آواز دہراتے تھے۔
تشریح:
1۔آواز کو باربار دہرا کر پہلے پست، پھر بلند آواز سے پڑھنا ترجیع کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس انداز سے قرآن مجید کی تلاوت کرنا اونٹنی پر بیٹھنے کی وجہ سے اضطراری نہیں تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادے اور اختیار سے خوش الحانی کے طور پر یہ انداز اپنایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع کے علاوہ بھی قرآن مجید کی تلاوت اس انداز سے فرمائی ہے، چنانچہ حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرماتی ہیں کہ میں نےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز قرآن خوانی کو ملاحظہ کیا۔ میں اپنے بستر پر سوئی ہوئی تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ترجیع کے ساتھ قرآن مجید پڑھ رہے تھے۔ (أصل صفة الصلاة للألباني: 568/2 وشرح کتاب التوحید للغنیمان: 581/2) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ترجیع کو اختیار کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار کیا ہوا اپنا انداز اور فعل تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹوں کو حرکت دے کر اپنی آواز کو گلے میں بار بار پھیرتے اور کلام باری تعالیٰ کو دہراتے۔ اس انداز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو اپنے رب کا کلام پہنچایا۔ آواز تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔ اور کلام اللہ تعالیٰ کا تھا جوغیر مخلوق ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کو اونٹنی پر سوار دیکھا جبکہ آپ سورت ”الفتح“ یا اس کی کچھ آیات پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے فرمایا: آپ ﷺ نے تلاوت کرتے وقت ترجیع فرمائی۔ (راؤی حدیث) معاویہ بن قرہ نے سیدنا عبداللہ بن مغفل ؓ کی قراءت کی حکایت کرتے ہوئے کہا: اگر لوگ تم پرہجوم نہ کریں تو میں ترجیع کروں جیسے ابن مغفل ؓ نے ترجیع کی تھی۔ وہ اس سلسلے میں نبی ﷺ کی نقل کرتے تھے۔ (شعبہ نے کہا:) میں نے معاویہ سے پوچھا کہ ابن مغفل ؓ کیس ترجیع کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آآآ تین بار مد کے ساتھ آواز دہراتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
1۔آواز کو باربار دہرا کر پہلے پست، پھر بلند آواز سے پڑھنا ترجیع کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس انداز سے قرآن مجید کی تلاوت کرنا اونٹنی پر بیٹھنے کی وجہ سے اضطراری نہیں تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادے اور اختیار سے خوش الحانی کے طور پر یہ انداز اپنایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع کے علاوہ بھی قرآن مجید کی تلاوت اس انداز سے فرمائی ہے، چنانچہ حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرماتی ہیں کہ میں نےایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انداز قرآن خوانی کو ملاحظہ کیا۔ میں اپنے بستر پر سوئی ہوئی تھی اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم ترجیع کے ساتھ قرآن مجید پڑھ رہے تھے۔ (أصل صفة الصلاة للألباني: 568/2 وشرح کتاب التوحید للغنیمان: 581/2) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے وقت ترجیع کو اختیار کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اختیار کیا ہوا اپنا انداز اور فعل تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان اور ہونٹوں کو حرکت دے کر اپنی آواز کو گلے میں بار بار پھیرتے اور کلام باری تعالیٰ کو دہراتے۔ اس انداز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو اپنے رب کا کلام پہنچایا۔ آواز تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہے۔ اور کلام اللہ تعالیٰ کا تھا جوغیر مخلوق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن ابی سریح نے بیان کیا، کہا ہم کو شبابہ نے خبر دی، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے معاویہ بن قرہ نے، ان سے عبداللہ بن مغفل مزنی ؓ نے بیان کیا کہ میں نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ اپنی ایک اونٹنی پر سوار تھے اور سورۃ الفتح پڑھ رہے تھے یا سورۃ الفتح میں سے کچھ آیات پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ نے اس میں ترجیع کی۔ شعبہ نے کہا یہ حدیث بیان کر کے معاویہ نے اس طرح آواز دہرا کر قراءت کی جیسے عبداللہ بن مغفل کیا کرتے تھے اور معاویہ نے کہا اگر مجھ کو اس کا خیال نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے پاس جمع ہو کر ہجوم کریں گے تو میں اسی طرح آواز دہرا کر قراءت کرتا جس طرح عبداللہ بن مغفل نے نبی کریم ﷺ کی طرح آواز دہرانے کو نقل کیا تھا۔ شعبہ نے کہا میں نے معاویہ سے پوچھا ابن مغفل کیوں کر آواز دہراتے تھے؟ انہوں نے کہا آآآ تین تین بار مد کے ساتھ آواز دہراتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
آواز کو دہرا دہرا کر پہلے پست پھر بلند سے پڑھنا ترجیع کہلاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Shu'ba: Mu'awiya bin Qurra reported that 'Abdullah bin Al-Maghaffal Al-Muzani said, "I saw Allah's Apostle (ﷺ) on the day of the Conquest of Makkah, riding his she-camel and reciting Surat-al-Fath (48) or part of Surat-al-Fath. He recited it in a vibrating and pleasant voice. Then Mu'awiya recited as 'Abdullah bin Mughaffal had done and said, "Were I not afraid that the people would crowd around me, I would surely recite in a vibrating pleasant voice as Ibn Mughaffal did, imitating the Prophet." I asked Muawiyah, "How did he recite in that tone?" He said thrice, "A, A , A."