Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: To go out in search of knowledge)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
جابر بن عبداللہ کا ایک حدیث کی خاطر عبداللہ بن انیس کے پاس جانے کے لیے ایک ماہ کی مسافت طے کرنا۔
78.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان کا اور حضرت حر بن قیس بن حصن فزاری ؓ کا حضرت موسیٰ ؑ کے ہم نشین کے متعلق اختلاف ہو گیا۔ دریں اثنا ان کے پاس سے حضرت ابی بن کعب ؓ گزرے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں بلا لیا اور فرمایا کہ میرا اور میرے اس ساتھی کا حضرت موسیٰ ؑ کے ہم نشین کے متعلق اختلاف ہو گیا ہے جن سے ملاقات کے لیے حضرت موسیٰ ؑ نے راستہ پوچھا تھا۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے ان کے حالات کے متعلق کچھ سنا ہے؟ حضرت ابی بن کعب ؓ نے فرمایا: ہاں، میں نے نبی ﷺ کو ان کے حالات بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرماتے تھے:’’ایک مرتبہ موسیٰؑ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے۔ اچانک ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: کیا آپ کسی کو اپنے سے زیادہ عالم جانتے ہیں؟ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ پر وحی نازل فرمائی: کیوں نہیں! ہمارا بندہ خضر (آپ سے زیادہ عالم ہے)۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ سے ان کی ملاقات کا راستہ پوچھا۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو ان کے لیے نشان مقرر کر دیا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ جب تم مچھلی کو گم پاؤ تو واپس لوٹ آنا، قریب ہی کہیں تمہاری اس سے ملاقات ہو جائے گی۔ حضرت موسیٰ ؑ دریا میں مچھلی کی علامات تلاش کرتے رہے۔ تب حضرت موسیٰ ؑ کے خادم نے ان سے عرض کی: کیا آپ نے دیکھا تھا جب ہم پتھر کے پاس ٹھہرے تھے تو میں (وہیں) مچھلی کو بھول گیا اور مجھے شیطان ہی نے بتانے سے غافل کر دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: یہی تو وہ چیز تھی جس کے ہم متلاشی تھے، چنانچہ وہ دونوں اپنے نقش ہائے قدم تلاش کرتے ہوئے ان پر واپس ہوئے تو وہاں حضرت خضر سے ملاقات ہو گئی۔‘‘ پھر آگے ان کا قصہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے طلب علم کے لیے ہر طرح کے سفر کا جواز بلکہ استحباب ثابت کیا ہے، یعنی اگر طلب علم یا تجارت کی ضرورت ہے تو سفر کرنے کی اجازت ہے۔ جب دنیوی ضرورت کے لیے سفر کیا جا سکتا ہے تو دینی ضرورت کے لیے اس کی ممانعت چہ معنی وارد؟ 2۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جواب کی بنیاد یہ تھی کہ آپ نبی تھے اور انبیاء کا علم دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے لیکن چونکہ انانیت اللہ کو پسند نہیں بلکہ اللہ کے حضور عاجزی اور تواضع محبوب ہے اس لیے عتاب ہوا کہ ہاں ہمارا بندہ خضر تم سے زیادہ جاننے والا ہے اور اس سے مراد خاص جزئیات ہیں یقیناً اہل علم کو علم کی قدر ہوتی ہے اس لیے انھوں نے خضر سے ملنے کی خواہش کی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
78
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
78
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
78
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
78
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
حدیث میں ہے کہ سفرعذاب کا ایک ٹکڑا ہے۔( صحیح البخاری فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث 3720۔)اس روایت کے پیش نظر تحصیل علم کے لیے سفر کرنا مشتبہ معلوم ہوتا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی تردید کرنا چاہتے ہیں اور بتانا چاہتے ہیں کہ علمی تشنگی دور کرنے کے لیے اگرسفر کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔ اس کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عہد صحابہ کے ایک واقعے سے استدلال کیا ہے کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک حدیث سننے کے لیے ایک ماہ کا سفر کیا تاکہ سند عالی ہو جائے۔ اس سفر کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بالواسطہ پہنچی۔میں نے اس صحابی سے براہ راست سننے کے لیے سفر کا ارادہ کیا۔ میں نے اس سفر کے لیے ایک اونٹ خریدا اور ایک ماہ کی مسافت طے کر کے شام پہنچا۔لوگوں سے حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان دریافت کیا، دستک دی خادم باہر آیا تو اس سے کہا کہ میرا پیغام پہنچادو۔جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر سے باہر تشریف لائے۔ملاقات ہوئی معانقہ کیا اور قیام کرنے پر اصرار کیا لیکن میں نے کہا: حدیث سنادو۔ میرے آنے کا مقصد یہی ہے کہ مرنے سے پہلے پہلے براہ راست حدیث سن لوں۔انھوں نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا:"قیامت کے دن لوگ مادرزاد ننگے اٹھائے جائیں گے۔" (الحدیث)( مسند احمد 3/195۔) جب علوسند کے سفر جائز ہے تو اصل علم کی تحصیل کے لیے ناجائز کیوں؟ دوسرا استدلال حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سفر سے ہے۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
جابر بن عبداللہ کا ایک حدیث کی خاطر عبداللہ بن انیس کے پاس جانے کے لیے ایک ماہ کی مسافت طے کرنا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ان کا اور حضرت حر بن قیس بن حصن فزاری ؓ کا حضرت موسیٰ ؑ کے ہم نشین کے متعلق اختلاف ہو گیا۔ دریں اثنا ان کے پاس سے حضرت ابی بن کعب ؓ گزرے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں بلا لیا اور فرمایا کہ میرا اور میرے اس ساتھی کا حضرت موسیٰ ؑ کے ہم نشین کے متعلق اختلاف ہو گیا ہے جن سے ملاقات کے لیے حضرت موسیٰ ؑ نے راستہ پوچھا تھا۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ سے ان کے حالات کے متعلق کچھ سنا ہے؟ حضرت ابی بن کعب ؓ نے فرمایا: ہاں، میں نے نبی ﷺ کو ان کے حالات بیان کرتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرماتے تھے:’’ایک مرتبہ موسیٰؑ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے۔ اچانک ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: کیا آپ کسی کو اپنے سے زیادہ عالم جانتے ہیں؟ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ پر وحی نازل فرمائی: کیوں نہیں! ہمارا بندہ خضر (آپ سے زیادہ عالم ہے)۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ سے ان کی ملاقات کا راستہ پوچھا۔ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو ان کے لیے نشان مقرر کر دیا اور ان سے کہہ دیا گیا کہ جب تم مچھلی کو گم پاؤ تو واپس لوٹ آنا، قریب ہی کہیں تمہاری اس سے ملاقات ہو جائے گی۔ حضرت موسیٰ ؑ دریا میں مچھلی کی علامات تلاش کرتے رہے۔ تب حضرت موسیٰ ؑ کے خادم نے ان سے عرض کی: کیا آپ نے دیکھا تھا جب ہم پتھر کے پاس ٹھہرے تھے تو میں (وہیں) مچھلی کو بھول گیا اور مجھے شیطان ہی نے بتانے سے غافل کر دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا: یہی تو وہ چیز تھی جس کے ہم متلاشی تھے، چنانچہ وہ دونوں اپنے نقش ہائے قدم تلاش کرتے ہوئے ان پر واپس ہوئے تو وہاں حضرت خضر سے ملاقات ہو گئی۔‘‘ پھر آگے ان کا قصہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے طلب علم کے لیے ہر طرح کے سفر کا جواز بلکہ استحباب ثابت کیا ہے، یعنی اگر طلب علم یا تجارت کی ضرورت ہے تو سفر کرنے کی اجازت ہے۔ جب دنیوی ضرورت کے لیے سفر کیا جا سکتا ہے تو دینی ضرورت کے لیے اس کی ممانعت چہ معنی وارد؟ 2۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جواب کی بنیاد یہ تھی کہ آپ نبی تھے اور انبیاء کا علم دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے لیکن چونکہ انانیت اللہ کو پسند نہیں بلکہ اللہ کے حضور عاجزی اور تواضع محبوب ہے اس لیے عتاب ہوا کہ ہاں ہمارا بندہ خضر تم سے زیادہ جاننے والا ہے اور اس سے مراد خاص جزئیات ہیں یقیناً اہل علم کو علم کی قدر ہوتی ہے اس لیے انھوں نے خضر سے ملنے کی خواہش کی۔
ترجمۃ الباب:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ نے ایک حدیث کے لیے حضرت عبداللہ بن اُنیس ؓ کی طرف ایک ماہ کی مسافر کا سفر کیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالقاسم خالد بن خلی قاضی حمص نے بیان کیا، ان سے محمد بن حرب نے، اوزاعی کہتے ہیں کہ ہمیں زہری نے عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے خبر دی، وہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے بارے میں جھگڑے۔ (اس دوران میں) ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے، تو ابن عباس ؓ نے انھیں بلا لیا اور کہا کہ میں اور میرے (یہ) ساتھی حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے ملنے کی حضرت موسیٰ ؑ نے (اللہ سے) دعا کی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو کچھ ان کا ذکر فرماتے ہوئے سنا ہے؟ حضرت ابی نے کہا کہ ہاں! میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان کا حال بیان فرماتے ہوئے سنا ہے۔ آپ فرما رہے تھے کہ ایک بار حضرت موسیٰ ؑ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور کہنے لگا کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا میں آپ سے بھی بڑھ کر کوئی عالم موجود ہے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے فرمایا کہ نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ پر وحی نازل کی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر (علم میں تم سے بڑھ کر) ہے۔ تو حضرت موسیٰ نے ان سے ملنے کی راہ دریافت کی، اس وقت اللہ تعالیٰ نے (ان سے ملاقات کے لیے) مچھلی کو نشانی قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم مچھلی کو نہ پاؤ تو لوٹ جانا، تب تم خضر ؑ سے ملاقات کر لو گے۔ حضرت موسیٰ ؑ دریا میں مچھلی کے نشان کا انتظار کرتے رہے۔ تب ان کے خادم نے ان سے کہا۔ کیا آپ نے دیکھا تھا کہ جب ہم پتھر کے پاس تھے، تو میں (وہاں) مچھلی بھول گیا۔ اور مجھے شیطان ہی نے غافل کر دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ نے کہا کہ ہم اسی (مقام) کے تو متلاشی تھے، تب وہ اپنے (قدموں کے) نشانوں پر باتیں کرتے ہوئے واپس لوٹے۔ (وہاں) خضر ؑ کو انھوں نے پایا۔ پھر ان کا قصہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): that he differed with Hur bin Qais bin Hisn Al-Fazari regarding the companion of the Prophet (ﷺ) Moses (ؑ). Meanwhile, Ubai bin Ka'b (RA) passed by them and Ibn 'Abbas (RA) called him saying, "My friend (Hur) and I have differed regarding Moses (ؑ)' companion whom Moses (ؑ) asked the way to meet. Have you heard Allah's Apostle (ﷺ) mentioning something about him? Ubai bin Ka'b (RA) said: "Yes, I heard the Prophet (ﷺ) mentioning something about him (saying) while Moses (ؑ) was sitting in the company of some Israelites, a man came and asked him: "Do you know anyone who is more learned than you? Moses (ؑ) replied: "No." So Allah sent the Divine Inspiration to Moses (ؑ): '--Yes, Our slave Khadir is more learned than you. Moses (ؑ) asked Allah how to meet him (Al-Khadir). So Allah made the fish a sign for him and he was told when the fish was lost, he should return (to the place where he had lost it) and there he would meet him (Al-Khadir). So Moses (ؑ) went on looking for the sign of the fish in the sea. The servant-boy of Moses (ؑ) said: 'Do you remember when we betook ourselves to the rock, I indeed forgot the fish, none but Satan made me forget to remember it. On that Moses (ؑ) said, 'That is what we have been seeking.' So they went back retracing their footsteps, and found Khadir. (and) what happened further about them is narrated in the Holy Qur'an by Allah." (18.54 up to 18.82)