Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Superiority of prostrating)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
806.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم روز قیامت اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟آپ نے فرمایا: ’’شب بدر کے چاند جس پر کوئی ابر نہ ہو (اسے دیکھنے میں) تمہیں کوئی شک ہوتا ہے؟‘‘ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو کیا تم آفتاب (کے دیکھنے) میں شک کرتے ہو جبکہ اس پر ابر نہ ہو؟‘‘ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اسی طرح تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جو (دنیا میں) جس کی پوجا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے جائے، چنانچہ کوئی تو سورج کے ساتھ ہو جائے گا اور کوئی چاند کے پیچھے ہو لے گا اور کوئی بتوں اور شیاطین کے پیچھے چلے گا۔ باقی اس امت کے (مسلمان) لوگ رہ جائیں گے جن میں منافق بھی ہوں گے۔ ان کے پاس اللہ تعالیٰ (ایک نئی صورت میں) تشریف لائے گا اور فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ عرض کریں گے ہم (تجھے نہیں پہچانتے ہم) اسی جگہ کھڑے رہیں گے۔ جب ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس (اپنی اصلی شکل و صورت میں) جلوہ گر ہو گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ تو وہ کہیں گے: ہاں، تو ہمارا رب ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں بلائے گا۔ اس وقت جہنم کی پشت پر پل رکھ دیا جائے گا۔ سب سے پہلے میں اپنی امت کے ساتھ اس پر سے گزروں گا۔ اس روز رسولوں کے علاوہ کسی اور کو کلام کی ہمت اور طاقت نہ ہو گی۔ اس روز رسول کہیں گے الہٰی! سلامتی دے۔ الہٰی! سلامتی دے۔ جہنم میں سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے مگر ان کی لمبائی اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ آنکڑے لوگوں کو ان کے (برے) اعمال کے مطابق گھسیٹیں گے۔ بعض شخص تو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں گے اور کچھ زخموں سے چور ہو کر بچ جائیں گے حتی کہ جب اللہ تعالیٰ اہل جہنم میں سے جن پر مہربانی کرنا چاہے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے تھے وہ نکال لیے جائیں، چنانچہ فرشتے انہیں سجدوں کے نشانات سے پہچان کر نکال لیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدوں کے نشانات کو کھانا حرام کر دیا ہے۔ ان لوگوں کو جہنم سے اس حالت میں نکالا جائے گا کہ نشانات سجود کے علاوہ ان کی ہر چیز کو آگ کھا چکی ہو گی۔ یہ لوگ کوئلے کی طرح سوختہ حالت میں جہنم سے نکلیں گے۔ پھر ان پر آب حیات دالا جائے گا تو وہ ایسے نمو پائیں گے جس طرح قدرتی بیج پانی کے بہاؤ میں اُگتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا فیصلہ کرنے سے فارغ ہو جائے گا لیکن ایک شخص جنت اور دوزخ کے درمیان رہ جائے گا۔ وہ جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہونے کے اعتبار سے آخری ہو گا۔ اس کا منہ دوزخ کی جانب ہو گا اور وہ عرض کرے گا: اے اللہ! میرا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے کیونکہ اس کی بدبو نے مجھے جھلسا دیا ہے اور اس کے شعلے نے مجھے جلا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو آئندہ ایسا تو نہیں کرے گا کہ اگر تیرے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے تو پھر اس کے علاوہ کچھ اور مانگے؟ وہ عرض کرے گا: ہرگز نہیں، تیری عزت کی قسم! پھر اللہ تعالیٰ کو اس کی مشئیت کے مطابق عہدوپیمان دے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کا منہ دزخ کی جانب سے پھیر دے گا۔ جب وہ جنت کی طرف منہ کرے گا تو اس کی تروتازگی اوربہار دیکھ کر جتنی دیر تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا کاموش رہے گا۔ اس کے بعد کہے گا: اے میرے پروردگار! مجھے جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نے اس پر قول و قرار نہ کیا تھا کہ جو کچھ تو مانگ چکا ہے اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا؟ اس پر وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! تیری مخلوق میں سب سے بڑھ کر میں ہی بدنصیب نہ ہو جاؤں۔ ارشاد ہو گا: اگر تجھے یہ بھی عطا کر دیا جائے تو اس کے علاوہ کچھ اور سوال تو نہیں کرے گا؟ وہ عرض پرداز ہو گا: تیری بزرگی کی قسم! میں اس کےعلاوہ کوئی اور سوال نہیں کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ کو اس کی مشئیت کے مطابق قول و قرار دے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ اسے جنت کے دروازے پر پہنچا دے گا اور جب وہ جنت کے دروازے کے پاس پہنچ جائے گا وہاں کی شادابی تازگی اور فرحت دیکھ کر جتنی دیر اللہ کو منظور ہو گا خاموش رہے گا، پھر یوں گویا ہ گا: اے میرے پروردگار! مجھے جنت میں داخل کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کےبیٹے! تجھ پر افسوس تو کتنا عہد شکن اور دغا باز ہے؟ کیا تو نے اس بات کا عہد نہ کیا تھا کہ اب میں کوئی درخواست نہیں کروں گا؟ تو وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ کر۔ تب اس کی باتوں پر اللہ تعالیٰ ہنس دے گا اور اسے جنت میں جانے کی اجازت دے کر فرمائے گا کہ خواہش کر، چنانچہ وہ خواہش کرے گا یہاں تک کہ اس کی تمام خواہشات ختم ہو جائیں گی تو اللہ فرمائے گا: یہ یہ چیزیں اور مانگ۔ اس کا پروردگار اسے خود یاد دلائے گا یہاں تک کہ جب اس کی تمام خواہشیں پوری ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تجھے یہ بھی بلکہ اس کی مثل اور بھی دیا جاتا ہے۔‘‘ حضرت ابوسعید خدری ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ پر فرمایا تھا: ’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیرے لیے یہ بھی اور اس کے ساتھ دس گنا مزید بھی ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہ ؓ گویا ہوئے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ سے یہی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’تیرے لیے یہ اور اتنا اور ہے۔" حضرت ابوسعید ؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’یہ سب کچھ تجھے دیا اور اس سے دس گنا مزید بھی دیا جاتا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے سجدے کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیشانی کو نہیں جلائے گا جس پر سجدے کے نشانات ہوں گے۔ اور انہی نشانات کی وجہ سے بے شمار گناہ گاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ جو لوگ دنیا میں نماز کی نعمت سے محروم رہے ہوں گے لیکن کلمۂ شہادت ادا کر کے اسلام قبول کیا ہو گا انہیں جہنم کے عذاب سے کیسے نجات ملے گی؟ ان کے جسم پر سجدے کے آثار و علامات نہیں ہوں گے جن سے فرشتے شناخت کر کے انہیں جہنم سے نکال لائیں تو کیا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے؟ غالبا ایسے لوگوں کو خود اللہ تعالیٰ جہنم سے نکالے گا جبکہ تمام انبیاء، صلحاء اور فرشتوں کی سفارشات سے بےشمار لوگ جہنم سے نجات حاصل کر چکے ہوں گے اور جنت میں انہیں داخلہ مل چکا ہو گا۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اب میری سفارش رہ گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ مٹھی بھر کر ایسے لوگوں کو جہنم سے نکالے گا جنہوں نے دنیا میں کبھی اچھا کام نہیں کیا ہو گا۔ ان کے پاس دھندلا سا ایمان ہو گا جو انبیاء، صلحاء اور فرشتوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے گا۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث:7439)واللہ أعلم۔ (2) اس کے متعلق اختلاف ہے کہ دوزخ کی آگ سے نمازی کے جسم کا کون سا حصہ محفوظ رہے گا؟ علامہ نووی ؒ کی رائے ہے کہ تمام اعضائے سجدہ، یعنی پیشانی، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے جبکہ قاضی عیاض کا موقف ہے کہ صرف پیشانی جس سے سجدہ ہوتا ہے وہی محفوظ ہو گی کیونکہ حدیث میں ہے کہ گناہ گار لوگوں میں سے کچھ لوگ آدھی پنڈلی، کچھ گھٹنوں اور کچھ کمر تک آگ میں رہیں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قدم اور گھٹنے آگ سے محفوظ نہیں رہیں گے، اس لیے صرف پیشانی کو محفوظ کہہ سکتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث سے بھی اسی موقف کی تائید ہوتی ہے کہ کچھ لوگوں کو دوزخ میں عذاب ہو گا مگر ان کے چہروں کے دائرے اس سے محفوظ ہوں گے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ نے پہلی حدیث کا جواب بایں الفاظ دیا ہے کہ اس میں خاص لوگوں کا حال بیان ہوا ہے لیکن عام گناہ گار اہل ایمان کے تمام اعضائے سجدہ آگ سے محفوظ رہیں گے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث کا تقاضا ہے، اس لیے جہنم میں سزا پانے والے اہل ایمان کی دو اقسام ہیں اور دونوں قسم کی احادیث کے موارد بھی الگ الگ ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی قاضی عیاض کے استدلال کا جواب دیا ہے کہ آخرت کے احوال کو دنیا کے احوال پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ کمر تک آگ میں جلنے والوں کے گھٹنے اور قدم دوزخ کی آگ سے بالکل متاثر نہ ہوں اور اعضائے سجدہ اس سے محفوظ رہیں۔ پھر لکھا ہے کہ چہرے کے دائروں والی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف پیشانی بلکہ چہرے کے پورے دائرے سجدے کی برکت سے محفوظ رہیں گے۔ اس بنا پر پیشانی کے استثناء والی بات بھی محل نظر ہے۔ (فتح الباري:556/11 و 481/2) (3) حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ فضائل اعمال میں اقل کو ابتدائی اور اکثر کو آخری حالات پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث میں کم از کم قطعۂ جنت کا بیان ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کو پہلے مطلع کیا گیا اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث میں زیادہ سے زیادہ رحمت الٰہی کا بیان ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کو بعد میں مطلع کیا گیا اور بیان کے وقت حضرت ابو ہریرہ ؓ اس پر مطلع نہ ہو سکے۔ (عمدة القاري:552/4)واللہ أعلم۔ (4) اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات کا اثبات ہے جن پر آگے کتاب الرقاق، حدیث: 6573 اور کتاب التوحید، حدیث: 7437 میں گفتگو ہو گی۔ بإذن اللہ۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
797
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
806
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
806
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
806
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے ارکان نماز میں سے صرف سجدے کی فضیلت بیان کرنے کے لیے عنوان قائم کیا ہے، اس کی دو وجوہات ہیں: سجدے کے علاوہ دیگر ارکان، مثلاً: رکوع، قیام وغیرہ خارج از صلاۃ جائز نہیں جبکہ سجدہ، نماز کے علاوہ بھی جائز ہے، جیسے سجدۂ تلاوت اور سجدۂ شکر وغیرہ، اس لیے سجدے کو دیگر ارکان نماز پر برتری حاصل ہے۔ بعض روایات امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط کے مطابق نہیں ہوتیں، ایسے حالات میں امام بخاری رحمہ اللہ عنوان کے ذریعے سے ان کی تردید یا تائید فرماتے ہیں، چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب کے بہت قریب ہوتا ہے، اس لیے بحالت سجدہ دعا کیا کرو۔ ایسی حالت میں تمہاری دعا قبول ہونے کی امید ہے۔ (صحیح مسلم،الصلاۃ،حدیث:1074(479)) امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان کے ذریعے سے اس حدیث کی تائید فرمائی ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم روز قیامت اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟آپ نے فرمایا: ’’شب بدر کے چاند جس پر کوئی ابر نہ ہو (اسے دیکھنے میں) تمہیں کوئی شک ہوتا ہے؟‘‘ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو کیا تم آفتاب (کے دیکھنے) میں شک کرتے ہو جبکہ اس پر ابر نہ ہو؟‘‘ صحابہ کرام نے کہا: اللہ کے رسول! ہرگز نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اسی طرح تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ قیامت کے دن جب لوگ اٹھائے جائیں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جو (دنیا میں) جس کی پوجا کرتا تھا وہ اس کے پیچھے جائے، چنانچہ کوئی تو سورج کے ساتھ ہو جائے گا اور کوئی چاند کے پیچھے ہو لے گا اور کوئی بتوں اور شیاطین کے پیچھے چلے گا۔ باقی اس امت کے (مسلمان) لوگ رہ جائیں گے جن میں منافق بھی ہوں گے۔ ان کے پاس اللہ تعالیٰ (ایک نئی صورت میں) تشریف لائے گا اور فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ عرض کریں گے ہم (تجھے نہیں پہچانتے ہم) اسی جگہ کھڑے رہیں گے۔ جب ہمارا رب ہمارے پاس آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس (اپنی اصلی شکل و صورت میں) جلوہ گر ہو گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ تو وہ کہیں گے: ہاں، تو ہمارا رب ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ انہیں بلائے گا۔ اس وقت جہنم کی پشت پر پل رکھ دیا جائے گا۔ سب سے پہلے میں اپنی امت کے ساتھ اس پر سے گزروں گا۔ اس روز رسولوں کے علاوہ کسی اور کو کلام کی ہمت اور طاقت نہ ہو گی۔ اس روز رسول کہیں گے الہٰی! سلامتی دے۔ الہٰی! سلامتی دے۔ جہنم میں سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے مگر ان کی لمبائی اللہ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ وہ آنکڑے لوگوں کو ان کے (برے) اعمال کے مطابق گھسیٹیں گے۔ بعض شخص تو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں گے اور کچھ زخموں سے چور ہو کر بچ جائیں گے حتی کہ جب اللہ تعالیٰ اہل جہنم میں سے جن پر مہربانی کرنا چاہے گا تو فرشتوں کو حکم دے گا جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے تھے وہ نکال لیے جائیں، چنانچہ فرشتے انہیں سجدوں کے نشانات سے پہچان کر نکال لیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدوں کے نشانات کو کھانا حرام کر دیا ہے۔ ان لوگوں کو جہنم سے اس حالت میں نکالا جائے گا کہ نشانات سجود کے علاوہ ان کی ہر چیز کو آگ کھا چکی ہو گی۔ یہ لوگ کوئلے کی طرح سوختہ حالت میں جہنم سے نکلیں گے۔ پھر ان پر آب حیات دالا جائے گا تو وہ ایسے نمو پائیں گے جس طرح قدرتی بیج پانی کے بہاؤ میں اُگتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا فیصلہ کرنے سے فارغ ہو جائے گا لیکن ایک شخص جنت اور دوزخ کے درمیان رہ جائے گا۔ وہ جہنم سے نکل کر جنت میں داخل ہونے کے اعتبار سے آخری ہو گا۔ اس کا منہ دوزخ کی جانب ہو گا اور وہ عرض کرے گا: اے اللہ! میرا منہ دوزخ کی طرف سے پھیر دے کیونکہ اس کی بدبو نے مجھے جھلسا دیا ہے اور اس کے شعلے نے مجھے جلا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو آئندہ ایسا تو نہیں کرے گا کہ اگر تیرے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے تو پھر اس کے علاوہ کچھ اور مانگے؟ وہ عرض کرے گا: ہرگز نہیں، تیری عزت کی قسم! پھر اللہ تعالیٰ کو اس کی مشئیت کے مطابق عہدوپیمان دے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کا منہ دزخ کی جانب سے پھیر دے گا۔ جب وہ جنت کی طرف منہ کرے گا تو اس کی تروتازگی اوربہار دیکھ کر جتنی دیر تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا کاموش رہے گا۔ اس کے بعد کہے گا: اے میرے پروردگار! مجھے جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تو نے اس پر قول و قرار نہ کیا تھا کہ جو کچھ تو مانگ چکا ہے اس کے علاوہ کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کرے گا؟ اس پر وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! تیری مخلوق میں سب سے بڑھ کر میں ہی بدنصیب نہ ہو جاؤں۔ ارشاد ہو گا: اگر تجھے یہ بھی عطا کر دیا جائے تو اس کے علاوہ کچھ اور سوال تو نہیں کرے گا؟ وہ عرض پرداز ہو گا: تیری بزرگی کی قسم! میں اس کےعلاوہ کوئی اور سوال نہیں کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ کو اس کی مشئیت کے مطابق قول و قرار دے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ اسے جنت کے دروازے پر پہنچا دے گا اور جب وہ جنت کے دروازے کے پاس پہنچ جائے گا وہاں کی شادابی تازگی اور فرحت دیکھ کر جتنی دیر اللہ کو منظور ہو گا خاموش رہے گا، پھر یوں گویا ہ گا: اے میرے پروردگار! مجھے جنت میں داخل کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کےبیٹے! تجھ پر افسوس تو کتنا عہد شکن اور دغا باز ہے؟ کیا تو نے اس بات کا عہد نہ کیا تھا کہ اب میں کوئی درخواست نہیں کروں گا؟ تو وہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! مجھے اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ کر۔ تب اس کی باتوں پر اللہ تعالیٰ ہنس دے گا اور اسے جنت میں جانے کی اجازت دے کر فرمائے گا کہ خواہش کر، چنانچہ وہ خواہش کرے گا یہاں تک کہ اس کی تمام خواہشات ختم ہو جائیں گی تو اللہ فرمائے گا: یہ یہ چیزیں اور مانگ۔ اس کا پروردگار اسے خود یاد دلائے گا یہاں تک کہ جب اس کی تمام خواہشیں پوری ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تجھے یہ بھی بلکہ اس کی مثل اور بھی دیا جاتا ہے۔‘‘ حضرت ابوسعید خدری ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ پر فرمایا تھا: ’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیرے لیے یہ بھی اور اس کے ساتھ دس گنا مزید بھی ہے۔‘‘ حضرت ابوہریرہ ؓ گویا ہوئے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ سے یہی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’تیرے لیے یہ اور اتنا اور ہے۔" حضرت ابوسعید ؓ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: ’’یہ سب کچھ تجھے دیا اور اس سے دس گنا مزید بھی دیا جاتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے سجدے کی فضیلت کا پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پیشانی کو نہیں جلائے گا جس پر سجدے کے نشانات ہوں گے۔ اور انہی نشانات کی وجہ سے بے شمار گناہ گاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جہنم سے نکال لیا جائے گا۔ جو لوگ دنیا میں نماز کی نعمت سے محروم رہے ہوں گے لیکن کلمۂ شہادت ادا کر کے اسلام قبول کیا ہو گا انہیں جہنم کے عذاب سے کیسے نجات ملے گی؟ ان کے جسم پر سجدے کے آثار و علامات نہیں ہوں گے جن سے فرشتے شناخت کر کے انہیں جہنم سے نکال لائیں تو کیا وہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہیں گے؟ غالبا ایسے لوگوں کو خود اللہ تعالیٰ جہنم سے نکالے گا جبکہ تمام انبیاء، صلحاء اور فرشتوں کی سفارشات سے بےشمار لوگ جہنم سے نجات حاصل کر چکے ہوں گے اور جنت میں انہیں داخلہ مل چکا ہو گا۔ تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اب میری سفارش رہ گئی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ مٹھی بھر کر ایسے لوگوں کو جہنم سے نکالے گا جنہوں نے دنیا میں کبھی اچھا کام نہیں کیا ہو گا۔ ان کے پاس دھندلا سا ایمان ہو گا جو انبیاء، صلحاء اور فرشتوں کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے گا۔ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث:7439)واللہ أعلم۔ (2) اس کے متعلق اختلاف ہے کہ دوزخ کی آگ سے نمازی کے جسم کا کون سا حصہ محفوظ رہے گا؟ علامہ نووی ؒ کی رائے ہے کہ تمام اعضائے سجدہ، یعنی پیشانی، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے جبکہ قاضی عیاض کا موقف ہے کہ صرف پیشانی جس سے سجدہ ہوتا ہے وہی محفوظ ہو گی کیونکہ حدیث میں ہے کہ گناہ گار لوگوں میں سے کچھ لوگ آدھی پنڈلی، کچھ گھٹنوں اور کچھ کمر تک آگ میں رہیں گے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قدم اور گھٹنے آگ سے محفوظ نہیں رہیں گے، اس لیے صرف پیشانی کو محفوظ کہہ سکتے ہیں۔ ایک دوسری حدیث سے بھی اسی موقف کی تائید ہوتی ہے کہ کچھ لوگوں کو دوزخ میں عذاب ہو گا مگر ان کے چہروں کے دائرے اس سے محفوظ ہوں گے۔ علامہ نووی رحمہ اللہ نے پہلی حدیث کا جواب بایں الفاظ دیا ہے کہ اس میں خاص لوگوں کا حال بیان ہوا ہے لیکن عام گناہ گار اہل ایمان کے تمام اعضائے سجدہ آگ سے محفوظ رہیں گے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث کا تقاضا ہے، اس لیے جہنم میں سزا پانے والے اہل ایمان کی دو اقسام ہیں اور دونوں قسم کی احادیث کے موارد بھی الگ الگ ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی قاضی عیاض کے استدلال کا جواب دیا ہے کہ آخرت کے احوال کو دنیا کے احوال پر قیاس نہیں کرنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ کمر تک آگ میں جلنے والوں کے گھٹنے اور قدم دوزخ کی آگ سے بالکل متاثر نہ ہوں اور اعضائے سجدہ اس سے محفوظ رہیں۔ پھر لکھا ہے کہ چہرے کے دائروں والی حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نہ صرف پیشانی بلکہ چہرے کے پورے دائرے سجدے کی برکت سے محفوظ رہیں گے۔ اس بنا پر پیشانی کے استثناء والی بات بھی محل نظر ہے۔ (فتح الباري:556/11 و 481/2) (3) حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ فضائل اعمال میں اقل کو ابتدائی اور اکثر کو آخری حالات پر محمول کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر حضرت ابو ہریرہ ؓ کی حدیث میں کم از کم قطعۂ جنت کا بیان ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کو پہلے مطلع کیا گیا اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی حدیث میں زیادہ سے زیادہ رحمت الٰہی کا بیان ہے جس پر رسول اللہ ﷺ کو بعد میں مطلع کیا گیا اور بیان کے وقت حضرت ابو ہریرہ ؓ اس پر مطلع نہ ہو سکے۔ (عمدة القاري:552/4)واللہ أعلم۔ (4) اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات کا اثبات ہے جن پر آگے کتاب الرقاق، حدیث: 6573 اور کتاب التوحید، حدیث: 7437 میں گفتگو ہو گی۔ بإذن اللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب اور عطاء بن یزید لیثی نے خبر دی کہ ابوہریرہ ؓ نے انہیں خبر دی کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا ہم اپنے رب کو قیامت میں دیکھ سکیں گے؟ آپ نے ( جواب کے لیے ) پوچھا، کیا تمہیں چودھویں رات کے چاند کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے؟ لوگ بولے ہرگز نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے پوچھا اور کیا تمہیں سورج کے دیکھنے میں جب کہ اس کے قریب کہیں بادل بھی نہ ہو شبہ ہوتا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! پھر آپ نے فرمایا کہ رب العزت کو تم اسی طرح دیکھو گے۔ لوگ قیامت کے دن جمع کئے جائیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جو جسے پوجتا تھا وہ اس کے ساتھ ہو جائے۔ چنانچہ بہت سے لوگ سورج کے پیچھے ہو لیں گے، بہت سے چاند کے اور بہت سے بتوں کے ساتھ ہو لیں گے۔ یہ امت باقی رہ جائے گی۔ اس میں منافقین بھی ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک نئی صورت میں آئے گا اور ان سے کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ وہ منافقین کہیں گے کہ ہم یہیں اپنے رب کے آنے تک کھڑے رہیں گے۔ جب ہمارا رب آئے گا تو ہم اسے پہچان لیں گے۔ پھر اللہ عزوجل ان کے پاس ( ایسی صورت میں جسے وہ پہچان لےں ) آئے گا اور فرمائے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ وہ بھی کہیں گے کہ بے شک تو ہمارا رب ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بلائے گا۔ پل صراط جہنم کے بیچوں بیچ رکھا جائے گا اور آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ میں اپنی امت کے ساتھ اس سے گزرنے والا سب سے پہلا رسول ہوں گا۔ اس روز سوا انبیاء کے کوئی بھی بات نہ کرسکے گا اور انبیاء بھی صرف یہ کہیں گے۔ اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! اے اللہ! مجھے محفوظ رکھیو! اور جہنم میں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکس ہوں گے۔ سعدان کے کانٹے تو تم نے دیکھے ہوں گے؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا کہا ہاں! ( آپ نے فرمایا ) تو وہ سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے۔ البتہ ان کے طول و عرض کو سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔ یہ آنکس لوگوں کو ان کے اعمال کے مطابق کھینچ لیں گے۔ بہت سے لوگ اپنے عمل کی وجہ سے ہلاک ہوں گے۔ بہت سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ پھر ان کی نجات ہوگی۔ جہنمیوں میں سے اللہ تعالیٰ جس پر رحم فرمانا چاہے گا تو ملائکہ کو حکم دے گا کہ جو خالص اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتے تھے انہیں باہر نکال لو۔ چنانچہ ان کو وہ باہر نکالیں گے اور موحدوں کو سجدے کے آثار سے پہچانیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جہنم پر سجدہ کے آثار کا جلانا حرام کردیا ہے۔ چنانچہ یہ سب جہنم سے نکالے جائیں گے تو اثر سجدہ کے سوا ان کے جسم کے تمام ہی حصوں کو آگ جلا چکی ہوگی۔ جب جہنم سے باہر ہوں گے تو بالکل جل چکے ہوں گے۔ اس لیے ان پر آب حیات ڈالا جائے گا۔ جس سے وہ اس طرح ابھر آئیں گے۔ جیسے سیلاب کے کوڑے کرکٹ پر سیلاب کے تھمنے کے بعد سبزہ ابھر آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ بندوں کے حساب سے فارغ ہو جائے گا۔ لیکن ایک شخص جنت اور دوزخ کے درمیان اب بھی باقی رہ جائے گا۔ یہ جنت میں داخل ہونے والا آخری دوزخی شخص ہوگا۔ اس کا منہ دوزخ کی طرف ہوگا۔ اس لیے کہے گا کہ اے میرے رب! میرے منہ کو دوزخ کی طرف سے پھیر دے۔ کیوں کہ اس کی بدبو مجھ کو مارے ڈالتی ہے اور اس کی چمک مجھے جلائے دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا اگر تیری یہ تمنا پوری کردوں تو تو دوبارہ کوئی نیا سوال تو نہیں کرے گا؟ بندہ کہے گا نہیں تیری بزرگی کی قسم! اور جیسے جیسے اللہ چاہے گا وہ قول و قرار کرے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ جہنم کی طرف سے اس کا منہ پھیر دے گا۔ جب وہ جنت کی طرف منہ کرے گا اور اس کی شادابی نظروں کے سامنے آئی تو اللہ نے جتنی دیر چاہا وہ چپ رہے گا۔ لیکن پھر بول پڑے گا اے اللہ! مجھے جنت کے دروازے کے قریب پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کیا تو نے عہد و پیمان نہیں باندھا تھا کہ اس ایک سوال کے سوا اور کوئی سوال تو نہیں کرے گا۔ بندہ کہے گا اے میرے رب! مجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ بدنصیب نہ ہونا چاہئے۔ اللہ رب العزت فرمائے گا کہ پھر کیا ضمانت ہے کہ اگر تیری یہ تمنا پوری کردی گئی تو دوسرا کوئی سوال تو نہیں کرے گا۔ بندہ کہے گا نہیں تیری عزت کی قسم اب دوسرا سوال کوئی تجھ سے نہیں کروں گا۔ چنانچہ اپنے رب سے ہر طرح عہد و پیمان باندھے گا اور جنت کے دروازے تک پہنچا دیا جائے گا۔ دروازہ پر پہنچ کر جب جنت کی پنہائی، تازگی اور مسرتوں کو دیکھے گا تو جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ بندہ چپ رہے گا۔ لیکن آخر بول پڑے گا کہ اے اللہ! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ افسوس اے ابن آدم! تو ایسا دغا باز کیوں بن گیا؟ کیا ( ابھی ) تو نے عہد و پیمان نہیں باندھا تھا کہ جو کچھ مجھے دیا گیا، اس سے زیادہ اور کچھ نہ مانگوں گا۔ بندہ کہے گا اے رب! مجھے اپنی سب سے زیادہ بدنصیب مخلوق نہ بنا۔ اللہ پاک ہنس دے گا اور اسے جنت میں بھی داخلہ کی اجازت عطا فر دے گا اور پھر فرمائے گا مانگ کیا ہے تیری تمنا۔ چنانچہ وہ اپنی تمنائیں ( اللہ تعالیٰ کے سامنے ) رکھے گا اور جب تمام تمنائیں ختم ہو جائیں گی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں چیز اور مانگو، فلاں چیز کا مزید سوال کرو۔ خود اللہ پاک ہی یاد دہانی کرائے گا۔ اور جب وہ تمام تمنائیں پوری ہو جائیں گی تو فرمائے گا کہ تمہیں یہ سب اور اتنی ہی اور دی گئیں۔ حضرت ابوسعید خدری ؓ نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اور اس سے دس گنا اور زیادہ تمہیں دی گئیں۔ اس پر حضرت ابوہریرہ ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی یہی بات صرف مجھے یاد ہے کہ تمہیں یہ تمنائیں اور اتنی ہی اور دی گئیں۔ لیکن حضرت ابو سعید ؓ نے فرمایا کہ میں نے آپ کو یہ کہتے سنا تھا کہ یہ اور اس کی دس گنا تمنائیں تجھ کو دی گئیں۔
حدیث حاشیہ:
امام المحدثین حضرت امام بخاری ؒ سجدے کی فضیلت بیان کرنے کے لیے اس طویل حدیث کو لائے ہیں۔ اس میں ایک جگہ مذکور ہے کہ اللہ پاک نے دوزخ پر حرام کیا ہے کہ وہ اس پیشانی کو جلائے جس پر سجدے کے نشانات ہیں۔ ان ہی نشانات کی بنا پر بہت سے گنہگاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دوزخ سے نکالا جائے گا باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔ باقی حدیث میں اور بھی بہت سی باتیں مذکور ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کا دیدار برحق ہے جو اس طرح حاصل ہوگا جیسے چودہویں رات کے چاند کا دیدار عام ہوتا ہے، نیز اس حدیث میں اللہ پاک کا آنا اور اپنی صورت پر جلوہ افروز ہونا اور اہل ایمان کے ساتھ شفقت کے ساتھ کلام کرنا۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات اور بہت سی احادیث صحیحہ جن میں اللہ پاک کی صفات مذکور ہیں۔ ان کی بنا پر اہل حدیث اس پر متفق ہیں کہ اللہ پاک ان جملہ صفات سے موصوف ہے۔ وہ حقیقتاً کلام کرتا ہے جب وہ چاہتا ہے فرشتے اس کی آواز سنتے ہیں اور وہ اپنے عرش پر ہے۔ اسی کی ذات کے لیے جہت فوق ثابت ہے۔ اس کا علم اور سمع و بصر ہر ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس کو اختیار ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے جس طرح چاہے آئے جائے۔ جس سے بات کرے اس کے لیے کوئی امر مانع نہیں۔ حدیث ہذا میں دوزخ کا بھی ذکر ہے سعدان نامی گھاس کا ذکر ہے جس کے کانٹے بڑے سخت ہیں اور پھر دوزخ کا سعدان جس کی بڑائی اور ضرر رسانی خدا ہی جانتاہے کہ کس حد تک ہوگی۔ نیز حدیث میں ماءالحیاة کا ذکر ہے۔ جو جنت کا پانی ہوگا اور ان دوزخیوں پر ڈالا جائے گا جو دوزخ میں جل کر کوئلہ بن چکے ہوں گے۔ اس پانی سے ان میں زندگی لوٹ آئے گی۔ آخر میں اللہ پاک کا ایک گنہگار سے مکالمہ مذکو رہے جسے سن کر اللہ پاک ہنسے گا۔ اس کا یہ ہنسنا بھی برحق ہے۔ الغرض حدیث بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ حضرت الامام کی عادت مبارکہ ہے کہ ایک حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج کرتے ہیں۔ ایک مجتہد مطلق کی شان یہی ہونی چاہئے۔ پھر حیرت ہے ان حضرات پر جو حضرت امام بخاری ؒ جیسے فاضل اسلام کو مجتہد مطلق تسلیم نہیں کرتے۔ ایسے حضرات کو بنظر انصاف اپنے خیال پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The people said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Shall we see our Lord on the Day of Resurrection?" He replied, "Do you have any doubt in seeing the full moon on a clear (not cloudy) night?" They replied, "No, O Allah's Apostle! (ﷺ) " He said, "Do you have any doubt in seeing the sun when there are no clouds?" They replied in the negative. He said, "You will see Allah (your Lord) in the same way. On the Day of Resurrection, people will be gathered and He will order the people to follow what they used to worship. So some of them will follow the sun, some will follow the moon, and some will follow other deities; and only this nation (Muslims) will be left with its hypocrites. Allah will come to them and say, 'I am Your Lord.' They will say, 'We shall stay in this place till our Lord comes to us and when our Lord will come, we will recognize Him. Then Allah will come to them again and say, 'I am your Lord.' They will say, 'You are our Lord.' Allah will call them, and As-Sirat (a bridge) will be laid across Hell and I (Muhammad) shall be the first amongst the Apostles to cross it with my followers. Nobody except the Apostles will then be able to speak and they will be saying then, 'O Allah! Save us. O Allah Save us.' There will be hooks like the thorns of Sa'dan in Hell. Have you seen the thorns of Sa'dan?" The people said, "Yes." He said, "These hooks will be like the thorns of Sa'dan but nobody except Allah knows their greatness in size and these will entangle the people according to their deeds; some of them will fall and stay in Hell forever; others will receive punishment (torn into small pieces) and will get out of Hell, till when Allah intends mercy on whomever He likes amongst the people of Hell, He will order the angels to take out of Hell those who worshipped none but Him alone. The angels will take them out by recognizing them from the traces of prostrations, for Allah has forbidden the (Hell) fire to eat away those traces. So they will come out of the Fire, it will eat away from the whole of the human body except the marks of the prostrations. At that time they will come out of the Fire as mere skeletons. The Water of Life will be poured on them and as a result they will grow like the seeds growing on the bank of flowing water. Then when Allah had finished from the Judgments amongst his creations, one man will be left between Hell and Paradise and he will be the last man from the people of Hell to enter paradise. He will be facing Hell, and will say, 'O Allah! Turn my face from the fire as its wind has dried me and its steam has burnt me.' Allah will ask him, "Will you ask for anything more in case this favor is granted to you?' He will say, "No by Your (Honor) Power!" And he will give to his Lord (Allah) what he will of the pledges and the covenants. Allah will then turn his face from the Fire. When he will face Paradise and will see its charm, he will remain quiet as long as Allah will. He then will say, 'O my Lord! Let me go to the gate of Paradise.' Allah will ask him, 'Didn't you give pledges and make covenants (to the effect) that you would not ask for anything more than what you requested at first?' He will say, 'O my Lord! Do not make me the most wretched, amongst your creatures.' Allah will say, 'If this request is granted, will you then ask for anything else?' He will say, 'No! By Your Power! I shall not ask for anything else.' Then he will give to his Lord what He will of the pledges and the covenants. Allah will then let him go to the gate of Paradise. On reaching then and seeing its life, charm, and pleasure, he will remain quiet as long as Allah wills and then will say, 'O my Lord! Let me enter Paradise.' Allah will say, May Allah be merciful unto you, O son of Adam! How treacherous you are! Haven't you made covenants and given pledges that you will not ask for anything more that what you have been given?' He will say, 'O my Lord! Do not make me the most wretched amongst Your creatures.' So Allah will laugh and allow him to enter Paradise and will ask him to request as much as he likes. He will do so till all his desires have been fulfilled. Then Allah will say, 'Request more of such and such things.' Allah will remind him and when all his desires and wishes; have been fulfilled; Allah will say "All this is granted to you and a similar amount besides." Abu Sa'id Al-Khudri(RA), said to Abu Hurairah (RA) , 'Allah's Apostle (ﷺ) said, "Allah said, 'That is for you and ten times more like it.' " Abu Hurairah (RA) said, "I do not remember from Allah's Apostle (ﷺ) except (his saying), 'All this is granted to you and a similar amount besides." Abu Sahd said, "I heard him saying, 'That is for you and ten times more the like of it."