کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: فاسق اور منافق کی تلاوت کا بیان اور اس کا بیان کہ ان کی آواز اور ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتی
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: The recitation of the Qur'an by an impious person or a hypocrite)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7563.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو رحمان کو بہت پسند ہیں، زبان پر بڑے ہلکے پھلکے (لیکن قیامت کے دن) ترازو میں بہت بھاری ہوں گے۔ وہ یہ ہیں: (سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم) ”پاک ہے اللہ اپنی حمد کے ساتھ ، پاک ہے اللہ جو بہت عظمت والا ہے۔“
تشریح:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے اصل مقصد یہ ہے کہ اولاد آدم علیہ السلام کے اعمال واقوال اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور انھی اقوال واعمال کو قیامت کے دن میزان عدل میں رکھا جائےگا، پھراس پر جزا وسزا مرتب ہوگی۔ اسی طرح قرآن کریم کی قراءت بھی انسان کا ذاتی عمل ہے۔ اگرچہ قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے وہ غیر مخلوق ہے، تاہم انسانی نطق اور تلفظ غیر مخلوق نہیں بلکہ یہ بندے کا کسب اور اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اسی طرح تسبیح وتحمید اور دیگر اذکار واوراد بھی جب انسان کی زبان سے ادا ہوں گے تو انھیں ترازو میں تولا جائے گا تاکہ مقدار کے بجائے میعار کی اہمیت اجاگر کی جائے۔ چونکہ حدیث میں ہے کہ مجالس کو تسبیح سے ختم کیا جائے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی مجلس علم کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح سے ختم کیا ہے۔ 2۔واضح رہے کہ دو گروہوں کے اعمال واقوال کا وزن نہیں کیا جائے گا: ایک وہ کفار جن کی سرے سے کوئی نیکی نہ ہوگی۔ قرآن کریم میں ہے: ’’یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، لہذا ان کے اعمال برباد ہوگئے، قیامت کے دن ہم ان کے لیے میزان ہی نہیں رکھیں گے۔‘‘(الکهف: 105) دوسرے وہ اہل ایمان جن کی برائیاں نہیں ہوں گی اور بے شمار نیکیاں لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے، انھیں بھی حساب کتاب کے بغیر جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6541) 2۔چونکہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا محورتوحید باری تعالیٰ ہے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کبھی کتاب التوحید پر اپنی"الجامع الصحیح" کو ختم کیا ہے اور دنیا میں اخلاص نیت کے ساتھ اعمال کا اعتبار کیا جاتا ہے، اس لیے آپ نے حدیث (إنما الأعمالُ بالنياتِ) سے اس کتاب کا آغاز فرمایا اور آخرت میں اعمال کا وزن کیا جائےگا اور اس پر کامیابی کا دارومدار ہوگا، اس لیے حدیث میزان کو آخر کتاب میں بیان فرمایا، نیز تنبیہ فرمائی کہ قیامت کے دن ایسے اعمال کا وزن ہوگا جو سنت کے مطابق اور اخلاص نیت پر مبنی ہوں گے اور ان کی بنیاد"حق" پر ہوگی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے اور قیامت کے دن ہماری نیکیوں کا پلڑا بھاری کر دے۔ جس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا اور نہ اولاد کام آئے گی۔ الا یہ کہ قلب سلیم لے کر اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہو۔ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وبَحَمْدكَ أشْهدُ أنْ لا إلهَ إلا أنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وأتُوبُ إِلَيْكَ وصلی الله علی نبيه محمد صلی الله عليه وسلم وآله وأصحابه وأتباعه وإخوانه أجمعين
اس عنوان میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حسب سابق واضح کیا ہے کہ تلاوت قرآن ، قرآن کریم کے علاوہ ہے یہی وجہ ہے کہ تلاوت ،تلاوت میں فرق ہے مومن کی تلاوت سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جبکہ منافق کی تلاوت اس کے حلق سے نیچے نہیں اترتی اس لیے کہ تلاوت بندے کا فعل اور مخلوق ہے جبکہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو رحمان کو بہت پسند ہیں، زبان پر بڑے ہلکے پھلکے (لیکن قیامت کے دن) ترازو میں بہت بھاری ہوں گے۔ وہ یہ ہیں: (سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم) ”پاک ہے اللہ اپنی حمد کے ساتھ ، پاک ہے اللہ جو بہت عظمت والا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے اصل مقصد یہ ہے کہ اولاد آدم علیہ السلام کے اعمال واقوال اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور انھی اقوال واعمال کو قیامت کے دن میزان عدل میں رکھا جائےگا، پھراس پر جزا وسزا مرتب ہوگی۔ اسی طرح قرآن کریم کی قراءت بھی انسان کا ذاتی عمل ہے۔ اگرچہ قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے وہ غیر مخلوق ہے، تاہم انسانی نطق اور تلفظ غیر مخلوق نہیں بلکہ یہ بندے کا کسب اور اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اسی طرح تسبیح وتحمید اور دیگر اذکار واوراد بھی جب انسان کی زبان سے ادا ہوں گے تو انھیں ترازو میں تولا جائے گا تاکہ مقدار کے بجائے میعار کی اہمیت اجاگر کی جائے۔ چونکہ حدیث میں ہے کہ مجالس کو تسبیح سے ختم کیا جائے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی مجلس علم کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح سے ختم کیا ہے۔ 2۔واضح رہے کہ دو گروہوں کے اعمال واقوال کا وزن نہیں کیا جائے گا: ایک وہ کفار جن کی سرے سے کوئی نیکی نہ ہوگی۔ قرآن کریم میں ہے: ’’یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، لہذا ان کے اعمال برباد ہوگئے، قیامت کے دن ہم ان کے لیے میزان ہی نہیں رکھیں گے۔‘‘(الکهف: 105) دوسرے وہ اہل ایمان جن کی برائیاں نہیں ہوں گی اور بے شمار نیکیاں لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے، انھیں بھی حساب کتاب کے بغیر جنت میں داخل کردیا جائے گا۔ (صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6541) 2۔چونکہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا محورتوحید باری تعالیٰ ہے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کبھی کتاب التوحید پر اپنی"الجامع الصحیح" کو ختم کیا ہے اور دنیا میں اخلاص نیت کے ساتھ اعمال کا اعتبار کیا جاتا ہے، اس لیے آپ نے حدیث (إنما الأعمالُ بالنياتِ) سے اس کتاب کا آغاز فرمایا اور آخرت میں اعمال کا وزن کیا جائےگا اور اس پر کامیابی کا دارومدار ہوگا، اس لیے حدیث میزان کو آخر کتاب میں بیان فرمایا، نیز تنبیہ فرمائی کہ قیامت کے دن ایسے اعمال کا وزن ہوگا جو سنت کے مطابق اور اخلاص نیت پر مبنی ہوں گے اور ان کی بنیاد"حق" پر ہوگی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے اور قیامت کے دن ہماری نیکیوں کا پلڑا بھاری کر دے۔ جس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا اور نہ اولاد کام آئے گی۔ الا یہ کہ قلب سلیم لے کر اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہو۔ سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وبَحَمْدكَ أشْهدُ أنْ لا إلهَ إلا أنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وأتُوبُ إِلَيْكَ وصلی الله علی نبيه محمد صلی الله عليه وسلم وآله وأصحابه وأتباعه وإخوانه أجمعين
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن اشکاب نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے، ان سے عمارہ بن قعقاع نے، انہوں نے ابوزرعہ سے، انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے انہوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بوجھل اور باوزن ہوں گے، وہ کلمات مبارکہ یہ ہیں «سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم»
حدیث حاشیہ:
كلماتان حبيبتان إلى الرحمن خفيفتان على اللسان ثقيلتان في الميزان سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم اس حدیث کو لاکر حضرت اما م بخاری نے ترازو کا اثبات کیا او رآخر میں اس حدیث کو ا س لیے بیان کیا کہ مومن کےمعاملات جودنیا سےمتعلق تھے وہ سب وزن اعمال پرختم ہوں گے اور ا س کے بعد یا دوزخ میں چند روز کے لیے جانا ہے یا بہشت میں ہمیشہ کےلیے رہنا۔ حضرت امام بخاری � کا کمال ہے کہ آ پ نے کتاب کو حدیث انماالأعمالُ بالنیاتِ سے شروع کیا اس لیے کہ ہرعمل کی مشروعیت نیت ہی سے ہوتی ہے اورنیت ہی پر ثواب ملتا ہے اور اس حدیث پر ختم کیا کیونکہ وزن اعمال کا انتہائی نتیجہ ہے۔ غرض حضرت امام بخاری نےاپنی کتا ب میں عجیب عجیب لطائف اورظرائف رکھے ہیں جو غورکے بعد آپ کی کمال عقل اور وفوفہم اور دقت نظر اور باریکی استنباط پر دلالت کرتے ہیں کوئی شک نہیں کہ حضرت امام بخاری کی یہ کتاب الجامع الصحیح بتلاتی ہے کہ وہ فن فقہ میں امام الفقہاء اور فن حدیث میں امیرالمؤمنین وسید المحدثین تھے۔ روایت اوردرایت ہر دو میں امام فن تھے۔ الجامع الصحیح کو کتاب التوحید پر ختم کرنا بھی حضرت امام کی دقت نظر ہے۔ پھر توحید کے ذیل میں اسماء وصفات الہی کا بیان کرنا اور معتزلہ وجہمیہ وقدریہ وغیرہ فرق باطلہ کا رد کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ توحید کاعقیدہ اپنی وسعت کی لحاظ سےاز اول تا آخر مسلک سلف کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ کتاب وسنت میں اللہ پاک کے لیے جو صفات مذکورہ ہوئی ہیں ان کو بغیر تاویل و تکییف بلاچوں وچرا تسلیم کرنا اقتضائے توحید ہے۔ مسئلہ استواء علی العرش نزو ل وصعود وکلام وسمع وبصرہ ویدوکف وساق وجہ ان سب کےلیے ایک ہی اصول مسلک سلف ہےکہ معناه معلوم وكيفيته مجهول والسوال عنه بدعة۔ الغرض کتاب التوحید پر الجامع الصحیح کوختم کرنا اورآخر میں الوزن يومئذن الحق کےتحت حدیث كلمتان حبيبتان الى الرحمن خفيفتان علي اللسان ثقيلتان فى الميزان الخ پر کتاب کاختم عقائد حقہ کی تکمیل پر لطیف اشارہ ہے۔ تعجب ہے دور حاضرہ کے ان محققین پرجن کی نگاہوں میں حضرت امام بخاری درایت حدیث سے محض کورے نظر آتے ہیں جو حضرت امام بخاری مجتہد مطلق تسلیم کرنےکے لیے تیار نہیں سچ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "(There are) two words which are dear to the Beneficent (Allah) and very light (easy) for the tongue (to say), but very heavy in weight in the balance. They are: 'Subhan Allah wa-bi hamdihi' and 'Subhan Allah Al-'Azim."