باب: جمعہ کے دن نہانے کی فضیلت اور اس بارے میں بچوں اور عورتوں پر جمعہ کی نماز کے لیے آنا فرض ہے یا نہیں؟
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: The superiority of taking a bath on friday)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
877.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز جمعہ کے لیے آئے تو اسے چاہئے کہ غسل کرے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کے اس عنوان سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری نہیں بلکہ مستحب و افضل ہے۔ جیسا کہ علماء کے ایک گروہ کی یہی رائے ہے۔ ان کا استدلال ان روایات سے ہے جن میں اس سبب کی وضاحت کی گئی ہے جس کی وجہ سے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیا گیا تھا، چنانچہ روایت میں ہے کہ لوگ اس وقت محنت مزدوری کرتے تھے۔ جب جمعے کا وقت ہوتا تو اسی حالت میں جمعہ کے لیے چلے آتے اور ان کے کپڑوں سے پسینے وغیرہ کی ناگوار بو آتی تھی جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی تھی۔ اس بات کی شکایت جب رسول اللہ ﷺ سے کی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’جو تم میں سے جمعہ کے لیے آئے اسے چاہیے کہ غسل کرے۔‘‘ (فتح الباري:481/7٫2) صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت عمرو نے ایک دن حضرت عائشہ ؓ سے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: لوگ گزر اوقات کے لیے محنت مزدوری کرتے تھے، جب جمعہ کے لیے آتے تو اسی حالت میں چلے آتے۔ انہیں کہا گیا: ’’بہتر ہے کہ تم غسل کر کے آؤ۔‘‘ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:903) ایک روایت میں ہے کہ ان کے کپڑوں سے ناگوار بو آنے کی وجہ سے انہیں غسل کا حکم دیا گیا، (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2071) تاہم دوسرے علماء وجوب غسل کے قائل ہیں جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ (2) بعض حضرات نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ مذکورہ حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ عنوان تھا کہ آیا عورتیں اور بچے جمعہ کے لیے حاضر ہوں؟ جبکہ اس حدیث میں ان کے حاضر ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کا بایں طور جواب دیا گیا ہے کہ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ عورتوں اور بچوں کو جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ آئندہ حدیث (879) میں ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا بالغ افراد کے لیے ہے جبکہ بچے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں تو انہیں جمعہ میں شریک ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ انہوں نے اس طریقے سے ایک حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں اس امر کی وضاحت ہے کہ عورتوں اور بچوں پر جمعہ میں حاضر ہونا ضروری نہیں۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1067)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
866
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
877
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
877
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
877
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
علامہ زین بن منیر فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے دن غسل کرنے کا حکم بیان نہیں کیا کہ ضروری ہے یا مستحب؟ کیونکہ اس میں علمائے امت کا کافی اختلاف ہے بلکہ صرف اس کی فضیلت بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے کیونکہ اس کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں، (فتح الباری:2/460) نیز اس عنوان کے دو جز ہیں، ایک جز میں فضیلت کا بیان ہے جبکہ دوسرے جز میں بچوں اور عورتوں کے متعلق ذکر کیا ہے کہ ان پر جمعہ کے دن حاضری ضروری نہیں جیسا کہ ابوداود کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ بچوں اور عورتوں پر جمعہ ضروری نہیں۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1067)
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی نماز جمعہ کے لیے آئے تو اسے چاہئے کہ غسل کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کے اس عنوان سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا ضروری نہیں بلکہ مستحب و افضل ہے۔ جیسا کہ علماء کے ایک گروہ کی یہی رائے ہے۔ ان کا استدلال ان روایات سے ہے جن میں اس سبب کی وضاحت کی گئی ہے جس کی وجہ سے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیا گیا تھا، چنانچہ روایت میں ہے کہ لوگ اس وقت محنت مزدوری کرتے تھے۔ جب جمعے کا وقت ہوتا تو اسی حالت میں جمعہ کے لیے چلے آتے اور ان کے کپڑوں سے پسینے وغیرہ کی ناگوار بو آتی تھی جس سے دوسروں کو تکلیف ہوتی تھی۔ اس بات کی شکایت جب رسول اللہ ﷺ سے کی گئی تو آپ نے فرمایا: ’’جو تم میں سے جمعہ کے لیے آئے اسے چاہیے کہ غسل کرے۔‘‘ (فتح الباري:481/7٫2) صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت عمرو نے ایک دن حضرت عائشہ ؓ سے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: لوگ گزر اوقات کے لیے محنت مزدوری کرتے تھے، جب جمعہ کے لیے آتے تو اسی حالت میں چلے آتے۔ انہیں کہا گیا: ’’بہتر ہے کہ تم غسل کر کے آؤ۔‘‘ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:903) ایک روایت میں ہے کہ ان کے کپڑوں سے ناگوار بو آنے کی وجہ سے انہیں غسل کا حکم دیا گیا، (صحیح البخاري، البیوع، حدیث:2071) تاہم دوسرے علماء وجوب غسل کے قائل ہیں جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ (2) بعض حضرات نے امام بخاری ؒ پر اعتراض کیا ہے کہ مذکورہ حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ عنوان تھا کہ آیا عورتیں اور بچے جمعہ کے لیے حاضر ہوں؟ جبکہ اس حدیث میں ان کے حاضر ہونے یا نہ ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس کا بایں طور جواب دیا گیا ہے کہ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ عورتوں اور بچوں کو جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ آئندہ حدیث (879) میں ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرنا بالغ افراد کے لیے ہے جبکہ بچے اس حکم سے مستثنیٰ ہیں تو انہیں جمعہ میں شریک ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ انہوں نے اس طریقے سے ایک حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں اس امر کی وضاحت ہے کہ عورتوں اور بچوں پر جمعہ میں حاضر ہونا ضروری نہیں۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1067)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی اور ان کو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی شخص جمعہ کی نماز کے لیے آنا چا ہے تو اسے غسل کر لینا چاہیے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Anyone of you attending the Friday (prayers) should take a bath."