کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
نبی کریم ﷺ کا ارشاد کہ قرآن کا ماہر ( جید حافظ ) ( قیامت کے دن ) لکھنے والے فرشتوں کے ساتھ ہو گا جو عزت والے اور اللہ کے تابعدار ہیں (اور یہ فرمانا) کہ قرآن کو اپنی آوازوں سے زینت دو
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “A person who is perfect in reciting and memorizing the Qur'an will be with the honourable, pious and just scribes.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7546.
سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نماز عشاء میں (والتین والزیتون) پڑھ رہے تھے۔ میں نے آپ سے زیادہ خوبصورت آواز میں قرآن پڑھتے ہوئے کسی کو نہیں سنا۔
تشریح:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں دوران جماعت میں امام کو چاہیے کہ وہ خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کرے اور تجوید کے قواعد کے مطابق اسے پڑھے۔ ہمارے علمائے کرام کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز اور خوش الحانی سے قرآن پڑھتے تھے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ آواز اور تلاوت بندے کا اپنا فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کیا ہوا ہے جبکہ جسے پڑھا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔ چونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو خلق قرآن کے حوالے سے سخت آزمائش سے گزرنا پڑتا تھا، اس لیے اس مسئلے کو دلائل وبراہین سے بیان کیا ہے اور ہر دلیل پر عنوان بندی بھی کی ہے جیسا کہ آئندہ ابواب سے ظاہر ہے۔
قرآن مجید کو فصاحت وبلاغت کےساتھ جاننے ،الفاظ کے ساتھ اس کے معانی سمجھنے اور اچھی طرح رقت آمیز آواز سے اس کی تلاوت کرنے والا قرآن کا ماہرکہلاتا ہے۔اسی طرح اپنی آوازوں سے قرآن کومزین کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کو مداور ترتیل سے اس طرح پڑھا جائے کہ حد غنا کو نہ پہنچے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ تلاوت اور حفظ کئی طرح سے ہوتا ہے۔کوئی جید،کوئی غیر جید،کوئی خوش آواز اور کوئی اس کے برعکس۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تلاوت اور حفظ قاری کی صفت ہے اور یہ مخلوق ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا کلام جید ہی ہے اور سے خوش الحانی سے پڑھنے کا حکم ہے،نیز اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔
سیدنا براء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپ نماز عشاء میں (والتین والزیتون) پڑھ رہے تھے۔ میں نے آپ سے زیادہ خوبصورت آواز میں قرآن پڑھتے ہوئے کسی کو نہیں سنا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں دوران جماعت میں امام کو چاہیے کہ وہ خوش الحانی سے قرآن کریم کی تلاوت کرے اور تجوید کے قواعد کے مطابق اسے پڑھے۔ ہمارے علمائے کرام کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز اور خوش الحانی سے قرآن پڑھتے تھے۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ آواز اور تلاوت بندے کا اپنا فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا کیا ہوا ہے جبکہ جسے پڑھا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے۔ چونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو خلق قرآن کے حوالے سے سخت آزمائش سے گزرنا پڑتا تھا، اس لیے اس مسئلے کو دلائل وبراہین سے بیان کیا ہے اور ہر دلیل پر عنوان بندی بھی کی ہے جیسا کہ آئندہ ابواب سے ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے، ان سے عدی بن ثابت نے، میرا یقین ہے کہ انہوں نے براء بن عازب سے نقل کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا کہ آپ عشاء کی نماز میں «والتين والزيتون» پڑھ رہے تھے، میں نے نبی کریم ﷺ سے زیادہ بہترین آواز سے قرآن پڑھتے ہوئے کسی کو نہیں سنا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت براء بن عازب ابوعمارہ انصاری حارثی ہیں۔ انہوں نے سنہ 24ھ میں رے کو فتح کیا۔ حضرت علی کے ساتھ جنگ نہروان میں شریک ہوئے۔ بہ زمانہ مصعب بن زبیر کوفہ میں وفات پائی۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara': I heard the Prophet (ﷺ) reciting Surat at-Tin waz Zaitun (By the Fig and the Olive) in the 'Isha' prayer and I have never heard anybody with a better voice or recitation than his.