Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: The prescription of Jumu'ah prayer and Khutba)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے’’ جمعہ کے دن جب نماز کے لیے اذان دی جائے تو تم اللہ کی یاد کے لیے چل کھڑے ہو اور خرید وفروخت چھوڑ دو کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم کچھ جانتے ہو ”۔ ( آیت میں ) فاسعوا فامضوا کے معنی میں ہے ( یعنی چل کھڑے ہو تشریح : ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آنحضرت ﷺ خطبہ جمعہ دے رہے تھے۔ اچانک تجارتی قافلہ اموال تجارت لے کر مدینہ میں آگیا اور اطلاع پاکر لوگ اس قافلے سے مال خرید نے کے لیے جمعہ کا خطبہ ونماز چھوڑ کر چلے گئے۔آنحضرت ﷺکے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے، اس وقت عتاب کے لیے اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آنحضرت ﷺوسلم نے فرمایا کہ “اگر یہ بارہ نمازی بھی مسجد میں نہ رہ جاتے تو مدینہ والوں پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی۔” نہ جانے والوں میں حضرات شیخین بھی تھے ( ابن کثیر ) اسی واقعہ کی بنا پر خرید وفروخت چھوڑنے کا بیان ایک اتفاقی چیز ہے جو شان نزول کے اعتبار سے سامنے آئی، اس سے یہ استدلال کہ جمعہ صرف وہاں فرض ہے جہاں خرید وفروخت ہوتی ہو یہ استدلال صحیح نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ جہاں مسلمانوں کی جماعت موجود ہو وہاں جمعہ فرض ہے وہ جگہ شہر ہو یا دیہات تفصیل آگے آرہی ہے
876.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ہم بعد میں آئے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ صرف اتنی بات ہے کہ پہلے لوگوں کو ہم سے قبل کتاب دی گئی، پھر یہی جمعہ کا دن ان کے لیے بھی مقرر تھا مگر وہ اس کے متعلق اختلافات کا شکار ہو گئے لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس کی ہدایت کر دی، اس بنا پر سب لوگ ہمارے پیچھے ہو گئے۔ یہود کل (ہفتہ) کے دن اور عیسائی پرسوں (اتوار) کے دن (عبادت کریں گے)۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے واضح طور پر جمعہ کی فرضیت معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں یہودونصاریٰ پر اس کے فرض ہونے کا ذکر ہے۔ انہوں نے اس سے انحراف کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی فرضیت کے متعلق ہماری رہنمائی فرما دی۔ بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جمعہ کو ہم پر لکھ دیا ہے۔ (فتح الباري:459/2) علامہ ابن منیر ؒ نے لکھا ہے کہ جمعہ فرض عین ہے، فرض کفایہ نہیں کیونکہ اس کی فرضیت کو مطلق طور پر بیان کیا گیا ہے، پھر ان الفاظ کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے: ’’ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس کی ہدایت کر دی اس بنا پر لوگ ہمارے پیچھے ہو گئے۔‘‘ (فتح الباري:457/2)واللہ أعلم۔ (2) دراصل حضرت موسیٰ ؑ نے یہود سے کہا تھا کہ جمعے کا دن باقی ایام سے افضل ہے، لہذا اس کی تعظیم کرو اور اسے عبادت کے لیے وقف کر دو۔ انہوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے کہا کہ ہفتے کا دن افضل ہے، ہم اس کی تعظیم کریں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ پھر انہوں نے اس دن کا جو حشر کیا وہ أصحاب السبت کے کردار سے واضح ہے۔ شارح بخاری ابن بطال کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان پر کوئی دن مقرر نہیں فرمایا بلکہ انہیں یہ کہا تھا کہ وہ ہفتے میں کسی ایک دن کی تعظیم کریں اور اس میں عبادت کو بجا لائیں تو انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ یہود نے ہفتے کے دن کا انتخاب کیا کہ اس دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی تخلیق سے فارغ ہوا تھا۔ اور نصاریٰ نے اتوار کو پسند کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دن تمام مخلوق کو پیدا کرنے کا آغاز کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لیے ان کے خود پسند کردہ دنوں (ہفتہ، اتوار) کی تعظیم کو ان پر لازم کر دیا اور اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جمعے کا دن پسند کیا جو ان کے لیے ہر طرح سے بابرکت ثابت ہوا۔ (فتح الباري:458/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ (حجة اللہ البالغة:686/2، طبع مکتبة الکوثر) بہرحال جمعہ کی فرضیت کسی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ سے پیچھے رہنے والے لوگوں کے متعلق فرمایا: ’’بےشک میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں کسی آدمی کو نماز پڑھانے پر مامور کروں پھر میں ان لوگوں کے گھروں کو جلا ڈالوں جو جمعہ سے پیچھے رہتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث:1485(652)) نیز آپ نے فرمایا: ’’لوگ نماز جمعہ چھوڑنے سے باز آ جائیں بصورت دیگر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافل لوگوں میں شمار ہوں گے۔‘‘(صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:2002(865)) بلکہ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر فرمایا: ’’نماز جمعہ ہر مسلمان پر باجماعت ادا کرنا حق اور واجب ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1067) اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ جس شخص نے کسی عذر کے بغیر جمعہ ترک کر دیا اسے چاہیے کہ ایک دینار صدقہ کرے اور اگر ایک دینار موجود نہ ہو تو نصف دینار صدقہ کرے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1053) لیکن یہ حدیث صحیح نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
865
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
876
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
876
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
876
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
قرآن کریم کے اس انداز بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کے نزول سے پہلے مسلمان اذان اور جمعہ دونوں چیزوں سے خوب متعارف تھے کیونکہ انہیں صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ جب جمعہ کے لیے اذان ہو جائے تو خریدوفروخت اور دوسرے دنیوی مشاغل ترک کر کے فوراً خطبۂ جمعہ سننے اور نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد میں پہنچ جاؤ، حالانکہ قرآن کریم میں کہیں بھی کسی دوسرے مقام پر کلماتِ اذان کا ذکر نہیں ہے، نہ نماز جمعہ اور خطبۂ جمعہ کی ترکیب کا بیان ہے۔ یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی تھیں جن کی قرآن کریم نے توثیق کی ہے۔ اس سے صاف واضح ہے کہ جس طرح قرآنی احکام واجب الاتباع ہیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات بھی واجب الاتباع ہیں۔ جو شخص احادیث رسول کو نظر انداز کر کے صرف قرآن کریم کو واجب الاتباع خیال کرتا ہے وہ دراصل قرآن کریم کا بھی منکر ہے۔ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ میں تشریف لانے سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے بنی بیاضہ کے علاقے میں 40 آدمیوں کے ساتھ نماز جمعہ کا آغاز کر دیا تھا۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی:3/177) امام بخاری رحمہ اللہ نے آیت کریمہ سے جمعہ کی فرضیت ثابت کی ہے۔ ان سے پہلے امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اس آیت سے جمعہ کے وجوب پر استدلال کیا ہے، چنانچہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز جمعہ کے لیے اذان دی جاتی ہے اور جس کام کے لیے اذان دی جائے وہ فرض ہوتا ہے جیسا کہ نماز پنجگانہ کا معاملہ ہے، نیز اذان کے بعد اس کے لیے سعی کرنے کا امر ہے۔ یہ بھی اس کے واجب ہونے کا قرینہ ہے کیونکہ سعی کسی ضروری کام کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اذان کے بعد خریدوفروخت میں مشغول ہونا بھی منع ہے۔ یہ انداز بھی کسی فرض کام کے لیے اختیار کیا جاتا ہے کیونکہ کسی مباح یا جائز کام کے لیے خریدوفروخت ترک کرنا شرع میں ثابت نہیں، البتہ جمعہ کی فرضیت کب ہوئی ہے، ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں یا ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں؟ علمائے امت کی اکثریت کا یہ موقف ہے کہ جمعہ مدینہ منورہ میں فرض ہوا۔ یہ سورت بھی مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے لیکن الشیخ ابو حامد نے کہا ہے کہ جمعہ مکہ میں فرض ہوا تھا لیکن یہ بات صحیح نہیں کیونکہ جمعہ کے لیے کھلے ماحول اور اس کی نماز کا باجماعت ادا کرنا ضروری ہے۔ یہ دونوں باتیں مکہ مکرمہ میں انتہائی مشکل تھیں، البتہ اس کی مشروعیت مکہ میں نازل ہوئی تھی کہ آپ کے حکم سے اسے مدینہ منورہ میں شروع کر دیا گیا تھا۔ (فتح الباری:2/456) حدیث میں نماز کے لیے دوڑ کر آنے کی ممانعت ہے، (صحیح البخاری،الجمعۃ،حدیث:908) جبکہ آیت کریمہ میں نماز جمعہ کے لیے سعی کا حکم ہے جس کے معنی دوڑ کر آنا ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے رفع اشکال کے لیے وضاحت فرما دی کہ آیت کریمہ میں لفظ (فَاسْعَوْا) دوڑنے اور تیز چلنے کے معنی میں نہیں بلکہ چل پڑنے کے معنی میں ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ اس کے لیے ایک مستقل عنوان قائم کریں گے۔ (صحیح البخاری،الجمعۃ،باب:18)
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے’’ جمعہ کے دن جب نماز کے لیے اذان دی جائے تو تم اللہ کی یاد کے لیے چل کھڑے ہو اور خرید وفروخت چھوڑ دو کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم کچھ جانتے ہو ”۔ ( آیت میں ) فاسعوا فامضوا کے معنی میں ہے ( یعنی چل کھڑے ہو تشریح : ایک دفعہ ایسا ہوا کہ آنحضرت ﷺ خطبہ جمعہ دے رہے تھے۔ اچانک تجارتی قافلہ اموال تجارت لے کر مدینہ میں آگیا اور اطلاع پاکر لوگ اس قافلے سے مال خرید نے کے لیے جمعہ کا خطبہ ونماز چھوڑ کر چلے گئے۔آنحضرت ﷺکے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے، اس وقت عتاب کے لیے اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ آنحضرت ﷺوسلم نے فرمایا کہ “اگر یہ بارہ نمازی بھی مسجد میں نہ رہ جاتے تو مدینہ والوں پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی۔” نہ جانے والوں میں حضرات شیخین بھی تھے ( ابن کثیر ) اسی واقعہ کی بنا پر خرید وفروخت چھوڑنے کا بیان ایک اتفاقی چیز ہے جو شان نزول کے اعتبار سے سامنے آئی، اس سے یہ استدلال کہ جمعہ صرف وہاں فرض ہے جہاں خرید وفروخت ہوتی ہو یہ استدلال صحیح نہیں بلکہ صحیح یہی ہے کہ جہاں مسلمانوں کی جماعت موجود ہو وہاں جمعہ فرض ہے وہ جگہ شہر ہو یا دیہات تفصیل آگے آرہی ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’ہم بعد میں آئے ہیں لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے۔ صرف اتنی بات ہے کہ پہلے لوگوں کو ہم سے قبل کتاب دی گئی، پھر یہی جمعہ کا دن ان کے لیے بھی مقرر تھا مگر وہ اس کے متعلق اختلافات کا شکار ہو گئے لیکن ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس کی ہدایت کر دی، اس بنا پر سب لوگ ہمارے پیچھے ہو گئے۔ یہود کل (ہفتہ) کے دن اور عیسائی پرسوں (اتوار) کے دن (عبادت کریں گے)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے واضح طور پر جمعہ کی فرضیت معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس میں یہودونصاریٰ پر اس کے فرض ہونے کا ذکر ہے۔ انہوں نے اس سے انحراف کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی فرضیت کے متعلق ہماری رہنمائی فرما دی۔ بعض روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس جمعہ کو ہم پر لکھ دیا ہے۔ (فتح الباري:459/2) علامہ ابن منیر ؒ نے لکھا ہے کہ جمعہ فرض عین ہے، فرض کفایہ نہیں کیونکہ اس کی فرضیت کو مطلق طور پر بیان کیا گیا ہے، پھر ان الفاظ کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے: ’’ہمیں اللہ تعالیٰ نے اس کی ہدایت کر دی اس بنا پر لوگ ہمارے پیچھے ہو گئے۔‘‘ (فتح الباري:457/2)واللہ أعلم۔ (2) دراصل حضرت موسیٰ ؑ نے یہود سے کہا تھا کہ جمعے کا دن باقی ایام سے افضل ہے، لہذا اس کی تعظیم کرو اور اسے عبادت کے لیے وقف کر دو۔ انہوں نے ضد اور عناد کی وجہ سے کہا کہ ہفتے کا دن افضل ہے، ہم اس کی تعظیم کریں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا کہ آپ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ پھر انہوں نے اس دن کا جو حشر کیا وہ أصحاب السبت کے کردار سے واضح ہے۔ شارح بخاری ابن بطال کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خود ان پر کوئی دن مقرر نہیں فرمایا بلکہ انہیں یہ کہا تھا کہ وہ ہفتے میں کسی ایک دن کی تعظیم کریں اور اس میں عبادت کو بجا لائیں تو انہوں نے آپس میں اختلاف کیا۔ یہود نے ہفتے کے دن کا انتخاب کیا کہ اس دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی تخلیق سے فارغ ہوا تھا۔ اور نصاریٰ نے اتوار کو پسند کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس دن تمام مخلوق کو پیدا کرنے کا آغاز کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لیے ان کے خود پسند کردہ دنوں (ہفتہ، اتوار) کی تعظیم کو ان پر لازم کر دیا اور اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے جمعے کا دن پسند کیا جو ان کے لیے ہر طرح سے بابرکت ثابت ہوا۔ (فتح الباري:458/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ (حجة اللہ البالغة:686/2، طبع مکتبة الکوثر) بہرحال جمعہ کی فرضیت کسی قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ سے پیچھے رہنے والے لوگوں کے متعلق فرمایا: ’’بےشک میں نے ارادہ کیا ہے کہ میں کسی آدمی کو نماز پڑھانے پر مامور کروں پھر میں ان لوگوں کے گھروں کو جلا ڈالوں جو جمعہ سے پیچھے رہتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم،المساجد،حدیث:1485(652)) نیز آپ نے فرمایا: ’’لوگ نماز جمعہ چھوڑنے سے باز آ جائیں بصورت دیگر اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافل لوگوں میں شمار ہوں گے۔‘‘(صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:2002(865)) بلکہ رسول اللہ ﷺ نے واضح طور پر فرمایا: ’’نماز جمعہ ہر مسلمان پر باجماعت ادا کرنا حق اور واجب ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1067) اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ جس شخص نے کسی عذر کے بغیر جمعہ ترک کر دیا اسے چاہیے کہ ایک دینار صدقہ کرے اور اگر ایک دینار موجود نہ ہو تو نصف دینار صدقہ کرے۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1053) لیکن یہ حدیث صحیح نہیں۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدوفروخت چھوڑ دو۔" آیت میں آنے والے لفظ (فَاسْعَوْا) کے معنی فامضوا ہیں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے ابوالزناد نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن حارث کے غلام عبد الرحمن بن ہرمز اعرج نے بیان کیا کہ انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا اور آپ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ ہم دنیا میں تمام امتوں کے بعد ہونے کے باوجود قیامت میں سب سے آگے رہیں گے فرق صرف یہ ہے کہ کتاب انہیں ہم سے پہلے دی گئی تھی۔ یہی ( جمعہ ) ان کا بھی دن تھا جو تم پر فرض ہوا ہے۔ لیکن ان کا اس کے بارے میں اختلاف ہوا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دن بتا دیا اس لیے لوگ اس میں ہمارے تابع ہوں گے۔ یہود دوسرے دن ہوں گے اور نصاریٰ تیسرے دن۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): I heard Allah's Apostle (ﷺ) saying, "We (Muslims) are the last (to come) but (will be) the foremost on the Day of Resurrection though the former nations were given the Holy Scriptures before us. And this was their day (Friday) the celebration of which was made compulsory for them but they differed about it. So Allah gave us the guidance for it (Friday) and all the other people are behind us in this respect: the Jews' (holy day is) tomorrow (i.e. Saturday) and the Christians' (is) the day after tomorrow (i.e. Sunday)."