باب: جمعہ کے دن نہانے کی فضیلت اور اس بارے میں بچوں اور عورتوں پر جمعہ کی نماز کے لیے آنا فرض ہے یا نہیں؟
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: The superiority of taking a bath on friday)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
878.
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک نبی ﷺ کے صحابہ کرام اور مہاجرین اولین میں سے ایک صاحب آئے حضرت عمر ؓ نے آواز دی کہ یہ کون سا آنے کا وقت ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ایک ضرورت کی وجہ سے مصروف ہو گیا۔ ابھی اپنے گھر واپس نہیں جا سکا تھا کہ اذان کی آواز سن لی تو صرف وضو کر سکا ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (ایک لیٹ آئے ہو اور پھر) صرف وضو کر کے آئے ہو؟ حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کا حکم دیتے تھے۔
تشریح:
(1) دیر سے آنے والے حضرت عثمان ؓ تھے۔ (2) اس روایت سے مذکورہ دونوں قسم کے علماء نے استدلال کیا ہے جو وجوبِ غسل کے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ چونکہ صحابۂ کا عام رجحان وجوب غسل کا تھا، اس لیے حضرت عمر ؓ نے صرف وضو کر کے آنے پر تعجب کا اظہار کیا اور حدیث رسول بیان فرمائی جس میں غسل کرنے کا حکم ہے اور امر (حکم) عام طور پر وجوب ہی کے لیے ہوتا ہے۔ عدم وجوب کے قائلین کہتے ہیں کہ اگر غسل واجب ہوتا تو حضرت عمر ؓ، حضرت عثمان ؓ کو غسل کرنے کا حکم دیتے، صرف تعجب کا اظہار کرنے اور حدیث رسول بیان کرنے پر اکتفا نہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں غسل کا حکم وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔ انہوں نے دیگر احادیث سے بھی استدلال کیا ہے، جیسے حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جمعہ کے دن جس نے وضو کیا اس نے اچھا اور بہتر کیا اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل اور بہترین ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الطہارة، حدیث:354) امام ترمذی ؒ اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں کہ صحابہ اور ان کے بعد آنے والے اہل علم کا اس پر عمل ہے۔ انہوں نے جمعہ کے دن غسل کو پسند تو کیا ہے لیکن اس رائے کا اظہار بھی کیا ہے کہ جمعہ کے دن وضو، غسل سے کفایت کر جاتا ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:497) آغاز میں جمعہ کے دن وجوب غسل کا سبب یہ تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مشکل حالات کی بنا پر موسم گرما میں بھی ادنیٰ لباس پہنے ہوتے تھے۔ انہی کپڑوں میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ جب وہ مسجد میں آتے تو ان کے پسینے کی بو پھیل جاتی جس سے نمازی اور فرشتے سخت تکلیف محسوس کرتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ تم اس دن غسل کر لیا کرو۔ ایسے حالات میں ان علماء کے نزدیک اب بھی غسل کرنا واقعی ضروری ہے لیکن عام حالات میں ان کے نزدیک غسل جمعہ سنت مؤکدہ اور مستحب ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
867
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
878
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
878
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
878
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
علامہ زین بن منیر فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے دن غسل کرنے کا حکم بیان نہیں کیا کہ ضروری ہے یا مستحب؟ کیونکہ اس میں علمائے امت کا کافی اختلاف ہے بلکہ صرف اس کی فضیلت بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے کیونکہ اس کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں، (فتح الباری:2/460) نیز اس عنوان کے دو جز ہیں، ایک جز میں فضیلت کا بیان ہے جبکہ دوسرے جز میں بچوں اور عورتوں کے متعلق ذکر کیا ہے کہ ان پر جمعہ کے دن حاضری ضروری نہیں جیسا کہ ابوداود کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ بچوں اور عورتوں پر جمعہ ضروری نہیں۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1067)
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر ؓ جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے کہ اچانک نبی ﷺ کے صحابہ کرام اور مہاجرین اولین میں سے ایک صاحب آئے حضرت عمر ؓ نے آواز دی کہ یہ کون سا آنے کا وقت ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں ایک ضرورت کی وجہ سے مصروف ہو گیا۔ ابھی اپنے گھر واپس نہیں جا سکا تھا کہ اذان کی آواز سن لی تو صرف وضو کر سکا ہوں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: (ایک لیٹ آئے ہو اور پھر) صرف وضو کر کے آئے ہو؟ حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کا حکم دیتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) دیر سے آنے والے حضرت عثمان ؓ تھے۔ (2) اس روایت سے مذکورہ دونوں قسم کے علماء نے استدلال کیا ہے جو وجوبِ غسل کے قائل ہیں، وہ کہتے ہیں کہ چونکہ صحابۂ کا عام رجحان وجوب غسل کا تھا، اس لیے حضرت عمر ؓ نے صرف وضو کر کے آنے پر تعجب کا اظہار کیا اور حدیث رسول بیان فرمائی جس میں غسل کرنے کا حکم ہے اور امر (حکم) عام طور پر وجوب ہی کے لیے ہوتا ہے۔ عدم وجوب کے قائلین کہتے ہیں کہ اگر غسل واجب ہوتا تو حضرت عمر ؓ، حضرت عثمان ؓ کو غسل کرنے کا حکم دیتے، صرف تعجب کا اظہار کرنے اور حدیث رسول بیان کرنے پر اکتفا نہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں غسل کا حکم وجوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔ انہوں نے دیگر احادیث سے بھی استدلال کیا ہے، جیسے حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جمعہ کے دن جس نے وضو کیا اس نے اچھا اور بہتر کیا اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل اور بہترین ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الطہارة، حدیث:354) امام ترمذی ؒ اس حدیث کے بعد لکھتے ہیں کہ صحابہ اور ان کے بعد آنے والے اہل علم کا اس پر عمل ہے۔ انہوں نے جمعہ کے دن غسل کو پسند تو کیا ہے لیکن اس رائے کا اظہار بھی کیا ہے کہ جمعہ کے دن وضو، غسل سے کفایت کر جاتا ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:497) آغاز میں جمعہ کے دن وجوب غسل کا سبب یہ تھا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم مشکل حالات کی بنا پر موسم گرما میں بھی ادنیٰ لباس پہنے ہوتے تھے۔ انہی کپڑوں میں محنت مزدوری کرتے تھے۔ جب وہ مسجد میں آتے تو ان کے پسینے کی بو پھیل جاتی جس سے نمازی اور فرشتے سخت تکلیف محسوس کرتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ تم اس دن غسل کر لیا کرو۔ ایسے حالات میں ان علماء کے نزدیک اب بھی غسل کرنا واقعی ضروری ہے لیکن عام حالات میں ان کے نزدیک غسل جمعہ سنت مؤکدہ اور مستحب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد بن اسماءنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماءنے امام مالک سے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمرؓ نے ان سے ابن عمر ؓ نے کہ عمر بن خطاب ؓ جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ اتنے میں نبی کریم ﷺ کے اگلے صحابہ مہاجرین میں سے ایک بزرگ تشریف لائے ( یعنی حضرت عثمان ؓ ) عمر ؓ نے ان سے کہا بھلا یہ کون سا وقت ہے انہوں نے فرمایا کہ میں مشغول ہو گیا تھا اور گھر واپس آتے ہی اذان سنی، اس لیے میں وضو سے زیادہ اور کچھ ( غسل ) نہ کرسکا۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ اچھا وضو بھی۔ حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ نبی کریم ﷺ غسل کے لیے فرماتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی حضرت عمر ؓ نے انہیں تاخیرمیں آنے پر ٹوکا۔ آپ نے عذر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں غسل بھی نہ کر سکا بلکہ صرف وضوکر کے چلا آیا ہوں۔ اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ گویا آپ نے صرف دیر میں آنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ایک دوسری فضیلت غسل کو بھی چھوڑ آئے ہیں۔ اس موقع پر قابل غور بات یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ان سے غسل کے لیے پھر نہیں کہا، ورنہ اگر جمعہ کے دن غسل فرض یا واجب ہوتا تو حضرت عمر کو ضرور کہنا چاہیے تھااور یہی وجہ تھی کہ دوسرے بزرگ صحابی جن کا نام دوسری روایتوں میں حضرت عثمان ؓ آتا ہے، نے بھی غسل کو ضروری نہ سمجھ کر صرف وضو پر اکتفا کیا تھا۔ ہم اس سے پہلے بھی جمعہ کے دن غسل پر ایک نوٹ لکھ آئے ہیں۔ حضرت عمر ؓ کے طرز عمل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خطبہ کے دوران امام امر ونہی کر سکتا ہے۔ لیکن عام لوگوں کو اس کی اجازت نہیں ہے بلکہ انہیں خاموشی اور اطمینان کے ساتھ خطبہ سننا چاہیے۔ ( تفہیم البخاری )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): While Umar bin Al-Khattab (RA) was standing and delivering the sermon on a Friday, one of the companions of the Prophet, who was one of the foremost Muhajirs (emigrants), came. 'Umar said to him, "What is the time now?" He replied, "I was busy and could not go back to my house till I heard the Adhan. I did not perform more than the ablution." Thereupon 'Umar said to him, "Did you perform only the ablution although you know that Allah's Apostle (ﷺ) used to order us to take a bath (on Fridays)?"