صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
55. باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ البروج میں ) فرمانا ’’ بلکہ وہ عظیم قرآن ہے جو لوح محفوظ میں ہے
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
55. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَجِيدٌ فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ} [البروج: 22]،
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
55. Chapter: “Nay! This is a Glorious Qur'an, in Al-Lauh Al-Mahfuz.
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ البروج میں ) فرمانا ’’ بلکہ وہ عظیم قرآن ہے جو لوح محفوظ میں ہے
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Nay! This is a Glorious Qur'an, in Al-Lauh Al-Mahfuz.)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور(سورۃ الطور میں)فرمایا”اور طور پہاڑ کی قسم اور کتاب کی قسم جو مسطور ہے۔“قتادہ نے کہا«مسطور»کے معنی لکھی گئی اور اسی سے ہے«يسطرون»یعنی لکھتے ہیں۔«في أم الكتاب»یعنی مجموعی اصل کتاب میں، یہ جو سورۃ ق میں فرمایا«ما يلفظ من قول»اس کا معنی یہ ہے کہ جو بات وہ منہ سے نکالتا ہے اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا نیکی اور بدی یہ فرشتہ لکھتا ہے۔«يحرفون»لفظوں کو اپنے ٹھکانوں سے ہٹا دیتے ہیں کیونکہ اللہ کی کتاب میں سے کوئی لفظ بالکل نکال ڈالنا یہ کسی سے نہیں ہو سکتا مگر اس میں تحریف کرتے ہیں یعنی ایسے معنی بیان کرتے ہیں جو اس کے اصلی معنی نہیں ہیں۔«وان كنا عن دراستهم»میں«دراست»سے تلاوت مراد ہے۔«واعية»جو سورۃ الحاقہ میں ہے یاد رکھنے والا۔«وتعيها»یعنی یاد رکھے اور یہ جو(سورۃ یونس میں ہے)«وأوحي إلي هذا القرآن لأنذركم به»میں«كم»سے خطاب مکہ والوں کو ہے«ومن بلغ»سے دوسرے تمام جہاں کے لوگ ان سب کو یہ قرآن ڈرانے والا ہے۔
7554.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کرنے سے پہلے ایک نوشتہ تحریر کیا کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھ کر ہے، اور وہ نوشتہ عرش کے اوپر اس کے پاس لکھا ہوا ہے۔“
تشریح:
1۔ان دونوں روایات میں بظاہر تضاد ہے۔ ایک میں ہے کہ مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد نوشتہ لکھا اور دوسری میں ہےکہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے اسے تحریر کیا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ قضی الخلق کا مطلب ہے کہ اس نے پہلے خلقت کا پیدا کرنا ٹھان لیا۔ اگر اس سے مراد یہ ہو کہ وہ پیدا کر چکاتھا تو موافقت کی صورت یہ ہوگی کہ خلقت کی تخلیق سےپہلے تحریر لکھنے سے مراد کتاب لکھنے کا ارادہ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ ازل میں کر چکا تھا۔ اور خلقت کی تخلیق سے پہلے وہ ارادہ موجود تھا۔ واللہ أعلم۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا نام مصاحف میں لکھا ہوتا ہے۔ قرآن اللہ اتعالیٰ کا کلام ہے اور کلام متکلم کی ایسی صفت ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے اس سے الگ نہیں ہوتی۔ کلام کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ ذات سے الگ ہو کر کسی دوسری چیز میں حلول کر گئی ہے مخلوق میں سے جب کوئی کلام کرتا ہے تو وہ بھی ذات سے الگ نہیں ہوتی اور کسی دوسری چیز میں حلول نہیں کرتی۔چہ جائیکہ کلام الٰہی کے متعلق یہ تصور کیا جائے کہ وہ ذات باری تعالیٰ سے الگ ہو کر کسی دوسری چیز میں حلول ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’وہ بہت خطرناک بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں سراسر جھوٹ ہے۔‘‘(الکهف:18۔5) اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ خطرناک بات ان کے منہ سے نکلتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی ذات سے الگ نہیں ہوتی۔ 3۔پیش کردہ احادیث سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کچھ ایسی فعلی صفات بھی ہیں جو اصل کے اعتبار سے قدیم ہوتی ہے لیکن مخلوق سے تعلق حادث ہوتا ہے جیسا کہ غضب اور رحمت ہے حدیث میں سبقت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تعلق اس کے غضب کے تعلق سے مقدم ہے۔ اگر یہ معنی نہ کیے جائیں تو رحمت کا غضب سے سبقت لے جانا متصور نہیں ہوتا کیونکہ غضب صفت قدیمہ ہے اور قدیم وہ ہوتا ہے جو مسبوق بالعدم نہ ہو اور نہ کوئی اس کے آگے ہی ہو اسی طرح کلام الٰہی قدیم ہے لیکن اس کا لوح محفوظ سے تعلق حادث ہے۔ واللہ أعلم۔
اور (سورۃ الطور میں) فرمایا ”اور طور پہاڑ کی قسم اور کتاب کی قسم جو مسطور ہے۔“ قتادہ نے کہا «مسطور» کے معنی لکھی گئی اور اسی سے ہے«يسطرون» یعنی لکھتے ہیں۔ «في أم الكتاب» یعنی مجموعی اصل کتاب میں، یہ جو سورۃ ق میں فرمایا «ما يلفظ من قول» اس کا معنی یہ ہے کہ جو بات وہ منہ سے نکالتا ہے اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا نیکی اور بدی یہ فرشتہ لکھتا ہے۔ «يحرفون» لفظوں کو اپنے ٹھکانوں سے ہٹا دیتے ہیں کیونکہ اللہ کی کتاب میں سے کوئی لفظ بالکل نکال ڈالنا یہ کسی سے نہیں ہو سکتا مگر اس میں تحریف کرتے ہیں یعنی ایسے معنی بیان کرتے ہیں جو اس کے اصلی معنی نہیں ہیں۔ «وان كنا عن دراستهم»میں «دراست» سے تلاوت مراد ہے۔ «واعية» جو سورۃ الحاقہ میں ہے یاد رکھنے والا۔ «وتعيها» یعنی یاد رکھے اور یہ جو (سورۃ یونس میں ہے) «وأوحي إلي هذا القرآن لأنذركم به» میں «كم» سے خطاب مکہ والوں کو ہے «ومن بلغ» سے دوسرے تمام جہاں کے لوگ ان سب کو یہ قرآن ڈرانے والا ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کرنے سے پہلے ایک نوشتہ تحریر کیا کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھ کر ہے، اور وہ نوشتہ عرش کے اوپر اس کے پاس لکھا ہوا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ان دونوں روایات میں بظاہر تضاد ہے۔ ایک میں ہے کہ مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد نوشتہ لکھا اور دوسری میں ہےکہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے اسے تحریر کیا۔ اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ قضی الخلق کا مطلب ہے کہ اس نے پہلے خلقت کا پیدا کرنا ٹھان لیا۔ اگر اس سے مراد یہ ہو کہ وہ پیدا کر چکاتھا تو موافقت کی صورت یہ ہوگی کہ خلقت کی تخلیق سےپہلے تحریر لکھنے سے مراد کتاب لکھنے کا ارادہ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ ازل میں کر چکا تھا۔ اور خلقت کی تخلیق سے پہلے وہ ارادہ موجود تھا۔ واللہ أعلم۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ثابت کیا ہے کہ قرآن کریم لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا نام مصاحف میں لکھا ہوتا ہے۔ قرآن اللہ اتعالیٰ کا کلام ہے اور کلام متکلم کی ایسی صفت ہے جو اس کے ساتھ قائم ہے اس سے الگ نہیں ہوتی۔ کلام کا مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ ذات سے الگ ہو کر کسی دوسری چیز میں حلول کر گئی ہے مخلوق میں سے جب کوئی کلام کرتا ہے تو وہ بھی ذات سے الگ نہیں ہوتی اور کسی دوسری چیز میں حلول نہیں کرتی۔چہ جائیکہ کلام الٰہی کے متعلق یہ تصور کیا جائے کہ وہ ذات باری تعالیٰ سے الگ ہو کر کسی دوسری چیز میں حلول ہوئی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’وہ بہت خطرناک بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے جو کچھ وہ کہتے ہیں سراسر جھوٹ ہے۔‘‘(الکهف:18۔5) اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ خطرناک بات ان کے منہ سے نکلتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی ذات سے الگ نہیں ہوتی۔ 3۔پیش کردہ احادیث سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کچھ ایسی فعلی صفات بھی ہیں جو اصل کے اعتبار سے قدیم ہوتی ہے لیکن مخلوق سے تعلق حادث ہوتا ہے جیسا کہ غضب اور رحمت ہے حدیث میں سبقت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تعلق اس کے غضب کے تعلق سے مقدم ہے۔ اگر یہ معنی نہ کیے جائیں تو رحمت کا غضب سے سبقت لے جانا متصور نہیں ہوتا کیونکہ غضب صفت قدیمہ ہے اور قدیم وہ ہوتا ہے جو مسبوق بالعدم نہ ہو اور نہ کوئی اس کے آگے ہی ہو اسی طرح کلام الٰہی قدیم ہے لیکن اس کا لوح محفوظ سے تعلق حادث ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: کوہ طور کی قسم! اور لکھی ہوئی کتاب کی قسم! قتادہ نے کہا: (مسطور) کے معنیٰ مکتوب ،یعنی لکھی ہوئی ہے¤(یسطرون) وہ لکھتے ہیں۔ (فی ام الکتب) کے معنیٰ ہیں: مجموعی اور اصلی کتاب میں۔ (ما بلفظ میں قول) یعنی جو کچھ کلام کرے گا وہ لکھ لیا جائے گا۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: خیر اور شر لکھا جاتا ہے¤(یحرفون) اس کا مطلب ہے: وہ زائل کرتے ہیں۔ اللہ کی کتابوں میں سے کسی کتاب کا لفظ کوئی بھی زائل نہیں کرسکتا لیکن وہ اس کی خلاف واقعہ تاویلیں کرتے ہیں¤
(دراستھم) کے معنیٰ ہیں: ان کا تلاوت کرنا: (واعیۃ) کے معنیٰ ہیں: یاد رکھنے والے۔اسی طرح (تعیھا) اس کی حفاظت کرتی ہے¤ «وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَـٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ» ”اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا تاکہ میں اس کے ذریعے سے اہل مکہ کو خبردار کروں“ (ومن بلغ) سے مراد دوسرے تمام جہان کے لوگ ہیں۔ان سب کو یہ قرآن ڈرانے والا ہے¤
٭فائدہ: تحریف مے متعلق چار موقف حسب ذیل ہیں: ۔تمام کتب سابقہ کو یکسر بدل دیا گیا ہے لیکن اس اطلاق کو اکثر پر محمول کرنا چاہیے کیونکہ ان کی متعدد آیات ایسی ہیں جن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔۔اکثر طور پر تحریف وتبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اس کے متعلق متعدد دلائل ہیں۔پہلا قول بھی اسی پر محمول کرنا چاہیے۔ ان کتابوں میں بہت کم تحریف ہوئی ہے اور اکثر حصہ اپنی اصلیت پر باقی ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ”الجواب الصحیح“ میں اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔تحریف الفاظ میں نہیں بلکہ معافی میں ہوئی ہے۔ الفاظ اپنی جگہ پر ہیں البتہ ان کی غلط تاویلات کی گئی ہیں۔ اس آخری موقف کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے جس کی صراحت نے مذکورہ عنوان میں کی ہے۔ ہماری نزدیک تورات وانجیل میں تحریف ،صرف معانی کی صورت ہی میں نہیں بلکہ اہل کتاب نے ان کے الفاظ بھی بدل ڈالے ہیں، واللہ اعلم
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن غالب نے بیان کیا، ان سے محمد بن اسماعیل بصریٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے ابورافع نے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ایک تحریر لکھی کہ میری رحمت میرے غضب سے بڑھ کر ہے، چنانچہ یہ اس کے پاس عرش کے اوپر لکھا ہوا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اگلی روایت میں یہ گزرا کہ خلقت پیدا کرنے کے بعد یہ کتاب لکھی تودونوں میں اختلاف ہوا۔ اس کا جواب یہ دیا کہ قضی الخلق سے یہی مراد ہے کہ پہلے خلقت کا پیدا کرنا ٹھان لیا اگر یہ مراد ہو کہ پیدا کرچکا تب بھی موافقت اس طرح ہوگی کہ اس حدیث میں پیدا کرنے سے پہلے کتاب لکھنے سے یہ مراد ہے کہ کتاب لکھنے کا ارادہ کیا سووہ تو اللہ تعالیٰ ازل میں کرچکا تھا اور خلقت پیدا کرنے سے پہلے وہ موجود تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "Before Allah created the creations, He wrote a Book (wherein He has written): My Mercy has preceded my Anger." and that (Book) is written with Him over the Throne."