کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: فاسق اور منافق کی تلاوت کا بیان اور اس کا بیان کہ ان کی آواز اور ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتی
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: The recitation of the Qur'an by an impious person or a hypocrite)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7562.
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے ، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کچھ لوگ مشرق کی طرف سے رون ہوں گے۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دیں سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ پھر وہ وآپس دین میں نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ تیر اپنی جگہ پر واپس آجائے۔ پوچھا گیا: ان کی علامت کیا ہوگی؟ آپ نے فرمایا: ان کی علامت سرمنڈوانا ہے، یا فرمایا: ”بالوں کو جڑ سے نیست ونابود کرنا ہے۔“
تشریح:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے مشرق کی طرف اشارہ کیا اس سے مراد سر زمین عراق ہے جو تاریخی طور پر زمانہ ماضی اور حال میں فتنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی اس سر زمین میں آزمائش و امتحان سے دو چار کیا گیا تھا۔ موجودہ دور میں بھی عراق کی فتنہ انگیزی ڈھکی چھپی نہیں۔ حدیث اور اہل حدیث کے خلا ف اہل رائے کا فتنہ بھی اسی پر فتن سر زمین سے ابھرا تھا۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ مشرق سے خروج کرنے والے فتنہ گروں کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی یعنی قرآن ان کے دلوں پر اثر انداز نہیں ہوگا باوجود یکہ وہ قرآن کو یاد کرنے والے اور اس کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے ہوں گے اس کے برعکس اہل ایمان کا معاملہ جدا گانہ ہے۔ وہ جب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ تلاوت کا یہ فرق ان کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اس میں قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اس کا کوئی قصور نہیں۔ واللہ الستعان۔
اس عنوان میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حسب سابق واضح کیا ہے کہ تلاوت قرآن ، قرآن کریم کے علاوہ ہے یہی وجہ ہے کہ تلاوت ،تلاوت میں فرق ہے مومن کی تلاوت سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جبکہ منافق کی تلاوت اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتی اس لیے کہ تلاوت بندے کا فعل اور مخلوق ہے جبکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔
سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے ، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: کچھ لوگ مشرق کی طرف سے رون ہوں گے۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ یہ لوگ دیں سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ پھر وہ وآپس دین میں نہیں لوٹیں گے یہاں تک کہ تیر اپنی جگہ پر واپس آجائے۔ پوچھا گیا: ان کی علامت کیا ہوگی؟ آپ نے فرمایا: ان کی علامت سرمنڈوانا ہے، یا فرمایا: ”بالوں کو جڑ سے نیست ونابود کرنا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے مشرق کی طرف اشارہ کیا اس سے مراد سر زمین عراق ہے جو تاریخی طور پر زمانہ ماضی اور حال میں فتنوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی اس سر زمین میں آزمائش و امتحان سے دو چار کیا گیا تھا۔ موجودہ دور میں بھی عراق کی فتنہ انگیزی ڈھکی چھپی نہیں۔ حدیث اور اہل حدیث کے خلا ف اہل رائے کا فتنہ بھی اسی پر فتن سر زمین سے ابھرا تھا۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ مشرق سے خروج کرنے والے فتنہ گروں کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی یعنی قرآن ان کے دلوں پر اثر انداز نہیں ہوگا باوجود یکہ وہ قرآن کو یاد کرنے والے اور اس کی باقاعدہ تلاوت کرنے والے ہوں گے اس کے برعکس اہل ایمان کا معاملہ جدا گانہ ہے۔ وہ جب قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ تلاوت کا یہ فرق ان کے اعمال کا نتیجہ ہے۔ اس میں قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اس کا کوئی قصور نہیں۔ واللہ الستعان۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مہدی بن میمون ازدی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے محمد بن سیرین سے سنا، ان سے معبد بن سیرین نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کچھ لوگ مشرق کی طرف سے نکلیں گے اور قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، یہ لوگ دین سے اس طرح دور پھینک دئیے جائیں گے جیسے تیر پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر یہ لوگ کبھی دین میں نہیں واپس آ سکتے، یہاں تک کہ تیر اپنی جگہ (خود) واپس آ جائے، پوچھا گیا کہ ان کی علامت کیا ہو گی؟ تو فرمایا کہ ان کی علامت سر منڈوانا ہو گی۔
حدیث حاشیہ:
عراق مدینہ سےمشرق کی طرف ہےوہاں سےخارجی نکلے جنہوں نے حضرت علی اور حضرت عثمان کےخلاف بغاوت کی۔ حدیث قرن الشیطان والی اصلی معنوں میں: جن لوگوں کو رسو ل اللہ ﷺکی حدیث کے سمجھنے کا ملکہ ہے اورجو حدیث شریف کےنکات ودقائق اور رموز سےکما حقہ، واقف اورآشنا ہیں وہ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا کلام پاک پر مغز اورمختصر ہے کیونکہ خیر الکلام ما قل دل کلام کی خوبی یہی ہے کہ مختصر ہو لیکن مکمل اور پرازمطالب ہو۔ اس اصول کی مدنظر رکھ کر اب احادیث ذیل پرغور کرنے سے حقیقت امر ظاہر ہوجائے گی اور طالبان حق پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ رسول اللہﷺ نےمشرق کی جانب رخ فرماتے ہوئے جس فتنہ اورجس شر اورزلزلہ کے خطرات سے ہمیں اطلا ع دی دراصل اس اشارہ کا مشاالیہ عراق اور ہندوستان ہے۔ کیونکہ عراق تو فتنوں اور شرارتوں کی وجہ سے وہ نام پیدا کر چکا ہے کہ شاید ہی دنیائے اسلام کےممالک میں کوئی ایسا بدترین فتنہ خیز ملک ہو۔ اسی لیے رسول اللہﷺ نےبصرہ کے ذکر پرفرمایا کہ بِهَا خَسْفٌ وَقَذْفٌ وَرَجْفٌ وَقَوْمٌ يَبِيتُونَ يُصْبِحُونَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ(ابوداؤد) یعنی یہاں کے لوگ ایسے شریراور بداعمال ہوں گے اور ایسے متلون المزاج، بزدل اور ڈھل مل یقین اور ناقابل اعتماد ہوں گے کہ رات کو کچھ خیالات لے کر سوئیں گے اور دن کو کچھ اور ہی بن کر اٹھیں گے، بندراورسور ہوں گے۔ یا تو عادات میں دیوث، بےغیرت اورمکار، یا شکل وشباہت میں۔ اور یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےعراق کے لیے دعا نہ فرمائی حالانکہ آپ کو باربار توجہ بھی دلائی گئی کہ حضور! ہماری وہاں سے بہت سی حاجتیں اورضرورتیں ہیں۔ بلکہ اس کےجواب میں آنحضرت ﷺ نےاس ملک کی غداری وفتن پروری کے متعلق کھری کھری باتیں فرما دیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے۔ عن الحسن قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اللهم بارك لنا في مدينتنا -اللهم بَارِك لنَا في شامِنَا-اللهم بَارِك لنَا في يمنِنا -فقال رجل يارسول الله! فاالعراق فإن فيها ميرتنا وفيها حاجاتنا فسكت ثم أَعادَ عليهِ فسكتَ فقال بها يطلعُ قرنُ الشيطانِ وهناك الزلازلُ والفتنُ(كنزل العمال، جلد: هفتم/ ص: 16) حضرت حسن بصری راوی ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نےمدینہ اورشام ویمن کے لیے دعائے برکت فرمائی تو ایک صحابی دست بستہ عرض کرنے لگا۔ حضور ﷺ عراق کےلیے بھی دعا فرمائیے کیونکہ وہ ملک ہمارے پڑوس ہی میں ہےاور ہم وہاں سے غلہ لاتے ہیں اور تجارت وغیرہ اوربہت سے ہمارے کاروبار اس ملک سے رہتے ہیں تو آپﷺ خاموش رہے۔ جب اس شخص نےبااصرار عرض کیا توحضور ﷺنےاس کے جواب میں فرمایا کہ اس ملک سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا اور فتنے اور فساد ایسے ہوں گے جن سے امت مرحومہ کےافراد میں ایک زلزلہ ساپیدا ہو جائے گا توچونکہ رسول اللہ ﷺ نے صاف طورپر صحابہ کے ذہن نشین کرا دیا تھا کہ عراق ہی منشاء فتن اورباعث فساد فی الامت ہوگا اس لیے یہی وجہ ہے کہ وہ (صحابہ) اور ان کےبعد والے لوگ اورشارحین حدیث جو اپنی وسیع النظری اورتبحرعلمی اور معلومات کی بنا پر نجد والی حدیث کا اصلی مطلب سمجھ کرعوام کے سامنے پیش کرتے رہے اورانہوں نے ’’نجد‘‘ ملک عراق کو قرار دیا۔ جو دراصل ہے بھی۔ میں حیران ہوں کہ آج کل کے لوگ کس قدر تنگ خیال اورمتعصب واقع ہوئے ہیں کہ ذرا سےاختلاف پر رافضیوں کی سی تبرا بازی پراتر آتے ہیں اوراپنی اصلیت سے بے خبر ہوکر مومنین قاتین وصالحین پرلعنتیں بھیجنا شروع کر دیتے ہیں حالانکہ انہی کا ہم خیال شیخ دحلان اپنی کتاب کے ص 35پرلکھتا ہے۔ ’’ایسے امر کےسبب سے جس کا ثبوت براہین سے ہے اہل اسلام کی تکفیر پراقدام کیسے ہو سکتا ہے۔ (تو پھر کیوں کرتے ہو۔ آہ يقولونَ بأفواههِم ماليس في قُلوبِهِم) حدیث صحیح میں ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہہ کر پکارے گا تو ان میں سے ایک پر یہ لوٹے گی۔ اگر وہ ایسا ہے جب تو اس پر پڑے گی ورنہ کہنے والے پر۔اس بارے میں احتیاط واجب ہے۔ اہل قبلہ میں سے کسی پر حکم کفر ایسے ہی امر کے باعث کیا جاے جو واضح اور قاطع ہو (الدرراالسنیة في رد الوهابیة، اردو، ص: 36) میں متعجب ہوں کہ اتنی بین صراحت کے ہوتے ہوئے پھر یہ لوگ کیوں ’’نجدہائے،، پکارتے ہوئے شیخ محمدبن عبدالوہاب � اور ان کے جانشینوں کو کوس رہے ہیں۔ ملاحظہ ہوکہ جو نجد فتنوں کا باعث ہے حقیقت میں وہ عراق ہی ہے اورجومشرق ہے وہ ہندوستان میں ’’دارالتکفیر،، بریلی ہے۔ کنز العمال میں ’’أماکن مذمومة،، کے تحت میں آتا ہے۔ مسند عمر ابى مجاز قال أرادَ عمرُ أن لا يدعَ مصرا من الأَمصارِ إلا أتاه فقال له كعب لاتأتي العراقَ فإن فيه تسعة أعشار الشر(كنز العمال) یعنی حضرت عمر نےاپنے عہد حکومت میں تمام ممالک محروسہ کادورہ کرنےکا ارادہ ظاہر فرمایا تو حضرت کعب نےعرض کیاکہ آپ ہرجگہ جائیں لیکن عراق کی طرف نہ جائیں کیونکہ وہاں تونوحصے برائی اور شر موجود ہے۔،، (2) عن أبي إدريسَ قال قدم علينا عمر بن الخطاب الشامَ فقال إِني أُريدُ أن آتي العراقَ فقال له كعب الأحبارُ أُعيذُك بالله يا أميرَ المؤمنين من ذلك قال وماتكره من ذلك قال بها تسعة أعشار الشر وكل داء عضال و عصاة الجن وهاروت وماروت وبها ياخل ابليس دفرخ- ابوادریس کہتے ہیں کہ حضرت عمر جب شام میں تشریف فرما ہوئے تو آپ نے وہاں سے پھر عراق جانے کا ارادہ ظاہرفرمایا تو حضرت کعب احبار نےعرض کیا، یا امیرالمؤمنین! خدا کی پناہ وہاں جانے کا خیال تک نہ فرمائیں۔ حضرت عمر نے براہ استعجاب اس مخالفت اور کراہت عراق کا سبب پوچھا تو حضرت کعب نے جواب میں عرض کیا کہ حضور وہاں تو نو حصے شراور فساد ہے۔ سخت سخت بیماریاں اورسرکش اورگمراہ کن جن، ہاروت وماروت ہیں اور وہی شیطان کا مرکز ہےاوراسی جگہ اس نے انڈے بچے دے رکھے ہیں۔،، اللہ اللہ کس قدر پر مغز کلام ہےجوکھلے کھلے اورصاف الفاظ میں رسول اللہ ﷺ کےارشاد ’’بها يطلع قرن الشيطان وهناك الزلازل والفتن،، کی صاف صاف صراحت کر رہے ہیں۔ اگر خودعلم نہیں تھا توکسی اہل علم ہی سےاس حدیث کی تشریح اورمطلب پوچھ لیتے، ماشاءاللہ پنجاب اورہندوستان میں ہزاروں علماء اہل حدیث موجود ہیں۔ كثرالله سوادهم وعم فيوضم) اورپھر اس کوتاہ نظری پرفخر کرتے ہوئے یہ لوگ شارحین حدیث رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین پرلے دے کرتے اور ان پراعترراضات کرتے اور آوازے کستے ہیں۔ اب ان تصریحات کے ہوتے ہوئے پھر نجد ہی کو قرن الشیطان کا مطلع رٹے جانا کون سا انصاف اور کہاں کی عقل مندی ہے جب کہ مطالعہ حدیث سے یہ صاف صاف علم ہوچکا ہے کہ فتنہ اور شر قرن الشیطان عراق ہی سے طلوع ہوں گے جہاں بصرہ بغداد اور کوفہ وغیرہ شہر ہیں ۔ قابل غوربات : یہ ہےکہ ایک طرف تورسول اللہﷺ نجد کےلوگوں یعنی بنوتمیم کی تعریف وتوصیف فرماتے ہیں اوران کوغیور مجاہدین اورعقلمندکاخطاب دے رہےہیں۔ مسند ابى هريرة ذكرت القبائل عندرسول الله صلى الله عليه وسلم فقالوا يا رسول الله فما تقول فى تميم قال(صلى الله عليه وسلم)يابى الله التميم إلا خيرا –البت الأقدام عظام الهام رجع الأحلام هفبته حمراء لا يضر من ناواها أشد الناس على الدجال آخرالزمان(رجال ثقات )كنز العمال ،ج 6 / ص 144) ’’ یعنی رسول اللہ کے سامنے قبائل عرب کا ذکر ہو رہا تھا پہلے ہوازن اوربنو عامرکا تذکرہ آیا پھرلوگوں نے نبی تمیم کےمتعلق استفسار کیا توحضو ر ﷺ نےالفاظ ذیل میں ان کی تعریف وتکریم ظاہر فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے بہتری کو اس قوم کے لیےواجب کر دیا (اللہ اللہ) یہ لوگ (یعنی نجدی) غیرمتزلزل طبائع کےمالک ، بڑے سروالے عقل مند باتدبیر مکمل سیاست واں اورسرخ نیلہ والے ہیں۔ کوئی طاقت خواہ کتنی ہی چیخ پکار کرے اوران کے برخلاف ہرچند پروپیگنڈا پھیلائے ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکےگی۔ ہاں وہ اخیر زمانہ کے دجال پرجولوگ ان کے برخلاف نہایت متعصب اورضدی بداخلاق ہوں گے اورجھگڑالو اسلام کے دشمن اور فتن دوز ہوں گے نہایت سختی سےشعائر اسلام کی پابندی کرتے ہوئے باوجود ہزاروں دھکمیوں اور گیدڑ بھبھکیوں کےغالب رہیں گے۔ وظھر أمراللہ و ھم کارھون۔ یعنی اخیر زمانہ میں دجال کےمقاتل کےمقابل بڑے مضبوط اورنہ ڈرنے والے لوگ ہوں گے۔ ولا یخافون لومۃ لائم ۔،، غور فرمائیے کہ اخیر زمانہ میں جب کہ حقیقی اسلام کی تعلیم دنیا میں بہت کم ہوگی ،جہل وباطل، کفر شرک، پیرپرستی اورقبہ پرستی عام ہوگی۔ قدم قدم پرایک آدمی لغزش کھائے گا۔ یصبح مومنا ویمسی کافرا اور وہ زمانہ ہوگا جس کےمتلق رسول اللہ ﷺنے فرمایا۔ من تَمسكَ بسنتي عندَ فسادِ أمتي فله أجرُ مائةِ شهيد – یعنی ’’ اس وقت جوسنت رسول اللہ ﷺ پرعمل پیرا ہوں گے ان میں ہر ایک درجہ میں سو شہید کے برابر ہوگا،، غورکریں کہ ایسے زمانہ مین جن لوگوں کی رسول اللہ ﷺ تعریف فرمائیں کہ اخیرزمانہ میں دجال پر بہت سخت ہوں گے۔ بھلا اللہ کے ہاں ان کی کہاں تک قدر ہوگی اوروہ کس عالی رتبہ کے لوگ ہوں گے۔ یہ امر مختاج بیان نہیں ہے اور ہر ایک مخالف اس بات کا قائل ہے کہ موجودہ اہل نجد اور مجدد اسلام شیخ محمدبن عبدالوہاب نوراللہ مرقدہ بنی تمیم ہی سے ہیں۔ اور اب موجودہ سلطان أیدہ اللہ بنصرہ اور ان کی قوم نجدی بھی بنی تمیم ہی سے ہیں ان کا زبردست معاند دحلان لکھتا ہے کہ ’’یہ بات صراحت سے معلوم ہو چکی ہے کہ یہ مغرور (یعنی محمد بن عبدالوہاب �) تمیم سے ہے۔،، اور سید علوی جلاء الظلام میں لکھتا ہے۔’’ یہ مفرور محمدبن عبدالوہاب قبیلہ بنی تمیم سے ہے۔ نیز مولوی قطب الدین فرنگی محل لکھؤ والے بھی اپنے رسالہ ’’ آشوب نجد،، میں تسلیم کرتے ہیں کہ ’’شیخ محمدبن عبدالوہاب أناراللہ برهانه قبیلہ بنی تمیم میں سے ہیں،، اس کے علاوہ تاریخی طور پربھی یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہےکہ نجدی قوم بنی تمیم میں سے ہے۔ ان حالات کے بعد غور فرمائیے کہ حدیث میں اس قوم کورسول اللہ ﷺ نے کس بلند پایہ کی قوم فرمایا کہ: عن أبي هريرة قال مازالت أُحبُ بنى تميم منذثلاث سمعتُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم يقول هم أَشد أمتي على الدجالِ وقال وجاءت صدقاتهم فقال هذه صدقات قومنا وكانت سبية منهم عند عائشة فقال أعتقيها فإنها من ولدِ إسمعيلَ (بخاری احمد ی، ص،445) ’’ ابوہریرہ جیسے جلیل القدر صحابی فرماتےہیں کہ بھائی میں تو نبی تمیم کوپڑا عزیز رکھتا ہوں۔ اس کی وجوہات ذیل ہیں۔ (1) رسول اللہ ﷺ نے ان کےحق میں فرمایا کہ یہ لوگ میرے تمام امت سےدجال پرسخت ہوں گے۔ (2) جب بنو تمیم کی زکوۃ کا مال جمع ہوکر آیا توحضور ﷺ نےفرمایا کہ آج ہماری کےصدقات آئے ہیں۔ (3) یہ لوگ (نجدی) اولاد اسماعیل میں سے ہیں۔ ثبوت یہ ہےکہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے پاس ایک نجد ی لونڈی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کوجب علم ہوا آپ نےفرمایا اے عائشہ! اسے آزاد کر دے کیونکہ یہ اوالاد اسماعیل سےہے۔،، اب غور فرمائیں کہ ایک طرف تو آنحضور ﷺ نے نجدیوں کو اولاد اسماعیل سےفرمایا۔ پکے مسلمان، عقل مند، مدبر اور باسیات کا خطاب دیا۔ وہاں کےلوگوں کوجنت کی بشارت دی۔ جاء رجل إلى رسو لِ الله عليه وسلم من أهل نجد فإذا هو يسئلُ عن الإسلامِ فقال صلى الله عليه وسلم من سره أن ينظرَ إلى رجل من أهلِ الجنةِ فلينظُر إلى هذا یعنی ایک نجدی نےرسول اللہ ﷺ سے چند سوالات کئے اور ان کے جوابات تسلی بخش پا کر جا رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جنتی آدمی کو دیکھ کر خوش ہونا چاہے وہ اس نجدی کو دیکھ لے۔ کیا یہ ہو سکتا ہےکہ اسی زبان سے رسول اللہ ﷺ اس قوم کی مذمت فرمائیں اور اس قوم کو قرن الشیطان سے تعبیر فرمائیں اور ان کے لیے دعا نہ فرمائیں (خدا را انصاف) کہ ان رسمی حنفیوں بریلویوں، رضائیوں، دیداریوں اورجماعتیوں (ھداھم اللہ إلی صراط مستقیم) نے رسو ل اللہ ﷺ کی یہی عزت اوریہی قدر کی کہ پبلک کےسامنے عیاں کر دیا کہ ہاں رسو ل اللہ ﷺ (معاذ اللہ) ایک طرف تو ایک شخص کی منہ پر تعریف فرماتے تھے اور جب وہ چاہتا پھر مذمت اور اس کے لیے بددعا۔ آہ ثم آہ۔ فما لهؤلاء القوم لايكادون يفقهون حديثا۔ (انصاف۔ انصاف)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri (RA): The Prophet (ﷺ) said, "There will emerge from the East some people who will recite the Qur'an but it will not exceed their throats and who will go out of (renounce) the religion (Islam) as an arrow passes through the game, and they will never come back to it unless the arrow, comes back to the middle of the bow (by itself) (i.e., impossible). The people asked, "What will their signs be?" He said, "Their sign will be the habit of shaving (of their beards). (Fateh Al-Bari, Page 322, Vol. 17th)