کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: تورات اور اس کے علاوہ دوسری آسمانی کتابوں کی تفسیر اور ترجمہ عربی وغیرہ میں کرنے کا جائز ہونا
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: What is allowed as regards the interpretation of the Taurat and other Holy Books)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میںکہ”پس تم توریت لاؤ اور اسے پڑو اگر تم سچے ہو۔“
7542.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: ”اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہل کتاب کی تصدیق وتکذیب نہ کرو بلکہ یوں کہو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر بھی جو ہم پر نازل کیا گیا۔“
تشریح:
1۔اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں اور ان کی مذہبی کتاب تورات عبرانی زبان میں تھی۔ انھوں نے اپنی خواہشات اور مفادات کے پیش نظر اس میں ردوبدل کر دیا تھا۔ ایسے حالات میں ان کے ترجمہ اور تفسیر کا کیسے اعتبار کیا جاتا۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے جو اہل اسلام پر تعلیمات قرآن اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی صورت میں اتاری تھیں ان کی موجودگی میں اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے کلام کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے تواس ترجمے کو اللہ کا کلام نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ تو مترجم کی کوشش وکاوش اور اس کا فعل ہے اور بندے کا فعل مخلوق ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔ اس سے اشاعرہ کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام جس زبان میں بھی ترجمہ کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہی رہتا ہے، حالانکہ دلائل کے اعتبار سے یہ موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میں کہ ”پس تم توریت لاؤ اور اسے پڑو اگر تم سچے ہو۔“
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: ”اہل کتاب تورات کو عبرانی زبان میں پڑھتے اور اہل اسلام کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہل کتاب کی تصدیق وتکذیب نہ کرو بلکہ یوں کہو: ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر بھی جو ہم پر نازل کیا گیا۔“
حدیث حاشیہ:
1۔اہل کتاب سے مراد یہودی ہیں اور ان کی مذہبی کتاب تورات عبرانی زبان میں تھی۔ انھوں نے اپنی خواہشات اور مفادات کے پیش نظر اس میں ردوبدل کر دیا تھا۔ ایسے حالات میں ان کے ترجمہ اور تفسیر کا کیسے اعتبار کیا جاتا۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے جو اہل اسلام پر تعلیمات قرآن اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی صورت میں اتاری تھیں ان کی موجودگی میں اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے کلام کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے تواس ترجمے کو اللہ کا کلام نہیں کہا جا سکتا کیونکہ وہ تو مترجم کی کوشش وکاوش اور اس کا فعل ہے اور بندے کا فعل مخلوق ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔ اس سے اشاعرہ کی تردید مقصود ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام جس زبان میں بھی ترجمہ کیا جائے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہی رہتا ہے، حالانکہ دلائل کے اعتبار سے یہ موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”( آپ کہہ دیں کہ ) اگر تم سچے ہو تو لاؤ تورات پھر اسے پڑھو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہیں علی بن مبارک نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن ابی کثیر نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ اہل کتاب توریت کو عبرانی میں پڑھتے اور مسلمانوں کے لیے اس کی تفسیر عربی میں کرتے تھے۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم نہ اہل کتاب کی تصدیق کرو اور نہ اس کی تکذیب، بلکہ کہو کہ ہم اللہ اور اس کی تمام نازل کی ہوئی کتابوں پر ایمان لائے۔ الآیہ۔
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب اس حدیث سے یوں نکلا کہ اگر اہل کتاب سچ بولیں توان کی کتاب کا ترجمہ بھی وہی ہوگا جو اللہ کی طرف سےاترا۔ امام بیہقی نےکہا کہ اللہ کا کلام باختلاف لغات مختلف نہیں ہوتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The people of the Scripture used to read the Torah in Hebrew and explain it to the Muslims in Arabic. Then Allah's Apostle (ﷺ) said, "Do not believe the people of the Scripture, and do not disbelieve them, but say, 'We believe in Allah and whatever has been revealed...' (3.84)