کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: فاسق اور منافق کی تلاوت کا بیان اور اس کا بیان کہ ان کی آواز اور ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتی
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: The recitation of the Qur'an by an impious person or a hypocrite)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7560.
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اترنج کی طرح ہے جس کا ذائقہ بھی اچھا اور خوشبو بھی عمدہ ہے۔ اور جو قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال کھجور جیسی ہے کہ اس کا ذائقہ تو اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں ہوتی۔ اور فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے گل ببونہ کی طرح ہے جس کی خوشبو اچھی ہے لیکن اس کا ذائقہ کڑوا ہے اور وہ فاجر جو قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن (تمے) کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی کڑوا ہے اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں ہوتی۔“
تشریح:
اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ قرآن اور تلاوت میں فرق واضح کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور تلاوت بندے کا فعل ہے یہی وجہ ہے کہ بندے کے فعل کی وجہ سے تلاوت، تلاوت میں فرق ہے۔ ایک عامل مومن کا تلاوت کرنا سنگترے کی طرح ہے جو بے شمار فوائد کا حامل ہے اور بد کردار کی تلاوت سے ماحول معطر نہیں ہوتا اور اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس بنا پر قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق اور مومن و منافق کا تلاوت کرنا ان کا ذاتی فعل ہے اور فعل ہونے کے اعتبار سے وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں بہر حال بندوں کے افعال سب مخلوق ہیں جن کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔
اس عنوان میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حسب سابق واضح کیا ہے کہ تلاوت قرآن ، قرآن کریم کے علاوہ ہے یہی وجہ ہے کہ تلاوت ،تلاوت میں فرق ہے مومن کی تلاوت سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جبکہ منافق کی تلاوت اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتی اس لیے کہ تلاوت بندے کا فعل اور مخلوق ہے جبکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔
سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اترنج کی طرح ہے جس کا ذائقہ بھی اچھا اور خوشبو بھی عمدہ ہے۔ اور جو قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال کھجور جیسی ہے کہ اس کا ذائقہ تو اچھا ہے لیکن اس کی خوشبو نہیں ہوتی۔ اور فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے گل ببونہ کی طرح ہے جس کی خوشبو اچھی ہے لیکن اس کا ذائقہ کڑوا ہے اور وہ فاجر جو قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن (تمے) کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی کڑوا ہے اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں ہوتی۔“
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ قرآن اور تلاوت میں فرق واضح کیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور تلاوت بندے کا فعل ہے یہی وجہ ہے کہ بندے کے فعل کی وجہ سے تلاوت، تلاوت میں فرق ہے۔ ایک عامل مومن کا تلاوت کرنا سنگترے کی طرح ہے جو بے شمار فوائد کا حامل ہے اور بد کردار کی تلاوت سے ماحول معطر نہیں ہوتا اور اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس بنا پر قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق اور مومن و منافق کا تلاوت کرنا ان کا ذاتی فعل ہے اور فعل ہونے کے اعتبار سے وہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں بہر حال بندوں کے افعال سب مخلوق ہیں جن کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے انس ؓ نے اور ان سے ابوموسیٰ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا اس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے ترنج کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی اچھا اور اس کی خوشبو بھی عمدہ ہے اور وہ مومن جو نہیں پڑھتا کھجور کی طرح ہے کہ اس کا مزہ تو اچھا ہے لیکن اس میں خوشبو نہیں اور اس فاسق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے مردہ کی طرح ہے کہ اس کی خوشبو تو اچھی ہے لیکن اس کا مزہ کڑوا ہے اور جو فاسق قرآن نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی کڑوا ہے اور کوئی خوشبو بھی نہیں۔
حدیث حاشیہ:
قرآن شریف اپنی جگہ پراللہ کا کلام غیرمخلوق اوربہتر ہے مگر اس کے پڑھنے والوں کےعمل واخلاق کی بنا پر وہ ریحان اور اندرائن کے پھلوں کی طرح ہو جاتا ہے۔ مومن مخلص کے قرآن شریف پڑھنے کا فعل خوشبودار ریمان کی طرح ہے اور منافق کے قرآن شریف پڑھنے کا فعل اندرائن کے پھل کی طرح ہے۔ پس قرآن شریف اللہ کا کلام غیرمخلوق اورمومن ومنافق کا تلاوت کرنا ان کافعل ہے جو فعل ہونے کےطور پرمخلوق ہے۔ ایسا ہی خارجیوں کےقرآن شریف پڑھنے کا حل ہے جوحدیث ذیل میں بیان ہو رہا ہے۔ ان کا یہ فعل مخلوق ہے۔ کتاب خلق افعال العباد کا یہی خلاصہ ہے کہ بندوں کے افعال سب مخلوق ہیں۔ جن کا خالق اللہ تبارک وتعالیٰ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA) : The Prophet (ﷺ) said, 'The example of a believer who recites the Qur'an is that of a citron (a citrus fruit) which is good in taste and good in smell. And the believer who does not recite the Qur'an is like a date which has a good taste but no smell. And the example of an impious person who recites the Qur'an is that of Ar-Rihana (an aromatic plant) which smells good but is bitter in taste. And the example of an impious person who does not recite the Qur'an is that of a colocynth which is bitter in taste and has no smell."