مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
799.
حضرت رفاعہ بن رافع زرقی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک دن نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے رکوع سے سر اٹھا کر سمع الله لمن حمده کہا تو ایک شخص نے (بآواز بلند) (رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ) پڑھا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’یہ کلمات کس نے کہے تھے؟‘‘ وہ شخص بولا: میں نے پڑھے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات کی طرف لپک رہے تھے کہ کون انہیں پہلے قلمبند کرے۔‘‘
تشریح:
(1) روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کلمات کہنے والے خود راوئ حدیث حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ تھے، نیز اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تسمیع وظیفۂ اعتدال، یعنی قومے کا وظیفہ ہے جبکہ حدیث ابو ہریرہ ؓ میں اسے وظیفۂ انتقال بتایا گیا ہے اور معروف بھی یہی ہے۔ تطبیق کی یہ صورت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے رکوع سے سر اٹھانا شروع کیا تو سمع الله لمن حمده کہنے کی ابتدا کی اور حالت قومہ میں اس کی تکمیل ہوئی۔ (فتح الباري:2/ 369، 370) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں غیر ماثور اذکار کا اضافہ جائز ہے بشرطیکہ مسنون اذکار کے مخالف نہ ہوں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري:2/ 371) لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ان حالات میں ایسا کرنا درست نہیں، البتہ زمانۂ نبوت میں ایسا کرنا جائز تھا کیونکہ نزول وحی کا زمانہ تھا اور باطل، حق کی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا تھا لیکن انقطاع وحی کے بعد جبکہ شریعت مکمل ہو چکی ہے عبادات میں ایسے الفاظ کی زیادتی جو شریعت سے ثابت نہ ہو، محل نظر ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
790
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
799
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
799
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
799
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
بعض حضرات نے باب القنوت لکھا ہے لیکن یہ عنوان صحیح بخاری کے کسی متداول نسخے میں نہیں ہے۔ یہ باب امام بخاری رحمہ اللہ نے فصل کے طور پر پیش کیا ہے جو رجوع الی الاصل کی قبیل سے ہے، یعنی قبل ازیں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا، رکوع سے سر اٹھانے کے بعد امام اور مقتدی کیا پڑھیں؟ اس باب کے تحت جب اللهم ربنا لك الحمد کے الفاظ آئے تو ان کی فضیلت بتانے کے لیے ایک الگ عنوان قائم کیا، اب باب کے لفظ سے عنوان سابق کی تکمیل فرمائی ہے، یعنی قومے کی حالت میں اللهم ربنا لك الحمد کے علاوہ مزید جو کچھ پڑھا جا سکتا ہے اسے ذکر کیا جائے۔ واضح رہے کہ اذکار دو قسم کے ہیں: معمول بها اور غير معمول بها۔ معمول بها اذکار وہ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت منقول ہیں اور غير معمول بها وظائف وہ ہیں جنہیں کسی ہنگامی ضرورت کے پیش نظر عمل میں لایا جائے۔ جو وظائف معمول بها تھے ان کی فضیلت پہلے بیان فرمائی اور اب غير معمول بها، مثلا: قنوت وغیرہ کا ذکر اس باب میں کیا ہے۔
حضرت رفاعہ بن رافع زرقی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک دن نبی ﷺ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ نے رکوع سے سر اٹھا کر سمع الله لمن حمده کہا تو ایک شخص نے (بآواز بلند) (رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ) پڑھا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ’’یہ کلمات کس نے کہے تھے؟‘‘ وہ شخص بولا: میں نے پڑھے تھے۔ آپ نے فرمایا: ’’میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات کی طرف لپک رہے تھے کہ کون انہیں پہلے قلمبند کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ کلمات کہنے والے خود راوئ حدیث حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ تھے، نیز اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تسمیع وظیفۂ اعتدال، یعنی قومے کا وظیفہ ہے جبکہ حدیث ابو ہریرہ ؓ میں اسے وظیفۂ انتقال بتایا گیا ہے اور معروف بھی یہی ہے۔ تطبیق کی یہ صورت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے رکوع سے سر اٹھانا شروع کیا تو سمع الله لمن حمده کہنے کی ابتدا کی اور حالت قومہ میں اس کی تکمیل ہوئی۔ (فتح الباري:2/ 369، 370) (2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں غیر ماثور اذکار کا اضافہ جائز ہے بشرطیکہ مسنون اذکار کے مخالف نہ ہوں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ (فتح الباري:2/ 371) لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ان حالات میں ایسا کرنا درست نہیں، البتہ زمانۂ نبوت میں ایسا کرنا جائز تھا کیونکہ نزول وحی کا زمانہ تھا اور باطل، حق کی صورت میں قائم نہیں رہ سکتا تھا لیکن انقطاع وحی کے بعد جبکہ شریعت مکمل ہو چکی ہے عبادات میں ایسے الفاظ کی زیادتی جو شریعت سے ثابت نہ ہو، محل نظر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک ؓ سے، انہوں نے نعیم بن عبداللہ مجمر سے، انہوں نے علی بن یحییٰ بن خلاد زرقی سے، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے رفاعہ بن رافع زرقی سے، انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ رکوع سے سر اٹھاتے تو سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے۔ ایک شخص نے پیچھے سے کہا رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ آپ ﷺ نے نماز سے فارغ ہو کر دریافت فرمایا کہ کس نے یہ کلمات کہے ہیں، اس شخص نے جواب دیا کہ میں نے۔ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا کہ ان کلمات کو لکھنے میں وہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے تھے۔ (اس سے ان کلمات کی فضیلت ثابت ہوئی)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rifa'a bin Rafi AzZuraqi (RA): One day we were praying behind the Prophet. When he raised his head from bowing, he said, "Sami'a-l-lahu Liman hamida." A man behind him said, "Rabbana walaka-l hamd hamdan Kathiran taiyiban mubarakan fihi" (O our Lord! All the praises are for you, many good and blessed praises). When the Prophet (ﷺ) completed the prayer, he asked, "Who has said these words?" The man replied, "I." The Prophet (ﷺ) said, "I saw over thirty angels competing to write it first." Prophet (ﷺ) rose (from bowing) and stood straight till all the vertebrae of his spinal column came to a natural position.