کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
نبی کریم ﷺ کا ارشاد کہ قرآن کا ماہر ( جید حافظ ) ( قیامت کے دن ) لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہو گا جو عزت والے اور اللہ کے تابعدار ہیں (اور یہ فرمانا) کہ قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “A person who is perfect in reciting and memorizing the Qur'an will be with the honourable, pious and just scribes.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7545.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے ان پر جب بہتان لگا تو انہوں نے فرمایا: میں اپنے بستر پر لیٹ گئی اور مجھے یقین تھا کہ میں اس تہمت سے بری ہوں اور اللہ تعالیٰ میری براءت ضرور کرے گا لیکن اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق قرآنی آیات نازل فرمائے گا جن کی ہمیشہ تلاوت کی جاتی رہے گی۔ میرے نزدیک میری حیثیت اس سے کمتر تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق ایسا کلام نازل فرمائے جس کی تلاوت ہو، آخر کار اللہ تعالیٰ نے میرے متعلق یہ پوری دس آیات نازل فرمائیں: بلاشبہ وہ لوگ جنہوں نے بہتان لگایا وہ تمہی میں سے ایک گروہ ہے۔۔۔۔۔ آخر تک۔
تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل الفاظ سے عنوان ثابت کیا ہے: ’’میرے بارے میں ایسی وحی نازل ہو گی جس کی تلاوت ہوتی رہے گی۔‘‘ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے: ’’مجالس ومحاریب میں خوش الحانی سے تلاوت ہوتی رہے گی۔‘‘ یعنی تلاوت بندوں کا فعل ہے۔(عمدة القاري: 725/16) 2۔اس سے معلوم ہوا کہ تلاوت اور متلو میں واضح فرق ہے کیونکہ تلاوت، قاری کا فعل ہے جبکہ انزال وایحاء (وحی کرنا) اور تکلم اللہ کی صفات ہیں جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود لکھا ہے کہ انزال وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور لوگ اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ (خلق أفعال العباد ص: 86)
قرآن مجید کو فصاحت وبلاغت کےساتھ جاننے ،الفاظ کے ساتھ اس کے معانی سمجھنے اور اچھی طرح رقت آمیز آواز سے اس کی تلاوت کرنے والا قرآن کا ماہرکہلاتا ہے۔اسی طرح اپنی آوازوں سے قرآن کومزین کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو مداور ترتیل سے اس طرح پڑھا جائے کہ حد غنا کو نہ پہنچے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ تلاوت اور حفظ کئی طرح سے ہوتا ہے۔کوئی جید،کوئی غیر جید،کوئی خوش آواز اور کوئی اس کے برعکس۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تلاوت اور حفظ قاری کی صفت ہے اور یہ مخلوق ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا کلام جید ہی ہے اور سے خوش الحانی سے پڑھنے کا حکم ہے،نیز اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے ان پر جب بہتان لگا تو انہوں نے فرمایا: میں اپنے بستر پر لیٹ گئی اور مجھے یقین تھا کہ میں اس تہمت سے بری ہوں اور اللہ تعالیٰ میری براءت ضرور کرے گا لیکن اللہ کی قسم! مجھے یہ گمان نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق قرآنی آیات نازل فرمائے گا جن کی ہمیشہ تلاوت کی جاتی رہے گی۔ میرے نزدیک میری حیثیت اس سے کمتر تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق ایسا کلام نازل فرمائے جس کی تلاوت ہو، آخر کار اللہ تعالیٰ نے میرے متعلق یہ پوری دس آیات نازل فرمائیں: بلاشبہ وہ لوگ جنہوں نے بہتان لگایا وہ تمہی میں سے ایک گروہ ہے۔۔۔۔۔ آخر تک۔
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل الفاظ سے عنوان ثابت کیا ہے: ’’میرے بارے میں ایسی وحی نازل ہو گی جس کی تلاوت ہوتی رہے گی۔‘‘ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے: ’’مجالس ومحاریب میں خوش الحانی سے تلاوت ہوتی رہے گی۔‘‘ یعنی تلاوت بندوں کا فعل ہے۔(عمدة القاري: 725/16) 2۔اس سے معلوم ہوا کہ تلاوت اور متلو میں واضح فرق ہے کیونکہ تلاوت، قاری کا فعل ہے جبکہ انزال وایحاء (وحی کرنا) اور تکلم اللہ کی صفات ہیں جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے خود لکھا ہے کہ انزال وحی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور لوگ اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ (خلق أفعال العباد ص: 86)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی عائشہ ؓ کی بات کے سلسلہ میں جب تہمت لگانے والوں نے ان پر تہمت لگائی تھی اور ان راویوں میں سے ہر ایک نے واقعہ کا ایک ایک حصہ بیان کیا کہ عائشہ ؓ نے بتایا کہ پھر میں روتے روتے اپنے بستر پر لیٹ گئی اور مجھے یقین تھا کہ جب میں اس تہمت سے بَری ہوں تو اللہ تعالیٰ میری براءت کرے گا، لیکن واللہ! اس کا مجھے گمان بھی نہ تھا کہ میرے بارے میں قرآن کی آیات نازل ہوں گی جن کی قیامت تک تلاوت کی جائے گی اور میرے خیال میں میری حیثیت اس سے بہت کم تھی کہ اللہ میرے بارے میں پاک کلام نازل فرمائے جس کی تلاوت ہو اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النور کی) یہ آیت نازل کی (إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ ) بلاشبہ وہ لوگ جنہوں نے تہمت لگائی پوری دس آیتوں تک۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : (when the slanderers said what they said about her): I went to my bed knowing at that time that I was innocent and that Allah would reveal my innocence, but by Allah, I never thought that Allah would reveal in my favor a revelation which would be recited, for I considered myself too unimportant to be talked about by Allah in the Divine Revelation that was to be recited. So Allah revealed the ten Verses (of Surat-an-Nur). 'Those who brought a false charge........' (24.11-20)