کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: تورات اور اس کے علاوہ دوسری آسمانی کتابوں کی تفسیر اور ترجمہ عربی وغیرہ میں کرنے کا جائز ہونا
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: What is allowed as regards the interpretation of the Taurat and other Holy Books)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میںکہ”پس تم توریت لاؤ اور اسے پڑو اگر تم سچے ہو۔“
7543.
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ”نبی ﷺ کے پاس ایک یہودی کے پاس ایک یہودی مرد اور یہودی عورت کو لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ ﷺ نے یہودیوں سے پوچھا: تم ایسے (مجرموں) کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہم ان کا منہ کالا کرکے انہیں ذلیل ورسوا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”اگر تم اس بات میں سچے ہوتو رات لاؤ اور اسے پڑھ کر سناؤ۔“ چنانچہ وہ تورات لائے اور ایک آدمی سے جس پر وپ مطمئن تھے کہا: اے اعور! اسے پڑھ۔ چنانچہ اس نے پڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک مقام پر پہنچ کر اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ عبداللہ بن سلام ؓ نے فرمایا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ جب اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم چمک رہی تھی۔ اس نے کہا: اے محمد! ان دونوں کے لیے رجم کا حکم تو واقعی ہے لیکن ہم اس حکم کو آپس میں چھپا کرتےہیں۔ پھر آپ کے حکم سے ان دونوں کو رجم کیا گیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر نےکہا: میں نے دیکھا کہ زانی مرد اپنی داشتہ کو پتھروں سے بچانے کے لیے اس پر جھکا پڑتا تھا۔
تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبرانی زبان نہیں جانتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تورات لانے کا حکم دیا اور وہ عبرانی زبان میں تھی گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کلام اللہ کا عربی زبان میں ترجمہ کرنے کی اجازت دی۔ اب دواحتمال ہیں: ایک یہ کہ تورات پڑھنے والا عبرانی زبان میں پڑھتا، پھر اس کا عربی زبان میں ترجمہ کرتا، اس صورت میں آیت رجم پر ہاتھ رکھنے کا مطلب یہ تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے جو عبرانی زبان جانتے تھے انھیں اس امر کا پتا نہ چل سکے کہ تورات میں رجم کرنے کا حکم موجود ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ وہ اسے عربی زبان میں پڑھتا۔ اس صورت میں آیت رجم پر اس لیے ہاتھ رکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حکم کو چھپایا جائے۔ بالآخر یہ چوری پکڑی گئی اور بدکاری کے مرتکب مرد، عورت دونوں کو رجم کردیا گیا۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ ترجمہ اور اصل میں فرق واضح ہے کہ اصل اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ترجمہ انسانی کوشش وکاوش اور بندے کا فعل ہے۔ بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں جبکہ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ بندے اپنے افعال کے خود خالق ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میں کہ ”پس تم توریت لاؤ اور اسے پڑو اگر تم سچے ہو۔“
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ”نبی ﷺ کے پاس ایک یہودی کے پاس ایک یہودی مرد اور یہودی عورت کو لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا۔ آپ ﷺ نے یہودیوں سے پوچھا: تم ایسے (مجرموں) کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو؟“ انہوں نے کہا: ہم ان کا منہ کالا کرکے انہیں ذلیل ورسوا کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: ”اگر تم اس بات میں سچے ہوتو رات لاؤ اور اسے پڑھ کر سناؤ۔“ چنانچہ وہ تورات لائے اور ایک آدمی سے جس پر وپ مطمئن تھے کہا: اے اعور! اسے پڑھ۔ چنانچہ اس نے پڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ ایک مقام پر پہنچ کر اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ عبداللہ بن سلام ؓ نے فرمایا: اپنا ہاتھ اٹھاؤ۔ جب اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو وہاں آیت رجم چمک رہی تھی۔ اس نے کہا: اے محمد! ان دونوں کے لیے رجم کا حکم تو واقعی ہے لیکن ہم اس حکم کو آپس میں چھپا کرتےہیں۔ پھر آپ کے حکم سے ان دونوں کو رجم کیا گیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر نےکہا: میں نے دیکھا کہ زانی مرد اپنی داشتہ کو پتھروں سے بچانے کے لیے اس پر جھکا پڑتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبرانی زبان نہیں جانتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں تورات لانے کا حکم دیا اور وہ عبرانی زبان میں تھی گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں کلام اللہ کا عربی زبان میں ترجمہ کرنے کی اجازت دی۔ اب دواحتمال ہیں: ایک یہ کہ تورات پڑھنے والا عبرانی زبان میں پڑھتا، پھر اس کا عربی زبان میں ترجمہ کرتا، اس صورت میں آیت رجم پر ہاتھ رکھنے کا مطلب یہ تھا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں سے جو عبرانی زبان جانتے تھے انھیں اس امر کا پتا نہ چل سکے کہ تورات میں رجم کرنے کا حکم موجود ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ وہ اسے عربی زبان میں پڑھتا۔ اس صورت میں آیت رجم پر اس لیے ہاتھ رکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حکم کو چھپایا جائے۔ بالآخر یہ چوری پکڑی گئی اور بدکاری کے مرتکب مرد، عورت دونوں کو رجم کردیا گیا۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ ترجمہ اور اصل میں فرق واضح ہے کہ اصل اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور ترجمہ انسانی کوشش وکاوش اور بندے کا فعل ہے۔ بندوں کے افعال اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں جبکہ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ بندے اپنے افعال کے خود خالق ہیں۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”( آپ کہہ دیں کہ ) اگر تم سچے ہو تو لاؤ تورات پھر اسے پڑھو۔“
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس ایک یہودی مرد اور عورت لائے گئے، جنہوں نے زنا کیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے یہودیوں سے پوچھا کہ تم ان کے ساتھ کیا کرتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم ان کا منہ کالا کر کے انہیں رسوا کرتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ پھر توریت لاؤ اور اس کی تلاوت کرو اگر تم سچے ہو چنانچہ وہ (توریت)لائے اور ایک شخص سے جس پر وہ مطمئن تھے کہا کہ اے اعور! پڑھو۔ چنانچہ اس نے پڑھا اور جب اس کے ایک مقام پر پہنچا تو اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اپنا ہاتھ اٹھاؤ، جب اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو اس میں آیت رجم بالکل واضح طور پر موجود تھی، اس نے کہا: اے محمد! ان پر رجم کا حکم تو واقعی ہے لیکن ہم اسے آپس میں چھپاتے ہیں۔ چنانچہ دونوں رجم کئے گئے، میں نے دیکھا کہ مرد عورت کو پتھر سے بچانے کے لیے اس پر جھکا پڑتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ آنحضرت ﷺ عبرانی زبان نہیں جانتے تھے پھر جو آپ نےحکم دیا کہ توراۃ لاکر سناؤ۔ گویا ترجمہ کرنے کی اجازت دی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : A Jew and Jewess were brought to the Prophet (ﷺ) on a charge of committing an illegal sexual intercourse. The Prophet (ﷺ) asked the Jews, "What do you (usually) do with them?" They said, "We blacken their faces and disgrace them." He said, "Bring here the Torah and recite it, if you are truthful." They (fetched it and) came and asked a one-eyed man to recite. He went on reciting till he reached a portion on which he put his hand. The Prophet (ﷺ) said, "Lift up your hand!" He lifted his hand up and behold, there appeared the verse of Ar-Rajm (stoning of the adulterers to death). Then he said, " O Muhammad (ﷺ) ! They should be stoned to death but we conceal this Divine Law among ourselves." Then the Prophet (ﷺ) ordered that the two sinners be stoned to death and, and they were stoned to death, and I saw the man protecting the woman from the stones. (See Hadith No. 809, Vol. 8)