Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: The superiority of a person who learns (Islam, becomes a religious scholar) and then teaches it to others)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
79.
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت و علم مجھے دے کر بھیجا ہے، اس کی مثال تیز بارش کی سی ہے جو زمین پر برسے۔ صاف اور عمدہ زمین تو پانی کو جذب کر لیتی ہے اور بہت سا گھاس اور سبزہ اگاتی ہے، جبکہ سخت زمین پانی کو روکتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ لوگ خود بھی پیتے ہیں اور جانوروں کو بھی سیراب کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ اور کچھ بارش ایسے حصے پر برسی جو صاف اور چٹیل میدان تھا۔ وہ نہ تو پانی کو روکتا ہے اور نہ سبزہ ہی اگاتا ہے۔ پس یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین میں سمجھ حاصل کی اور جو تعلیمات دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے، ان سے اسے فائدہ ہوا، یعنی اس نے انہیں خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ اور یہی اس شخص کی مثال ہے جس نے سر تک نہ اٹھایا اور اللہ کی ہدایت کو جو میں دے کر بھیجا گیا ہوں، قبول نہ کیا۔‘‘ ابو عبداللہ (امام بخاری) فرماتے ہیں: امام اسحاق بن راہویہ نے جب اس حدیث کو بیان کیا تو انہوں نے (وَكَانَ مِنْهَا طَائِفَةٌ قَيَّلَتِ المَاءَ) کے الفاظ نقل کیے ہیں، نیز قَاعَ (جس کی جمع قیعان ہے) اس زمین کو کہتے ہیں جس پر پانی چڑھتا ہوا گزر جائے اور صفصف اس زمین کو کہتے ہیں جو برابر اور ہموار ہو۔
تشریح:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عنوان بالا کو بایں طور پر ثابت کرتے ہیں کہ جس طرح زمین کی سب سے بہترین قسم وہ ہے جو خود بھی نفع اندوز ہو اور دوسروں کو بھی نفع پہنچائے، اسی طرح وہ عالم سب سے افضل ہے جو خود بھی علم کے ثمرات سے فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی نفع اٹھانے کے مواقع فراہم کرے۔ (شرح الکرماني: 59/2) 2۔ اس حدیث میں زمین کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں: ایک وہ جو پانی جذب کرے اور روئیدگی لائے۔ دوسری وہ جو پانی جذب کرنے کی بجائے اسے محفوظ کرے جس سے جانور اور انسان فائدہ اٹھاتے ہیں تیسری وہ جو نہ پانی جذب کرے اور نہ اسے اپنے اندر محفوظ ہی رکھے۔ اسی طرح اہل علم کی بھی تین اقسام ہیں: بعض وہ حضرات ہیں جنھوں نے احادیث کو سنا اور ان سے مسائل کا استنباط کیا، جیسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ۔ دوسرے وہ جنھوں نے احادیث کو سننے کے بعد ان کو محفوظ کیا لیکن ان سے استنباط نہیں کیا، جیسے ناقلین حدیث۔ تیسرے وہ جنھوں نے احادیث کو نہ محفوظ کیا اور نہ اس پر عمل ہی کیا، جیسے امراء اور جہلا وغیرہ۔ اس طرح مثالیں بھی تین اور اس کے مصداق بھی تین، یعنی ان میں پوری مطابقت ہے۔ 3۔ اس تشبیہ میں وجہ شبہ احیاء ہے، یعنی جس طرح عالم اسباب میں زمین کی زندگی اور موت کا تعلق پانی سے ہے کہ بارش ہوگئی تو زمین کو نئی زندگی مل گئی سرسبزی اور شادابی چھا گئی، اسی طرح جب علوم کا فیضان دلوں پر ہوتا ہے تو انھیں بھی نئی زندگی مل جاتی ہے۔ (فتح الباري: 232/1) 4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر افادہ اور استفادہ تھا، اس لیے آخر میں پہلی دو قسموں کو یعنی جس نے پانی جذب کیا اور جس نے جذب کرنے کے بجائے اسے محفوظ کر لیا۔ ایک ہی شمار کیا گیا ہے کیونکہ یہ دونوں افادے میں برابر ہیں، اگرچہ پہلی قسم میں افادہ اور استفادہ دونوں ہیں، کیونکہ علمی بارش سے دونوں سیراب ہوتے ہیں لیکن نفع کی نوعیت مختلف ہے۔ اور تیسری قسم میں نہ افادہ ہے اور نہ استفادہ، اس لیے آخرمیں اسے مستقل طور پر بیان فرمایا اور اس سے مراد کافر اور جاہل لوگ ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
79
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
79
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
79
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
79
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت و علم مجھے دے کر بھیجا ہے، اس کی مثال تیز بارش کی سی ہے جو زمین پر برسے۔ صاف اور عمدہ زمین تو پانی کو جذب کر لیتی ہے اور بہت سا گھاس اور سبزہ اگاتی ہے، جبکہ سخت زمین پانی کو روکتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ لوگ خود بھی پیتے ہیں اور جانوروں کو بھی سیراب کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے کھیتی باڑی بھی کرتے ہیں۔ اور کچھ بارش ایسے حصے پر برسی جو صاف اور چٹیل میدان تھا۔ وہ نہ تو پانی کو روکتا ہے اور نہ سبزہ ہی اگاتا ہے۔ پس یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین میں سمجھ حاصل کی اور جو تعلیمات دے کر اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا ہے، ان سے اسے فائدہ ہوا، یعنی اس نے انہیں خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ اور یہی اس شخص کی مثال ہے جس نے سر تک نہ اٹھایا اور اللہ کی ہدایت کو جو میں دے کر بھیجا گیا ہوں، قبول نہ کیا۔‘‘ ابو عبداللہ (امام بخاری) فرماتے ہیں: امام اسحاق بن راہویہ نے جب اس حدیث کو بیان کیا تو انہوں نے (وَكَانَ مِنْهَا طَائِفَةٌ قَيَّلَتِ المَاءَ) کے الفاظ نقل کیے ہیں، نیز قَاعَ (جس کی جمع قیعان ہے) اس زمین کو کہتے ہیں جس پر پانی چڑھتا ہوا گزر جائے اور صفصف اس زمین کو کہتے ہیں جو برابر اور ہموار ہو۔
حدیث حاشیہ:
1۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ عنوان بالا کو بایں طور پر ثابت کرتے ہیں کہ جس طرح زمین کی سب سے بہترین قسم وہ ہے جو خود بھی نفع اندوز ہو اور دوسروں کو بھی نفع پہنچائے، اسی طرح وہ عالم سب سے افضل ہے جو خود بھی علم کے ثمرات سے فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی نفع اٹھانے کے مواقع فراہم کرے۔ (شرح الکرماني: 59/2) 2۔ اس حدیث میں زمین کی تین قسمیں بیان کی گئی ہیں: ایک وہ جو پانی جذب کرے اور روئیدگی لائے۔ دوسری وہ جو پانی جذب کرنے کی بجائے اسے محفوظ کرے جس سے جانور اور انسان فائدہ اٹھاتے ہیں تیسری وہ جو نہ پانی جذب کرے اور نہ اسے اپنے اندر محفوظ ہی رکھے۔ اسی طرح اہل علم کی بھی تین اقسام ہیں: بعض وہ حضرات ہیں جنھوں نے احادیث کو سنا اور ان سے مسائل کا استنباط کیا، جیسے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ۔ دوسرے وہ جنھوں نے احادیث کو سننے کے بعد ان کو محفوظ کیا لیکن ان سے استنباط نہیں کیا، جیسے ناقلین حدیث۔ تیسرے وہ جنھوں نے احادیث کو نہ محفوظ کیا اور نہ اس پر عمل ہی کیا، جیسے امراء اور جہلا وغیرہ۔ اس طرح مثالیں بھی تین اور اس کے مصداق بھی تین، یعنی ان میں پوری مطابقت ہے۔ 3۔ اس تشبیہ میں وجہ شبہ احیاء ہے، یعنی جس طرح عالم اسباب میں زمین کی زندگی اور موت کا تعلق پانی سے ہے کہ بارش ہوگئی تو زمین کو نئی زندگی مل گئی سرسبزی اور شادابی چھا گئی، اسی طرح جب علوم کا فیضان دلوں پر ہوتا ہے تو انھیں بھی نئی زندگی مل جاتی ہے۔ (فتح الباري: 232/1) 4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر افادہ اور استفادہ تھا، اس لیے آخر میں پہلی دو قسموں کو یعنی جس نے پانی جذب کیا اور جس نے جذب کرنے کے بجائے اسے محفوظ کر لیا۔ ایک ہی شمار کیا گیا ہے کیونکہ یہ دونوں افادے میں برابر ہیں، اگرچہ پہلی قسم میں افادہ اور استفادہ دونوں ہیں، کیونکہ علمی بارش سے دونوں سیراب ہوتے ہیں لیکن نفع کی نوعیت مختلف ہے۔ اور تیسری قسم میں نہ افادہ ہے اور نہ استفادہ، اس لیے آخرمیں اسے مستقل طور پر بیان فرمایا اور اس سے مراد کافر اور جاہل لوگ ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے حماد بن اسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابی بردہ سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوموسیٰ سے اور وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر (خوب) برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے، اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا (یعنی توجہ نہیں کی) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق نے ابواسامہ کی روایت سے "قبلت الماء" کا لفظ نقل کیا ہے۔ قاع اس خطہ زمین کو کہتے ہیں جس پر پانی چڑھ جائے (مگر ٹھہرے نہیں) اور صفصف اس زمین کو کہتے ہیں جو بالکل ہموار ہو۔
حدیث حاشیہ:
حدیث (78) سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ حضرت موسیٰ نے علم حاصل کرنے کے لیے کتنا بڑا سفر کیا۔ جن لوگوں نے یہ حکایت نقل کی ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام نے فقہ حنفی سیکھی اور پھر قشیری کو سکھائی یہ سارا قصہ محض جھوٹ ہے۔ اسی طرح بعضوں کا یہ خیال کہ حضرت عیسیٰ یا امام مہدی حنفی مذہب کے مقلد ہوں گے محض بے اصل اور خلاف قیاس ہے۔ حضرت ملا علی قاری نے اس کا خوب رد کیا ہے۔ حضرت امام مہدی خالص کتاب وسنت کے علم بردار پختہ اہل حدیث ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): The Prophet (ﷺ) said, "The example of guidance and knowledge with which Allah has sent me is like abundant rain falling on the earth, some of which was fertile soil that absorbed rain water and brought forth vegetation and grass in abundance. (And) another portion of it was hard and held the rain water and Allah benefited the people with it and they utilized it for drinking, making their animals drink from it and for irrigation of the land for cultivation. (And) a portion of it was barren which could neither hold the water nor bring forth vegetation (then that land gave no benefits). The first is the example of the person who comprehends Allah's religion and gets benefit (from the knowledge) which Allah has revealed through me (the Prophets and learns and then teaches others. The last example is that of a person who does not care for it and does not take Allah's guidance revealed through me (He is like that barren land.)"