باب: عورتوں کا رات میں اور (صبح کے وقت) اندھیرے میں مسجدوں میں جانا۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Going of women to the mosqu at night and in darkness)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
865.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء میں تاخیر کر دی یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند آپ کو پکارا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا: ’’اہل زمین میں سے تمہارے علاوہ کوئی بھی اس نماز کا منتظر نہیں ہے۔‘‘ ان دنوں مدینہ کے علاوہ کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ اور لوگ سرخی غائب ہونے کے بعد رات کی پہلی تہائی تک عشاء کی نماز پڑھ لیتے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت پیش کردہ احادیث سے عورتوں کے لیے رات اور اندھیرے کے وقت مساجد میں جانے کا جواز بتایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ اس جواز کو عدم فتنہ سے مقید کر رہے ہیں کیونکہ رات کا وقت اور اندھیرا فتنوں سے محفوظ رہنے کا سبب بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مردوں کی طرف سے عورتوں کے لیے فتنے کا خوف ہو یا عورتوں کی طرف سے مردوں کے لیے ابتلا کا اندیشہ ہو تو عورتوں کو مساجد کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی اپنی پہلی حدیث بیان کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت عورتیں مسجد میں نماز عشاء پڑھنے کے لیے آتی تھیں، چنانچہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند کہا تھا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ دوسری حدیث میں بھی رات کی قید موجود ہے اور جن روایات میں رات کی قید نہیں ہے انہیں بھی اس پر محمول کیا جائے گا۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ رات کا وقت خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں عورتوں کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بھی اس وقت ہے جب فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو۔ (فتح الباري:2/449،448) صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضرت ابن عمر ؓ نے یہ حدیث بیان کی تو ان کے بیٹے واقد نے کہا کہ عورتیں اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے اپنی مطلب برآوری کا ذریعہ بنا لیں گی۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس کے سینے پر گھونسا مارا اور فرمایا کہ میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو اس سے انکار کرتا ہے! بعض احادیث میں بیٹے کا نام بلال بتایا گیا ہے۔ صحیح مسلم میں اسی طرح کا بیان کردہ ایک اور واقعہ ہے جب حضرت ابن عمر ؓ نے یہ حدیث بیان کی کہ جب تمہاری عورتیں اجازت طلب کریں تو مسجد میں ان کے لیے خیروبرکت کا جو حصہ رکھا ہے اسے مت روکو۔ ان کے بیٹے بلال نے کہا کہ ہم تو ضرور روکیں گے۔ ایک روایت میں ہے کہ میں تو اپنی بیوی کو نہیں جانے دوں گا، اگر کوئی دوسرا انہیں کھلا چھوڑ دے تو اس کی مرضی۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اسے بہت برا بھلا کہا اور اس پر تین دفعہ لعنت کی بلکہ ایک روایت میں ہے کہ اس سے زندگی بھر گفتگو نہیں کی۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:995،994،992،988 (442)، وفتح الباري:449/2) (2) حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ نے ایک متابعت بیان کی ہے کہ حضرت شعبہ نے یہ حدیث بیان کرنے میں عبیداللہ بن موسیٰ شیخ بخاری کی متابعت کی ہے۔ اسے امام احمد ؒ نے اپنی مسند میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (عمدة القاري:847/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
854
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
865
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
865
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
865
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء میں تاخیر کر دی یہاں تک کہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند آپ کو پکارا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ اس کے بعد نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا: ’’اہل زمین میں سے تمہارے علاوہ کوئی بھی اس نماز کا منتظر نہیں ہے۔‘‘ ان دنوں مدینہ کے علاوہ کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ اور لوگ سرخی غائب ہونے کے بعد رات کی پہلی تہائی تک عشاء کی نماز پڑھ لیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت پیش کردہ احادیث سے عورتوں کے لیے رات اور اندھیرے کے وقت مساجد میں جانے کا جواز بتایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ اس جواز کو عدم فتنہ سے مقید کر رہے ہیں کیونکہ رات کا وقت اور اندھیرا فتنوں سے محفوظ رہنے کا سبب بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مردوں کی طرف سے عورتوں کے لیے فتنے کا خوف ہو یا عورتوں کی طرف سے مردوں کے لیے ابتلا کا اندیشہ ہو تو عورتوں کو مساجد کا رخ نہیں کرنا چاہیے۔ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی اپنی پہلی حدیث بیان کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت عورتیں مسجد میں نماز عشاء پڑھنے کے لیے آتی تھیں، چنانچہ حضرت عمر ؓ نے بآواز بلند کہا تھا کہ عورتیں اور بچے سو گئے ہیں۔ دوسری حدیث میں بھی رات کی قید موجود ہے اور جن روایات میں رات کی قید نہیں ہے انہیں بھی اس پر محمول کیا جائے گا۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ رات کا وقت خصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں عورتوں کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بھی اس وقت ہے جب فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو۔ (فتح الباري:2/449،448) صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے کہ جب حضرت ابن عمر ؓ نے یہ حدیث بیان کی تو ان کے بیٹے واقد نے کہا کہ عورتیں اس اجازت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسے اپنی مطلب برآوری کا ذریعہ بنا لیں گی۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اس کے سینے پر گھونسا مارا اور فرمایا کہ میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو اس سے انکار کرتا ہے! بعض احادیث میں بیٹے کا نام بلال بتایا گیا ہے۔ صحیح مسلم میں اسی طرح کا بیان کردہ ایک اور واقعہ ہے جب حضرت ابن عمر ؓ نے یہ حدیث بیان کی کہ جب تمہاری عورتیں اجازت طلب کریں تو مسجد میں ان کے لیے خیروبرکت کا جو حصہ رکھا ہے اسے مت روکو۔ ان کے بیٹے بلال نے کہا کہ ہم تو ضرور روکیں گے۔ ایک روایت میں ہے کہ میں تو اپنی بیوی کو نہیں جانے دوں گا، اگر کوئی دوسرا انہیں کھلا چھوڑ دے تو اس کی مرضی۔ اس پر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اسے بہت برا بھلا کہا اور اس پر تین دفعہ لعنت کی بلکہ ایک روایت میں ہے کہ اس سے زندگی بھر گفتگو نہیں کی۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:995،994،992،988 (442)، وفتح الباري:449/2) (2) حدیث کے آخر میں امام بخاری ؒ نے ایک متابعت بیان کی ہے کہ حضرت شعبہ نے یہ حدیث بیان کرنے میں عبیداللہ بن موسیٰ شیخ بخاری کی متابعت کی ہے۔ اسے امام احمد ؒ نے اپنی مسند میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (عمدة القاري:847/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے حنظلہ بن ابی سفیان سے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر نے، ان سے ان کے باپ ابن عمر ؓ نے، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری بیویاں تم سے رات میں مسجد آنے کی اجازت مانگیں تو تم لوگ انہیں اس کی اجازت دے دیا کرو۔ عبیداللہ کے ساتھ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابن عمرؓ سے اور انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) said, "If your women ask permission to go to the mosque at night, allow them."