باب: جمعہ کے دن نہانے کی فضیلت اور اس بارے میں بچوں اور عورتوں پر جمعہ کی نماز کے لیے آنا فرض ہے یا نہیں؟
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: The superiority of taking a bath on friday)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
879.
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر بالغ پر جمعے کے دن غسل کرنا واجب ہے۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں پر غسل جمعہ واجب نہیں، اس بنا پر انہیں جمعہ کے لیے مسجد میں آنا بھی ضروری نہیں۔ یہ حدیث وجوب غسل پر واضح ہے لیکن عدم وجوب کے قائلین کہتے ہیں کہ اس حدیث میں وجوب کے لفظ سے مقصود صرف تاکید اور ترغیب ہے، یعنی اس حد تک تاکید ہے گویا واجب کی طرح ہے۔ (عمدة القاري:15/5) (2) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے غسل جمعہ کی فرضیت کے متعلق دلیل لی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ، حضرت عمار بن یاسر ؓ اور امام ابن منذر سے غسل جمعہ کا وجوب ہی نقل کیا گیا ہے۔ امام ابن حزم نے حضرت عمر ؓ اور دیگر کئی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے جمعہ کے لیے غسل کرنے کے وجوب کو بیان کیا، پھر اس کے متعلق متعدد آثار بھی نقل کیا ہیں، مثلاً: حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں: میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان غسل جمعہ چھوڑ دے گا۔ امام شافعی ؒ نے اس حدیث کی وضاحت بایں طور کی ہے کہ حدیث میں آنے والے لفظ "واجب" میں دو احتمال ہیں: ایک یہ کہ غسل جمعہ ضروری ہے۔ اس کے بغیر نماز جمعہ کے لیے طہارت نامکمل ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ نظافت و صفائی اخلاق کے پیش نظر جمعہ کے لیے غسل کا اہتمام مستحب مؤکد ہے، فرض نہیں۔ امام شافعی نے حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ حضرت عثمان نے نماز کے لیے غسل کا اہتمام نہیں کیا اور حضرت عمر ؓ نے بھی انہیں دوبارہ غسل کے متعلق نہیں کہا۔ یہ قرینہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرات کے نزدیک بھی غسل کا حکم اختیاری ہے۔ (فتح الباري:455/2) بلکہ دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ان دونوں کی موافقت کرنا بھی اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ نماز جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے غسل جمعہ شرط نہیں۔ بہرحال اس مسئلے میں دونوں ہی رائیں پائی جاتی ہیں۔ عدم وجوب کے قائلین بھی اسے سنت مؤکدہ اور وجوب ہی کے قریب سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر دونوں موقف ایک دوسرے کے قریب ہی ہیں۔ بنا بریں وجوب کا موقف ہی راجح، مدلل اور احوط ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) علامہ خطابی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ نماز جمعہ غسل کے بغیر بھی ہو جاتی ہے۔ (فتح الباري:466/2) امت کے بڑے بڑے ائمہ اور نامور علماء غسل جمعہ کے عدم وجوب پر متفق ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مذکورہ حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے جمعہ کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ غسل جمعہ واجب نہیں، البتہ زیادہ طہارت اور پاکیزگی غسل ہی میں ہے لیکن جو غسل نہیں کرتا اس پر کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس پر واجب نہیں ہے۔ دراصل غسل جمعہ کی ابتدا اس وجہ سے ہوئی تھی کہ لوگ محنت مزدوری کر کے گزر اوقات کرتے تھے، اون سے تیار کردہ موٹے موٹے کپڑے پہنتے تھے اور اس وقت مسجد بھی تنگ تھی جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ ان لوگوں کو ایک دوسرے سے تکلیف پہنچ رہی ہے اور پسینے کی وجہ سے بو محسوس ہو رہی ہے تو آپ نے انہیں غسل کا حکم دیا اور خوشبو وغیرہ کے استعمال کی بھی ہدایت فرمائی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے مزید فرمایا کہ اس کے بعد وہ وقت جاتا رہا، لوگ مال دار ہو گئے محنت مزدوری کے محتاج نہ رہے، کپڑے بھی اون کے علاوہ دوسرے استعمال کرنے لگے، مسجد بھی وسیع ہو گئی اور پسینہ وغیرہ کی تکلیف بھی جاتی رہی اس بنا پر سبب کے ختم ہونے سے اس کا وجوب بھی ختم ہو گیا۔ (فتح الباري:467/2) اس سے معلوم ہوا کہ غسل کے واجب ہونے کی تاکید جمعہ کے بڑے اجتماع کے پیش نظر ہے کہ کسی کو اذیت نہ ہو اور یہ تاکید حالات کے پیش نظر وجوب تک بھی پہنچ سکتی ہے جبکہ پسینے کی وجہ سے ماحول بدبودار ہو رہا ہو، البتہ عام حالات میں صرف استحباب ہے جیسا کہ امت کے اکثر علماء نے اس موقف کو اختیار کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
868
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
879
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
879
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
879
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
علامہ زین بن منیر فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے دن غسل کرنے کا حکم بیان نہیں کیا کہ ضروری ہے یا مستحب؟ کیونکہ اس میں علمائے امت کا کافی اختلاف ہے بلکہ صرف اس کی فضیلت بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے کیونکہ اس کے متعلق کسی کو اختلاف نہیں، (فتح الباری:2/460) نیز اس عنوان کے دو جز ہیں، ایک جز میں فضیلت کا بیان ہے جبکہ دوسرے جز میں بچوں اور عورتوں کے متعلق ذکر کیا ہے کہ ان پر جمعہ کے دن حاضری ضروری نہیں جیسا کہ ابوداود کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ بچوں اور عورتوں پر جمعہ ضروری نہیں۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1067)
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر بالغ پر جمعے کے دن غسل کرنا واجب ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں پر غسل جمعہ واجب نہیں، اس بنا پر انہیں جمعہ کے لیے مسجد میں آنا بھی ضروری نہیں۔ یہ حدیث وجوب غسل پر واضح ہے لیکن عدم وجوب کے قائلین کہتے ہیں کہ اس حدیث میں وجوب کے لفظ سے مقصود صرف تاکید اور ترغیب ہے، یعنی اس حد تک تاکید ہے گویا واجب کی طرح ہے۔ (عمدة القاري:15/5) (2) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے غسل جمعہ کی فرضیت کے متعلق دلیل لی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ، حضرت عمار بن یاسر ؓ اور امام ابن منذر سے غسل جمعہ کا وجوب ہی نقل کیا گیا ہے۔ امام ابن حزم نے حضرت عمر ؓ اور دیگر کئی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے جمعہ کے لیے غسل کرنے کے وجوب کو بیان کیا، پھر اس کے متعلق متعدد آثار بھی نقل کیا ہیں، مثلاً: حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فرماتے ہیں: میں نہیں سمجھتا کہ کوئی مسلمان غسل جمعہ چھوڑ دے گا۔ امام شافعی ؒ نے اس حدیث کی وضاحت بایں طور کی ہے کہ حدیث میں آنے والے لفظ "واجب" میں دو احتمال ہیں: ایک یہ کہ غسل جمعہ ضروری ہے۔ اس کے بغیر نماز جمعہ کے لیے طہارت نامکمل ہے۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ نظافت و صفائی اخلاق کے پیش نظر جمعہ کے لیے غسل کا اہتمام مستحب مؤکد ہے، فرض نہیں۔ امام شافعی نے حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ حضرت عثمان نے نماز کے لیے غسل کا اہتمام نہیں کیا اور حضرت عمر ؓ نے بھی انہیں دوبارہ غسل کے متعلق نہیں کہا۔ یہ قرینہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان حضرات کے نزدیک بھی غسل کا حکم اختیاری ہے۔ (فتح الباري:455/2) بلکہ دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا ان دونوں کی موافقت کرنا بھی اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ نماز جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے غسل جمعہ شرط نہیں۔ بہرحال اس مسئلے میں دونوں ہی رائیں پائی جاتی ہیں۔ عدم وجوب کے قائلین بھی اسے سنت مؤکدہ اور وجوب ہی کے قریب سمجھتے ہیں۔ اس بنا پر دونوں موقف ایک دوسرے کے قریب ہی ہیں۔ بنا بریں وجوب کا موقف ہی راجح، مدلل اور احوط ہے۔ واللہ أعلم۔ (3) علامہ خطابی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ نماز جمعہ غسل کے بغیر بھی ہو جاتی ہے۔ (فتح الباري:466/2) امت کے بڑے بڑے ائمہ اور نامور علماء غسل جمعہ کے عدم وجوب پر متفق ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے مذکورہ حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ سے جمعہ کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ غسل جمعہ واجب نہیں، البتہ زیادہ طہارت اور پاکیزگی غسل ہی میں ہے لیکن جو غسل نہیں کرتا اس پر کوئی حرج نہیں، کیونکہ اس پر واجب نہیں ہے۔ دراصل غسل جمعہ کی ابتدا اس وجہ سے ہوئی تھی کہ لوگ محنت مزدوری کر کے گزر اوقات کرتے تھے، اون سے تیار کردہ موٹے موٹے کپڑے پہنتے تھے اور اس وقت مسجد بھی تنگ تھی جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ ان لوگوں کو ایک دوسرے سے تکلیف پہنچ رہی ہے اور پسینے کی وجہ سے بو محسوس ہو رہی ہے تو آپ نے انہیں غسل کا حکم دیا اور خوشبو وغیرہ کے استعمال کی بھی ہدایت فرمائی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے مزید فرمایا کہ اس کے بعد وہ وقت جاتا رہا، لوگ مال دار ہو گئے محنت مزدوری کے محتاج نہ رہے، کپڑے بھی اون کے علاوہ دوسرے استعمال کرنے لگے، مسجد بھی وسیع ہو گئی اور پسینہ وغیرہ کی تکلیف بھی جاتی رہی اس بنا پر سبب کے ختم ہونے سے اس کا وجوب بھی ختم ہو گیا۔ (فتح الباري:467/2) اس سے معلوم ہوا کہ غسل کے واجب ہونے کی تاکید جمعہ کے بڑے اجتماع کے پیش نظر ہے کہ کسی کو اذیت نہ ہو اور یہ تاکید حالات کے پیش نظر وجوب تک بھی پہنچ سکتی ہے جبکہ پسینے کی وجہ سے ماحول بدبودار ہو رہا ہو، البتہ عام حالات میں صرف استحباب ہے جیسا کہ امت کے اکثر علماء نے اس موقف کو اختیار کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ ہمیں مالک نے صفوان بن سلیم کے واسطہ سے خبر دی، انہیں عطاء بن یسار نے، انہیں حضرت ابو سعید خدری ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ہر بالغ کے لیے غسل ضروری ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Sa'id Al-Khudri(RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "The taking of a bath on Friday is compulsory for every male (Muslim) who has attained the age of puberty."