کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ القمر میں ) فرمان:’’ اور ہم نے قرآن مجید کو سمجھنے یا یاد کرنے کے لیے آسان کر دیا ہے
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “And We have indeed made the Qur'an easy to understand and remember….’)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور نبی کریمﷺ نے فرمایا ”ہر شخص کے لیے وہی امر آسان کیا گیا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔“«ميسر»بمعنی تیار کیا گیا(آسان کیا گیا)اور مجاہد نے کہا کہ«يسرنا القرآن بلسانك»کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس کی قرآت کو تیری زبان میں آسان کر دیا۔ یعنی اس کا پڑھنا تجھ پر آسان کر دیا۔ اور مطر الوراق نے کہا کہ«وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ»کا مطلب یہ ہے کہ کیا کوئی شخص ہے جو علم قرآن کی خواہش رکھتا ہو پھر اللہ اس کی مدد نہ کرے؟
7552.
سیدنا علی ؓ سے روایت ہے ،وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ نے وہاں ایک لکڑی پکڑلی اور اس سے زمین کریدنے لگے، پھر آپ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی جگہ دوزخ یا جنت میں لکھ دی گئی ہے۔“ صحابہ نے کہا: کیا ہم اسی پر بھروسا نہ کرلیں؟ آپ نےفرمایا: ”تم عمل کرتے رہو، ہر عمل آسان کر دیا گیا ہے (جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے)“ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”جس شخص نے اللہ کی راہ میں دیا اور تقویٰ اختیار کیا۔۔۔۔“
تشریح:
1۔ہمارے اکثر لوگ نوشتہ تقدیر (تقدیر کے لکھے ہوئے) کو بہانہ بنا کر بد عملی کا شکار ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو قدرت کے ہاتھ محض کھلونے کی حیثیت رکھتے ہیں مشیت تو اللہ تعالیٰ کی پوری ہوتی ہے پھر ہمیں سزا کیوں ملے؟ مشرکین مکہ بھی اپنے اختیاری شرک کے لیے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو پیش کرتے تھے چنانچہ قرآن میں ہے۔ ’’یہ مشرکین کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اس (اللہ) کے سوا کسی بھی چیز کی عبادت نہ کرتے۔‘‘ (النحل:16۔35) آج کج فہم قسم کے مجرم اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے اکثر اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی کا بہانہ پیش کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کو کسی چیز کے نتیجے کے متعلق پیشگی علم ہونا یا اس کا علم غیب کسی انسان کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ تعالیٰ کے علم یا اس کی مشیت یا تقدیر میں لکھا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ انسان اپنے پورے ارادے اور اختیار سے کرنے والا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو اس کا پہلے سے علم ہوتا ہے قیامت کے دن انسان کو اپنے ارادے و اختیار کے استعمال پر جزایا سزا ملے گی یہ لوگ فراخی رزق یا طلب اولاد یا بیماری سے شفا یابی کے لیے کبھی تقدیر کا سہارا نہیں لیتے کہ جو کچھ ہمارے مقدر میں ہے وہ مل کر رہے گا بلکہ وہ حصول رزق کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں طلب اولاد کے لیے شادی رچاتے ہیں اور حصول شفا کے لیے حکیم یا ڈاکٹر کے پاس بھی جاتے ہیں لیکن نماز، روزے کے اہتمام سے پہلو تہی کرنے کے لیے تقدیر کو بہانہ بنا لیتے ہیں 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ انسان کو اس کے اختیاری عمل پر جزا و سزا دی جائے گی۔ جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے بندہ در حقیقت اپنے اعمال کا فاعل ہے وہ اسی بنا پر مومن یا کافر ہے۔ اسی طرح قاری جب اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھتا ہے تو قراءت اس کا فعل اور کسب ہے اور جسے پڑھا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کی صفت ہے جسے اس نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے جب قاری اسے پڑھتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے تو اس عمل کی نسبت انسان کی طرف ہوگی اور اس کے مطابق اسے جزا دی جائے گی۔ واللہ المستعان۔
علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ بالا آیت کریمہ کے معنی لکھے ہیں کہ ہم نے قرآن کو یاد کرنے اور نصیحت کے لیے آسان بنا دیاہے۔(عمدۃ القاری:16/727)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کا حفظ کرنا اس کا سمجھنا اور اس سے نصیحت حاصل کرنا نیز اس کی تلاوت اور قرآءت یہ سب بندے کے افعال ہیں وہ اپنے رب سے ان کے لیے مدد طلب کرتا ہے کہ وہ اس کے لیے آسان کردے۔ اللہ تعالیٰ نے اسی بات کا اس آیت کریمہ میں وعدہ کیا ہے البتہ جسے سمجھا جائے ۔یا، یاد کیا جائے یا پڑھا جائے وہ بندے کا فعل نہیں بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام اور اس کی صفت ہے۔(شرح کتاب التوحید للغنیمان 2/625)
اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ”ہر شخص کے لیے وہی امر آسان کیا گیا ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔“ «ميسر» بمعنی تیار کیا گیا (آسان کیا گیا) اور مجاہد نے کہا کہ«يسرنا القرآن بلسانك» کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اس کی قرآت کو تیری زبان میں آسان کر دیا۔ یعنی اس کا پڑھنا تجھ پر آسان کر دیا۔ اور مطر الوراق نے کہا کہ « وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ» کا مطلب یہ ہے کہ کیا کوئی شخص ہے جو علم قرآن کی خواہش رکھتا ہو پھر اللہ اس کی مدد نہ کرے؟
حدیث ترجمہ:
سیدنا علی ؓ سے روایت ہے ،وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ایک جنازے میں شریک تھے کہ آپ نے وہاں ایک لکڑی پکڑلی اور اس سے زمین کریدنے لگے، پھر آپ نے فرمایا: ”تم میں سے ہر ایک کی جگہ دوزخ یا جنت میں لکھ دی گئی ہے۔“ صحابہ نے کہا: کیا ہم اسی پر بھروسا نہ کرلیں؟ آپ نےفرمایا: ”تم عمل کرتے رہو، ہر عمل آسان کر دیا گیا ہے (جس کے لیے انسان پیدا کیا گیا ہے)“ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ”جس شخص نے اللہ کی راہ میں دیا اور تقویٰ اختیار کیا۔۔۔۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ہمارے اکثر لوگ نوشتہ تقدیر (تقدیر کے لکھے ہوئے) کو بہانہ بنا کر بد عملی کا شکار ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو قدرت کے ہاتھ محض کھلونے کی حیثیت رکھتے ہیں مشیت تو اللہ تعالیٰ کی پوری ہوتی ہے پھر ہمیں سزا کیوں ملے؟ مشرکین مکہ بھی اپنے اختیاری شرک کے لیے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو پیش کرتے تھے چنانچہ قرآن میں ہے۔ ’’یہ مشرکین کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اس (اللہ) کے سوا کسی بھی چیز کی عبادت نہ کرتے۔‘‘ (النحل:16۔35) آج کج فہم قسم کے مجرم اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے اکثر اللہ تعالیٰ کی مشیت ہی کا بہانہ پیش کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کو کسی چیز کے نتیجے کے متعلق پیشگی علم ہونا یا اس کا علم غیب کسی انسان کو اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ تعالیٰ کے علم یا اس کی مشیت یا تقدیر میں لکھا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ انسان اپنے پورے ارادے اور اختیار سے کرنے والا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو اس کا پہلے سے علم ہوتا ہے قیامت کے دن انسان کو اپنے ارادے و اختیار کے استعمال پر جزایا سزا ملے گی یہ لوگ فراخی رزق یا طلب اولاد یا بیماری سے شفا یابی کے لیے کبھی تقدیر کا سہارا نہیں لیتے کہ جو کچھ ہمارے مقدر میں ہے وہ مل کر رہے گا بلکہ وہ حصول رزق کے لیے بھاگ دوڑ کرتے ہیں طلب اولاد کے لیے شادی رچاتے ہیں اور حصول شفا کے لیے حکیم یا ڈاکٹر کے پاس بھی جاتے ہیں لیکن نماز، روزے کے اہتمام سے پہلو تہی کرنے کے لیے تقدیر کو بہانہ بنا لیتے ہیں 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ انسان کو اس کے اختیاری عمل پر جزا و سزا دی جائے گی۔ جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے بندہ در حقیقت اپنے اعمال کا فاعل ہے وہ اسی بنا پر مومن یا کافر ہے۔ اسی طرح قاری جب اللہ تعالیٰ کی کتاب پڑھتا ہے تو قراءت اس کا فعل اور کسب ہے اور جسے پڑھا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اس کی صفت ہے جسے اس نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے جب قاری اسے پڑھتا ہے اور اس کے مطابق عمل کرتا ہے تو اس عمل کی نسبت انسان کی طرف ہوگی اور اس کے مطابق اسے جزا دی جائے گی۔ واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
نبی ﷺ نے فرمایا: جس عمل کے لیے انسان پیدا کیا گیاہے وہ اس کے لیے آسان کردیا گیاہے، میسر کے معنی ہیں:تیار کیا گیا، یعنی آسان کیا گیا ہے۔¤ مجاہد نے کہا: یسرنا القرآن بلسانک کے معنیٰ ہیں: ہم نے آپ پر اس کی قراءت آسان کردی ہے¤ مطر وراق نے کہا: « وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ» کا مطلب ہے: کوئی علم قرآن کا طالب ہے جس کی اس کے متعلق مدد کی جائے؟¤
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور اور اعمش نے، انہوں نے سعد بن عبیدہ سے سنا، انہوں نے ابوعبدالرحمٰن اسلمیٰ سے اور انہوں نے علی ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ ایک جنازہ میں تھے پھر آپ نے ایک لکڑی لی اور اس سے زمین کریدنے لگے۔ پھر فرمایا تم میں کوئی ایسا نہیں جس کا ٹھکانہ جہنم میں یا جنت میں لکھا نہ جا چکا ہو۔ صحابہ نے کہا: پھر ہم اسی پر بھروسہ نہ کر لیں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ہر شخص کے لیے اس عمل میں آسانی پیدا کر دی گئی جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی (فأ من أعطى واتقى) کہ جس شخص نے بخشش کی اور تقویٰ اختیار کیا آخر آیت تک۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA) : While the Prophet (ﷺ) was in a funeral procession, he took a stick and started scraping the earth with it and said, "There is none of you but has his place assigned either in Hell or in Paradise." They (the people) said, "Shall we not depend upon that (and give up doing any deeds)?' He said, " Carry on doing (good deeds) for everybody will find it easy to do such deeds as will lead him to his destined place for which he has been created ." (And then the Prophet (ﷺ) recited the Verse):-- 'As for him who gives (in charity) and keeps his duty to Allah...' (92.5)