باب:اس شخص کے بارے میں جو ہاتھ لور سر کے اشارے سے فتویٰ کا جواب دے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Whoever gave a religious verdict by beckoning or by nodding)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
86.
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئی جبکہ وہ نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کا کیا حال ہے، یعنی وہ پریشان کیوں ہیں؟ انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا، (یعنی دیکھو سورج کو گرہن لگا ہوا ہے۔) اتنے میں لوگ (نماز کسوف کے لیے) کھڑے ہوئے تو حضرت عائشہ ؓ نے کہا: سبحان اللہ! میں نے پوچھا (یہ گرہن) کیا کوئی (عذاب یا قیامت کی) علامت ہے؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا: ہاں۔ پھر میں بھی (نماز کے لیے) کھڑی ہو گئی حتیٰ کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی، تو میں نے اپنے سر پر پانی ڈالنا شروع کر دیا۔ پھر (جب نماز ختم ہو چکی تو) نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی اور فرمایا: ’’جو چیزیں اب تک مجھے نہیں دکھائی گئی تھیں، انہیں میں نے اپنی اس جگہ سے دیکھ لیا ہے حتی کہ جنت اور دوزخ کو بھی۔ اور میری طرف یہ وحی بھیجی گئی کہ قبروں میں تمہاری آزمائش ہو گی، جیسے مسیح دجال یا اس کے قریب قریب فتنے سے آزمائے جاؤ گے۔۔ (راویۂ حدیث فاطمہ نے کہا:) مجھے یاد نہیں کہ حضرت اسماء ؓ نے ان (لفظ مثل اور قریب) میں سے کون سا کلمہ کہا تھا ۔۔ اور کہا جائے گا کہ تجھے اس شخص، یعنی رسول اللہ ﷺ سے کیا واقفیت ہے؟ ایمان دار یا یقین رکھنے والا ۔۔ (فاطمہ نے کہا: ) مجھے یاد نہیں کہ حضرت اسماء ؓ نے ان دونوں (مومن اور موقن) میں سے کون سا کلمہ کہا تھا ۔۔ کہے گا کہ وہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں جو ہمارے پاس کھلی نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے تھے۔ ہم نے ان کا کہا مانا اور ان کی پیروی کی۔ وہ محمد ﷺ ہیں۔ تین بار ایسا ہی کہے گا، چنانچہ اس سے کہا جائے گا: تو مزے سے سو جا، بےشک ہم نے جان لیا کہ تو محمد ﷺ پر ایمان رکھتا ہے۔ اور منافق یا شک کرنے والا ۔۔ (فاطمہ نے کہا:) مجھے یاد نہیں کہ حضرت اسماء ؓ نے ان (لفظ منافق اور مُرتاب) میں سے کون سا کلمہ کہا تھا ۔۔ کہے گا: میں کچھ نہیں جانتا، ہاں لوگوں کو جو کہتے سنا، میں بھی وہی کہنے لگا۔‘‘
تشریح:
1۔ اس طویل حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ اشارے کا اعتبار ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال کا جواب اشارے سے دیا۔ اس کی تردید نہیں کی گئی، لہٰذا مسئلہ ثابت ہو گیا کہ سر اور ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اشارہ سمجھ میں آجائے اور مقصد پر دلالت کر رہا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اشارے کو فتویٰ کے ساتھ خاص کرکے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ تعلیم وتقریر میں اشارہ کافی نہیں ہوتا، البتہ فتوے کے موقع پر نفی یا اثبات کے لیے اشارہ استعمال کیاجاسکتا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے عذاب قبر اور اس میں فرشتوں کا سوال کرنا بھی ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر شک کرتا ہے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ ہلکی غشی پڑنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ ( عمدۃ القاری: 137،138/2) 3۔ دجال کا فتنہ یہ ہو گا کہ وہ الوہیت کا دعویٰ کرے گا اور بطور ثبوت قبروں پر جا کر اہل قبور کو کہے گا کہ میرے حکم سے اٹھو تو وہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ درحقیقت معاملہ یہ ہوگا کہ جو شیاطین اس کے تابع ہوں گے، وہ مردوں کی شکل میں قبروں سے برآمد ہوں گے جن کی صورت مردوں کی ہوگی۔ لوگوں کے لیے یہ زبردست امتحان ہوگا۔ اس سے زیادہ سنگین حالات قبر میں ہوں گے۔ ممتحن خوفناک اور سخت مزاج، پھر تنہائی، ایسے موقع پر بڑے بڑوں کا پتا پانی ہوجائےگا۔ أعاذنا الله منه
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
86
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
86
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
86
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
86
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
فتویٰ ایک قسم کی تعلیم ہے جس میں وضاحت اور صراحت کی ضرورت ہوتی ہے۔اشارہ اگرچہ تصریح سے بہت کمزور ہے،تاہم بوقت ضرورت اشارہ جائز ہے بشرط یہ کہ اشارہ مفہمہ ہو اور اس سے کسی غلط فہمی کا اندیشہ نہ ہو۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئی جبکہ وہ نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کا کیا حال ہے، یعنی وہ پریشان کیوں ہیں؟ انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا، (یعنی دیکھو سورج کو گرہن لگا ہوا ہے۔) اتنے میں لوگ (نماز کسوف کے لیے) کھڑے ہوئے تو حضرت عائشہ ؓ نے کہا: سبحان اللہ! میں نے پوچھا (یہ گرہن) کیا کوئی (عذاب یا قیامت کی) علامت ہے؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا: ہاں۔ پھر میں بھی (نماز کے لیے) کھڑی ہو گئی حتیٰ کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی، تو میں نے اپنے سر پر پانی ڈالنا شروع کر دیا۔ پھر (جب نماز ختم ہو چکی تو) نبی ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کی اور فرمایا: ’’جو چیزیں اب تک مجھے نہیں دکھائی گئی تھیں، انہیں میں نے اپنی اس جگہ سے دیکھ لیا ہے حتی کہ جنت اور دوزخ کو بھی۔ اور میری طرف یہ وحی بھیجی گئی کہ قبروں میں تمہاری آزمائش ہو گی، جیسے مسیح دجال یا اس کے قریب قریب فتنے سے آزمائے جاؤ گے۔۔ (راویۂ حدیث فاطمہ نے کہا:) مجھے یاد نہیں کہ حضرت اسماء ؓ نے ان (لفظ مثل اور قریب) میں سے کون سا کلمہ کہا تھا ۔۔ اور کہا جائے گا کہ تجھے اس شخص، یعنی رسول اللہ ﷺ سے کیا واقفیت ہے؟ ایمان دار یا یقین رکھنے والا ۔۔ (فاطمہ نے کہا: ) مجھے یاد نہیں کہ حضرت اسماء ؓ نے ان دونوں (مومن اور موقن) میں سے کون سا کلمہ کہا تھا ۔۔ کہے گا کہ وہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں جو ہمارے پاس کھلی نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے تھے۔ ہم نے ان کا کہا مانا اور ان کی پیروی کی۔ وہ محمد ﷺ ہیں۔ تین بار ایسا ہی کہے گا، چنانچہ اس سے کہا جائے گا: تو مزے سے سو جا، بےشک ہم نے جان لیا کہ تو محمد ﷺ پر ایمان رکھتا ہے۔ اور منافق یا شک کرنے والا ۔۔ (فاطمہ نے کہا:) مجھے یاد نہیں کہ حضرت اسماء ؓ نے ان (لفظ منافق اور مُرتاب) میں سے کون سا کلمہ کہا تھا ۔۔ کہے گا: میں کچھ نہیں جانتا، ہاں لوگوں کو جو کہتے سنا، میں بھی وہی کہنے لگا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ اس طویل حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صرف یہ ثابت کیا ہے کہ اشارے کا اعتبار ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال کا جواب اشارے سے دیا۔ اس کی تردید نہیں کی گئی، لہٰذا مسئلہ ثابت ہو گیا کہ سر اور ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اشارہ سمجھ میں آجائے اور مقصد پر دلالت کر رہا ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اشارے کو فتویٰ کے ساتھ خاص کرکے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ تعلیم وتقریر میں اشارہ کافی نہیں ہوتا، البتہ فتوے کے موقع پر نفی یا اثبات کے لیے اشارہ استعمال کیاجاسکتا ہے۔ 2۔ اس حدیث سے عذاب قبر اور اس میں فرشتوں کا سوال کرنا بھی ثابت ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر شک کرتا ہے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ ہلکی غشی پڑنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ ( عمدۃ القاری: 137،138/2) 3۔ دجال کا فتنہ یہ ہو گا کہ وہ الوہیت کا دعویٰ کرے گا اور بطور ثبوت قبروں پر جا کر اہل قبور کو کہے گا کہ میرے حکم سے اٹھو تو وہ اٹھ کھڑے ہوں گے۔ درحقیقت معاملہ یہ ہوگا کہ جو شیاطین اس کے تابع ہوں گے، وہ مردوں کی شکل میں قبروں سے برآمد ہوں گے جن کی صورت مردوں کی ہوگی۔ لوگوں کے لیے یہ زبردست امتحان ہوگا۔ اس سے زیادہ سنگین حالات قبر میں ہوں گے۔ ممتحن خوفناک اور سخت مزاج، پھر تنہائی، ایسے موقع پر بڑے بڑوں کا پتا پانی ہوجائےگا۔ أعاذنا الله منه
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب نے، ان سے ہشام نے فاطمہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ اسماء سے روایت کرتی ہیں کہ میں عائشہ ؓ کے پاس آئی، وہ نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ تو انھوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا (یعنی سورج کو گہن لگا ہے) اتنے میں لوگ (نماز کے لیے) کھڑے ہو گئے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا، اللہ پاک ہے۔ میں نے کہا (کیا یہ گہن) کوئی (خاص) نشانی ہے؟ انھوں نے سر سے اشارہ کیا یعنی ہاں! پھر میں (بھی نماز کے لیے) کھڑی ہو گئی۔ حتی کہ مجھے غش آنے لگا، تو میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر (نماز کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اور اس کی صفت بیان فرمائی، پھر فرمایا، جو چیز مجھے پہلے دکھلائی نہیں گئی تھی آج وہ سب اس جگہ میں نے دیکھ لی، یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا اور مجھ پر یہ وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤ گے، مثل یا قرب کا کونسا لفظ حضرت اسماء نے فرمایا، میں نہیں جانتی، فاطمہ کہتی ہیں (یعنی) فتنہ دجال کی طرح (آزمائے جاؤ گے) کہا جائے گا (قبر کے اندر کہ) تم اس آدمی کے بارے میں کیا جانتے ہو؟ تو جو صاحب ایمان یا صاحب یقین ہو گا، کون سا لفظ فرمایا حضرت اسماء نے، مجھے یاد نہیں۔ وہ کہے گا وہ محمد اللہ کے رسول ﷺ ہیں، جو ہمارے پاس اللہ کی ہدایت اور دلیلیں لے کر آئے تو ہم نے ان کو قبول کر لیا اور ان کی پیروی کی وہ محمد ﷺ ہیں۔ تین بار (اسی طرح کہے گا) پھر (اس سے) کہہ دیا جائے گا کہ آرام سے سو جا بے شک ہم نے جان لیا کہ تو محمد ﷺ پر یقین رکھتا تھا۔ اور بہر حال منافق یا شکی آدمی، میں نہیں جانتی کہ ان میں سے کون سا لفظ حضرت اسماء نے کہا۔ تو وہ (منافق یا شکی آدمی) کہے گا کہ جو لوگوں کو میں نے کہتے سنا میں نے (بھی) وہی کہہ دیا۔ (باقی میں کچھ نہیں جانتا)۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Asma (RA): I came to 'Aisha (RA) while she was praying, and said to her, "What has happened to the people?" She pointed out towards the sky. (I looked towards the mosque), and saw the people offering the prayer. Aisha (RA) said, "Subhan Allah." I said to her, "Is there a sign?" She nodded with her head meaning, "Yes." I, too, then stood (for the prayer of eclipse) till I became (nearly) unconscious and later on I poured water on my head. After the prayer, the Prophet (ﷺ) praised and glorified Allah and then said, "Just now at this place I have seen what I have never seen before, including Paradise and Hell. No doubt it has been inspired to me that you will be put to trials in your graves and these trials will be like the trials of Masiah-ad-Dajjal or nearly like it (the sub narrator is not sure which expression Asma' used). You will be asked, 'What do you know about this man (the Prophet (ﷺ) Muhammad)?' Then the faithful believer (or Asma' said a similar word) will reply, 'He is Muhammad Allah's Apostle (ﷺ) who had come to us with clear evidences and guidance and so we accepted his teachings and followed him. And he is Muhammad.' And he will repeat it thrice. Then the angels will say to him, 'Sleep in peace as we have come to know that you were a faithful believer.' On the other hand, a hypocrite or a doubtful person will reply, 'I do not know, but I heard the people saying something and so I said it.' (the same). "