کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ الصافات میں ) ارشاد اور اللہ نے پیدا کیا تمہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “While Allah has created you and what you make!”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
”اور اللہ نے پیدا کیا تمہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو۔“اور(سورۃ القمر میں)فرمایا«إنا كل شىء خلقناه بقدر»”بلاشبہ ہم نے ہر چیز کو اندازے سے پیدا کیا“اور مصوروں سے کہا جائے گا کہ جو تم نے پیدا کیا ہے اس میں جان ڈالو۔ اور(سورۃ الاعراف میں)فرمایا”بلاشبہ تمہارا مالک اللہ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر زمین آسمان بنا کر تخت پر چڑھا، رات کو دن سے ڈھانپتا ہے اور دن کو رات سے، دونوں ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اس کے حکم کے تابع ہیں۔ ہاں سن لو! اسی نے سب کچھ بنایا اسی کا حکم چلتا ہے۔ اللہ کی ذات بہت بابرکت ہے جو سارے جہان کو پالنے والا ہے۔“سفیان بن عیینہ نے کہا کہ اللہ نے لأمر کو خلق سے الگ کیا تب، تو یوں فرمایا۔ اور نبی کریمﷺنے ایمان کو بھی عمل کہا۔ ابوذر اور ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺسے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے تو آپﷺنے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا جزاء بما كانوا يعملون ”یہ بدلہ ہے اس کا جو وہ کرتے تھے۔“قبیلہ عبدالقیس کے وفد نے نبی کریمﷺسے کہا کہ ہمیں آپ چند ایسے جامع اعمال بتا دیں جن پر اگر ہم عمل کر لیں تو جنت میں داخل ہو جائیں تو نبی کریمﷺ انہیں ایمان، شہادت، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا۔ اسی طرح آپ نے ان سب چیزوں کو عمل قرار دیا۔تشریح:باب کے ذیل میں ذکر کردہ آیات اور احادیث سے اہلحدیث سے اہلحدیث کا مذہب ثابت ہوتا ہے کہ بندہ اور اس کے افعال دونوں اللہ کے مخلوق ہیں کیونکہ خالق اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے فرمایا ھل من خالق غیراللہ اور امام بخاری خلق افعال العباد میں یہ حدیث لائے ہیں ان اللہ یصنع کل صانع وصنعتہ یعنی اللہ ہی ہر کاریگر اوراس کی کاری گری کو بناتا ہے اور رد ہوا معتزلہ اور قدریہ اور شیعہ کا جو بندے کو اپنے افعال کا خالق بتاتے ہیں۔
7559.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ”اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جو میرے پیدا کرنے کی مانند پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ چھوٹی سی چیونٹی پیدا کر کے دکھائیں یا اس کے علاوہ دانہ یا جو پیدا کریں۔“
تشریح:
1۔اس حدیث میں اشارہ ہے کہ حیوان بنانا تو بہت مشکل ہے نباتات کی قسم سے کوئی دانہ یا جَو پیدا کر دیں۔ جب وہ بناتات نہیں بنا سکتے تو حیوانات کیا بنائیں گے۔ اس سے مقصد انھیں کبھی تو حیوان پیدا کرنے کے ساتھ عاجز کرنا ہے کہ وہ چیونٹی پیدا کریں اور کبھی جامد چیز کی پیدائش سے انھیں عاجز کرنا ہے کہ وہ ایک جو ہی پیدا کر کے دیکھائیں۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ ان کی طرف خلق کی نسبت کرنا انھیں عاجز کرنے کے لیے ہے حالانکہ وہ تو خود مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ انھیں پیدا کرنے والا ہے بلکہ ان کے افعال و کردار کا بھی وہی خالق ہے چونکہ وہ اپنے افعال اپنے اختیار سے بجا لاتے ہیں اس بنا پر وہ جزا و سزا کے حق دار ہیں۔ واللہ أعلم۔
بندوں کے افعال کے سلسلے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بندے اپنے افعال کے خود خالق ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوقات سے انھیں خارج خیال کرتے ہیں اس کے برعکس کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ بندے اپنے عمل میں مجبور محض ہیں انھیں اس سلسلے میں کوئی اختیار یا قدرت نہیں ہے۔ لیکن اہل سنت کا موقف ان کے بین بین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کو پیدا کیا ہے اور ان میں اعمال کرنے کی قدرت بھی اسی نے پیدا کی ہے پھر انھیں اختیار دیا ہے اور وہ اپنے ارادے اور مشیت سے انھیں کرتے ہیں اور جن کے ترک کا ارادہ کرتے ہیں انھیں چھوڑ دیتے ہیں۔ اس مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اہل سنت(محدثین)کے موقف کی تائید کی ہے اور بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں اور ان کے افعال کا خود خالق ہے۔اس موقف کو ثابت کرنے کے لیے انھوں نے "خلق افعال العباد" کے نام سے ایک کتاب بھی تالیف کی ہے دراصل لوگوں کی گمراہی کا سبب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت خلق اور مخلوق کے درمیان فرق نہیں کرتے۔خلق اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کے ذریعے سے وہ مخلوق کو پیدا کرتا ہے اور مخلوق اس صفت خلق کا نتیجہ ہے۔بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اہل سنت کا موقف ثابت کیا ہے کہ بندہ اور اس کے افعال دونوں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں کیونکہ خالق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔" کیا اللہ کے سوا کوئی (اور ) خالق ہے۔۔۔؟"(فاطر:35۔3)آپ نے اس عنوان میں معتزلہ اور قدر یہ کا رد کیا ہے جو بندے کو اپنے افعال کا خالق مانتے ہیں۔
”اور اللہ نے پیدا کیا تمہیں اور جو کچھ تم کرتے ہو۔“ اور (سورۃ القمر میں) فرمایا «إنا كل شىء خلقناه بقدر» ”بلاشبہ ہم نے ہر چیز کو اندازے سے پیدا کیا“ اور مصوروں سے کہا جائے گا کہ جو تم نے پیدا کیا ہے اس میں جان ڈالو۔ اور (سورۃ الاعراف میں) فرمایا ”بلاشبہ تمہارا مالک اللہ وہ ہے جس نے آسمان و زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر زمین آسمان بنا کر تخت پر چڑھا، رات کو دن سے ڈھانپتا ہے اور دن کو رات سے، دونوں ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اس کے حکم کے تابع ہیں۔ ہاں سن لو! اسی نے سب کچھ بنایا اسی کا حکم چلتا ہے۔ اللہ کی ذات بہت بابرکت ہے جو سارے جہان کو پالنے والا ہے۔“ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ اللہ نے لأمر کو خلق سے الگ کیا تب، تو یوں فرمایا۔ اور نبی کریم ﷺ نے ایمان کو بھی عمل کہا۔ ابوذر اور ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا جزاء بما كانوا يعملون ”یہ بدلہ ہے اس کا جو وہ کرتے تھے۔“ قبیلہ عبدالقیس کے وفد نے نبی کریم ﷺ سے کہا کہ ہمیں آپ چند ایسے جامع اعمال بتا دیں جن پر اگر ہم عمل کر لیں تو جنت میں داخل ہو جائیں تو نبی کریم ﷺ انہیں ایمان، شہادت، نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا۔ اسی طرح آپ نے ان سب چیزوں کو عمل قرار دیا۔تشریح:باب کے ذیل میں ذکر کردہ آیات اور احادیث سے اہلحدیث سے اہلحدیث کا مذہب ثابت ہوتا ہے کہ بندہ اور اس کے افعال دونوں اللہ کے مخلوق ہیں کیونکہ خالق اللہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے فرمایا ھل من خالق غیراللہ اور امام بخاری خلق افعال العباد میں یہ حدیث لائے ہیں ان اللہ یصنع کل صانع وصنعتہ یعنی اللہ ہی ہر کاریگر اوراس کی کاری گری کو بناتا ہے اور رد ہوا معتزلہ اور قدریہ اور شیعہ کا جو بندے کو اپنے افعال کا خالق بتاتے ہیں۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے: ”اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوسکتا ہے جو میرے پیدا کرنے کی مانند پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ چھوٹی سی چیونٹی پیدا کر کے دکھائیں یا اس کے علاوہ دانہ یا جو پیدا کریں۔“
حدیث حاشیہ:
1۔اس حدیث میں اشارہ ہے کہ حیوان بنانا تو بہت مشکل ہے نباتات کی قسم سے کوئی دانہ یا جَو پیدا کر دیں۔ جب وہ بناتات نہیں بنا سکتے تو حیوانات کیا بنائیں گے۔ اس سے مقصد انھیں کبھی تو حیوان پیدا کرنے کے ساتھ عاجز کرنا ہے کہ وہ چیونٹی پیدا کریں اور کبھی جامد چیز کی پیدائش سے انھیں عاجز کرنا ہے کہ وہ ایک جو ہی پیدا کر کے دیکھائیں۔ 2۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ ان کی طرف خلق کی نسبت کرنا انھیں عاجز کرنے کے لیے ہے حالانکہ وہ تو خود مخلوق ہیں اور اللہ تعالیٰ انھیں پیدا کرنے والا ہے بلکہ ان کے افعال و کردار کا بھی وہی خالق ہے چونکہ وہ اپنے افعال اپنے اختیار سے بجا لاتے ہیں اس بنا پر وہ جزا و سزا کے حق دار ہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے عمارہ نے، ان سے ابوزرعہ نے اور انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ اس شخص سے بڑھ کر حد سے تجاوز کرنے والا اور کون ہے جو میری مخلوق کی طرح مخلوق بناتا ہے، ذرا وہ چنے کا دانہ پیدا کر کے تو دیکھیں یا گیہوں کا ایک دانہ یا جَو کا ایک دانہ پیدا کر کے تو دیکھیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ حیوان بنانا تو بہت مشکل ہے بھلا نباتات ہی کی قسم سےجو حیوان سے ادنیٰ تر ہے کوئی دانہ یا پھل بنا دیں۔ جب نباتات بھی نہیں بنا سکتے تو بھلا حیوان بنائیں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : I heard the Prophet (ﷺ) saying, "Allah said, 'Who are most unjust than those who try to create something like My creation? I challenge them to create even a smallest ant, a wheat grain or a barley grain.' "