Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: The superiority of Jumu'ah (prayer and Khutba))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
881.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح (اہتمام سے) غسل کرے، پھر نماز کے لیے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی۔ جو شخص دوسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے گائے کی قربانی کی۔ اور جو شخص تیسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے سینگ دار مینڈھا بطور قربانی پیش کیا۔ جو چوتھی گھڑی میں جائے تو گویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کیا۔ اور جو پانچویں گھڑی میں جائے تو اس نے گویا ایک انڈا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا۔ پھر جب امام خطبے کے لیے آ جاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے کے لیے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں امام بخاری ؒ نے خطبے کے لیے پہلے پہل آنے والوں کی فضیلت کو بیان کیا ہے لیکن اس میں اختلاف ہے کہ فضیلت کا وقت صبح ہی سے شروع ہو جاتا ہے یا زوال آفتاب کے بعد جب نماز جمعہ کا وقت شروع ہوتا ہے، چنانچہ امام مالکؒ بعد زوال کے قائل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تعامل اہل مدینہ اس کے موافق نہیں پایا بلکہ وہ زوال کے بعد مسجد میں آتے تھے۔ اس کے علاوہ لفظ راح، رواح سے مشتق ہے جس کے معنی زوال کے بعد چلنے کے ہیں جبکہ جمہور اہل علم نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا استدلال تعامل سلف ہے کہ یہ حضرات صبح ہی سے مسجد میں آنا شروع کر دیتے تھے اور فراغت کے بعد واپس جا کر دوپہر کا کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے، نیز لغت عرب میں رواح کے معنی مطلق جانے کے بھی آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ اہل مدینہ اپنی ضروریات و مشاغل کی وجہ سے صبح سویرے جمعے کے لیے نہ آتے ہوں، اس لیے ایسے حالات میں تعامل اہل مدینہ کو پیش کرنا صحیح نہیں۔ (2) واضح رہے کہ بعض حضرات نے اس حدیث سے مرغی کی قربانی دینے کا مسئلہ بھی کشید کیا ہے، حالانکہ یہاں قربانی کے مسائل بیان نہیں ہوئے بلکہ فضیلت کے مختلف مراتب سمجھانے کے لیے جانوروں کی قربانی کے اعلیٰ اور ادنیٰ مراتب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ علمائے امت میں سے کسی نے بھی اس حدیث سے قربانی کا مسئلہ کشید نہیں کیا اور نہ اس کے متعلق کوئی امت کا تعامل پیش کیا جا سکا ہے۔ اگر اس قسم کے اجتہاد پر اصرار ہے تو حدیث میں تو انڈے کا بھی ذکر ہے تو اس کی قربانی بھی جائز ہونی چاہیے۔ واللہ أعلم۔ (3) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کے دن غسل جنابت کر کے مسجد میں آنے والے کو مذکورہ فضیلت ملتی ہے، یعنی جمعہ کے دن پہلے بیوی سے ہم بستری کرے پھر غسل کر کے جلدی مسجد میں آئے۔ علامہ نووی نے اس مفہوم کو غلط قرار دیا ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس مفہوم کو غلط قرار دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کیونکہ جمعے کا دن اجتماع کا دن ہوتا ہے۔ اس کے لیے بازاروں سے گزر کر مسجد میں آنا ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی عورت پر نظر پڑ جائے پھر وہ بدنظری کا مرتکب ہو۔ اس سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہی ہے کہ وہ اس قسم کے اسباب و خیالات سے فارغ ہو جائے کیونکہ جب ہم بستری سے فارغ ہو کر غسل جنابت کیا ہو گا تو طبیعت میں آسودگی اور سکون ہو گا۔ اس سے ہیجانی کیفیت پیدا ہو گی نہ بدنظری کا شکار ہو گا، اس لیے اس مفہوم کو کسی صورت غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (فتح الباري:471/2) (4) اس حدیث کی عنوان سے بایں طور مطابقت ہے کہ جمعہ کی ادائیگی گویا بدنی اور مالی عبادات کو بجا لانا ہے کیونکہ ذاتی طور پر نماز جمعہ ایک بدنی عبادت ہے لیکن اس کے لیے پہلے پہلے آنے والے کو اونٹ، گائے، بکری وغیرہ ذبح کرنے کا ثواب بھی ملتا ہے، چنانچہ جانوروں کو اللہ کی راہ میں ذبح کرنا مالی عبادت ہے اس طرح نماز جمعہ ادا کرنے سے انسان کو بدنی اور مالی دونوں عبادات کا ثواب ملتا ہے۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو دیگر نمازوں کی ادائیگی سے حاصل نہیں ہوتی۔ (عمدة القاري:18/5) (4) حدیث میں وارد ساعات سے مراد مختصر لمحات ہیں جو زوال آفتاب سے لے کر خطیب کے منبر پر بیٹھنے تک ہیں یا ان سے مراد حقیقی ساعات ہیں جن کا آغاز طلوع آفتاب سے شروع ہوتا ہے؟ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان سے معروف ساعات مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔ اگرچہ اس حدیث میں پانچ ساعات کا ذکر ہے لیکن ایک روایت میں چھٹی گھڑی بھی بیان ہوئی ہے۔ (سنن النسائي، الجمعة، حدیث:1388،اس میں چڑیا کا ذکر ہے لیکن یہ الفاظ منکر ہیں۔ قاله الألباني) ایک دوسری روایت میں جمعہ کی بارہ گھڑیوں کا بھی ذکر ہے۔ (سنن النسائي، الجمعة، حدیث:1390،وسنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1048)٭ دن کی بارہ گھڑیوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭الشروق٭البكور٭العدوة٭الضحی٭الهاجرة٭ الطهيرة٭الرواح٭العصر٭القصر٭الأصيل٭العشي٭العروب٭ رات کی بارہ گھڑیاں مندرجہ ذیل ہیں:٭الشفق٭العسق٭العثمة٭السدقة٭الجهمة٭الزلة٭الرلغة٭البهرة٭السحر٭الفجر٭الصبح٭الصباح-
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
870
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
881
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
881
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
881
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح (اہتمام سے) غسل کرے، پھر نماز کے لیے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی۔ جو شخص دوسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے گائے کی قربانی کی۔ اور جو شخص تیسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے سینگ دار مینڈھا بطور قربانی پیش کیا۔ جو چوتھی گھڑی میں جائے تو گویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کیا۔ اور جو پانچویں گھڑی میں جائے تو اس نے گویا ایک انڈا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا۔ پھر جب امام خطبے کے لیے آ جاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے کے لیے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں امام بخاری ؒ نے خطبے کے لیے پہلے پہل آنے والوں کی فضیلت کو بیان کیا ہے لیکن اس میں اختلاف ہے کہ فضیلت کا وقت صبح ہی سے شروع ہو جاتا ہے یا زوال آفتاب کے بعد جب نماز جمعہ کا وقت شروع ہوتا ہے، چنانچہ امام مالکؒ بعد زوال کے قائل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تعامل اہل مدینہ اس کے موافق نہیں پایا بلکہ وہ زوال کے بعد مسجد میں آتے تھے۔ اس کے علاوہ لفظ راح، رواح سے مشتق ہے جس کے معنی زوال کے بعد چلنے کے ہیں جبکہ جمہور اہل علم نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا استدلال تعامل سلف ہے کہ یہ حضرات صبح ہی سے مسجد میں آنا شروع کر دیتے تھے اور فراغت کے بعد واپس جا کر دوپہر کا کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے، نیز لغت عرب میں رواح کے معنی مطلق جانے کے بھی آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ اہل مدینہ اپنی ضروریات و مشاغل کی وجہ سے صبح سویرے جمعے کے لیے نہ آتے ہوں، اس لیے ایسے حالات میں تعامل اہل مدینہ کو پیش کرنا صحیح نہیں۔ (2) واضح رہے کہ بعض حضرات نے اس حدیث سے مرغی کی قربانی دینے کا مسئلہ بھی کشید کیا ہے، حالانکہ یہاں قربانی کے مسائل بیان نہیں ہوئے بلکہ فضیلت کے مختلف مراتب سمجھانے کے لیے جانوروں کی قربانی کے اعلیٰ اور ادنیٰ مراتب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ علمائے امت میں سے کسی نے بھی اس حدیث سے قربانی کا مسئلہ کشید نہیں کیا اور نہ اس کے متعلق کوئی امت کا تعامل پیش کیا جا سکا ہے۔ اگر اس قسم کے اجتہاد پر اصرار ہے تو حدیث میں تو انڈے کا بھی ذکر ہے تو اس کی قربانی بھی جائز ہونی چاہیے۔ واللہ أعلم۔ (3) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کے دن غسل جنابت کر کے مسجد میں آنے والے کو مذکورہ فضیلت ملتی ہے، یعنی جمعہ کے دن پہلے بیوی سے ہم بستری کرے پھر غسل کر کے جلدی مسجد میں آئے۔ علامہ نووی نے اس مفہوم کو غلط قرار دیا ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس مفہوم کو غلط قرار دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کیونکہ جمعے کا دن اجتماع کا دن ہوتا ہے۔ اس کے لیے بازاروں سے گزر کر مسجد میں آنا ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی عورت پر نظر پڑ جائے پھر وہ بدنظری کا مرتکب ہو۔ اس سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہی ہے کہ وہ اس قسم کے اسباب و خیالات سے فارغ ہو جائے کیونکہ جب ہم بستری سے فارغ ہو کر غسل جنابت کیا ہو گا تو طبیعت میں آسودگی اور سکون ہو گا۔ اس سے ہیجانی کیفیت پیدا ہو گی نہ بدنظری کا شکار ہو گا، اس لیے اس مفہوم کو کسی صورت غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (فتح الباري:471/2) (4) اس حدیث کی عنوان سے بایں طور مطابقت ہے کہ جمعہ کی ادائیگی گویا بدنی اور مالی عبادات کو بجا لانا ہے کیونکہ ذاتی طور پر نماز جمعہ ایک بدنی عبادت ہے لیکن اس کے لیے پہلے پہلے آنے والے کو اونٹ، گائے، بکری وغیرہ ذبح کرنے کا ثواب بھی ملتا ہے، چنانچہ جانوروں کو اللہ کی راہ میں ذبح کرنا مالی عبادت ہے اس طرح نماز جمعہ ادا کرنے سے انسان کو بدنی اور مالی دونوں عبادات کا ثواب ملتا ہے۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو دیگر نمازوں کی ادائیگی سے حاصل نہیں ہوتی۔ (عمدة القاري:18/5) (4) حدیث میں وارد ساعات سے مراد مختصر لمحات ہیں جو زوال آفتاب سے لے کر خطیب کے منبر پر بیٹھنے تک ہیں یا ان سے مراد حقیقی ساعات ہیں جن کا آغاز طلوع آفتاب سے شروع ہوتا ہے؟ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان سے معروف ساعات مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔ اگرچہ اس حدیث میں پانچ ساعات کا ذکر ہے لیکن ایک روایت میں چھٹی گھڑی بھی بیان ہوئی ہے۔ (سنن النسائي، الجمعة، حدیث:1388،اس میں چڑیا کا ذکر ہے لیکن یہ الفاظ منکر ہیں۔ قاله الألباني) ایک دوسری روایت میں جمعہ کی بارہ گھڑیوں کا بھی ذکر ہے۔ (سنن النسائي، الجمعة، حدیث:1390،وسنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1048)٭ دن کی بارہ گھڑیوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭الشروق٭البكور٭العدوة٭الضحی٭الهاجرة٭ الطهيرة٭الرواح٭العصر٭القصر٭الأصيل٭العشي٭العروب٭ رات کی بارہ گھڑیاں مندرجہ ذیل ہیں:٭الشفق٭العسق٭العثمة٭السدقة٭الجهمة٭الزلة٭الرلغة٭البهرة٭السحر٭الفجر٭الصبح٭الصباح-
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابو بکر بن عبدالرحمن کے غلام سمی سے خبر دی، جنہیں ابوصالح سمان نے، انہیں ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کرکے نماز پڑھنے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی (اگر اول وقت مسجد میں پہنچا) اور اگر بعد میں گیا تو گویا ایک گائے کی قربانی دی اور جو تیسرے نمبر پر گیا تو گویا اس نے ایک سینگ والے مینڈھے کی قربانی دی۔ اور جو کوئی چوتھے نمبر پر گیا تو اس نے گویا ایک مرغی کی قربانی دی اور جو کوئی پانچویں نمبر پر گیا اس نے گویا انڈا اللہ کی راہ میں دیا۔ لیکن جب امام خطبہ کے لیے باہر آجاتا ہے تو ملائکہ خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں ثواب کے پانچ درجے بیان کئے گئے ہیں جمعہ میں حاضری کا وقت صبح ہی سے شروع ہو جاتا ہے اور سب سے پہلا ثواب اسی کو ملے گا جو اول وقت جمعہ کے لیے مسجد میں آجائے۔ سلف امت کا اسی پر عمل تھا کہ وہ جمعہ کے دن صبح سویرے مسجد میں چلے جاتے اور نماز کے بعد گھر جاتے، پھر کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے۔ دوسری احادیث میں ہے کہ جب امام خطبہ کے لیے نکلتا ہے تو ثواب لکھنے والے فرشتے بھی مسجد میں آجاتے اور سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ مرغ کے ساتھ انڈے کا بھی ذکر ہے اسے حقیقت پر محمول کیا جائے تو انڈے کی بھی حقیقی قربانی جا ئز ہوگی جس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ ثابت ہو اکہ یہاں مجازاً قربانی کا لفظ بولاگیا ہے جو تقرب الی اللہ کے معنی میں ہے ( کما سیاتي)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Any person who takes a bath on Friday like the bath of Janaba and then goes for the prayer (in the first hour i.e. early), it is as if he had sacrificed a camel (in Allah's cause); and whoever goes in the second hour it is as if he had sacrificed a cow; and whoever goes in the third hour, then it is as if he had sacrificed a horned ram; and if one goes in the fourth hour, then it is as if he had sacrificed a hen; and whoever goes in the fifth hour then it is as if he had offered an egg. When the Imam comes out (i.e. starts delivering the Khutba), the angels present themselves to listen to the Khutba."