Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: Whoever cleans his teeth with Siwak)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
890.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ آئے اور ان کے پاس مسواک تھی جسے وہ استعمال کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا تو میں نے ان سے کہا: اے عبدالرحمٰن! یہ مسواک مجھے دے دو۔ انہوں نے مسواک مجھے دے دی۔ میں نے اسے (دانتوں سے) توڑا، پھر اسے چبا کر رسول اللہ ﷺ کو دے دی۔ آپ نے اس سے دانت صاف کیے جبکہ آپ اس وقت میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ جمعہ کے دن مسواک ضرور کی جائے۔ اگر اپنے پاس نہیں ہے تو کسی دوسرے کی مسواک کو اس کی اجازت سے استعمال کر لیا جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی دوسرے کی استعمال شدہ مسواک استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ تعاون کے طور پر کسی دوسرے کو مسواک نرم کر کے دی جا سکتی ہے۔ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کا مقصد تھوک کی طہارت بیان کرنا ہے لیکن اس کا محل کتاب الوضوء ہے۔ (2) ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن ؓ سے مسواک لے کر رسول اللہ ﷺ کو دی، لیکن بیماری سے نقاہت کی بنا پر مسواک کرنے میں آپ کو دشواری محسوس ہوئی۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ میں آپ کے لیے اسے نرم کر دیتی ہوں۔ پھر حضرت عائشہ ؓ نے مسواک کے سخت ریشوں کو اپنے دانتوں سے کاٹ کر پھینک دیا اور خود چبا کر انہیں نرم کیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اسے استعمال فرمایا۔ جب رسول اللہ ﷺ مسواک سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے ہاتھ کی انگلی سے اوپر کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس کے بعد اپنی جان، جان آفریں کے حوالے کر دی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میرے اور رسول اللہ ﷺ کے لعاب کو باہم اکٹھا رکھنے کا سبب پیدا کر دیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4449)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
879
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
890
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
890
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
890
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر ؓ آئے اور ان کے پاس مسواک تھی جسے وہ استعمال کر رہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی طرف دیکھا تو میں نے ان سے کہا: اے عبدالرحمٰن! یہ مسواک مجھے دے دو۔ انہوں نے مسواک مجھے دے دی۔ میں نے اسے (دانتوں سے) توڑا، پھر اسے چبا کر رسول اللہ ﷺ کو دے دی۔ آپ نے اس سے دانت صاف کیے جبکہ آپ اس وقت میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ جمعہ کے دن مسواک ضرور کی جائے۔ اگر اپنے پاس نہیں ہے تو کسی دوسرے کی مسواک کو اس کی اجازت سے استعمال کر لیا جائے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی دوسرے کی استعمال شدہ مسواک استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ تعاون کے طور پر کسی دوسرے کو مسواک نرم کر کے دی جا سکتی ہے۔ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کا مقصد تھوک کی طہارت بیان کرنا ہے لیکن اس کا محل کتاب الوضوء ہے۔ (2) ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن ؓ سے مسواک لے کر رسول اللہ ﷺ کو دی، لیکن بیماری سے نقاہت کی بنا پر مسواک کرنے میں آپ کو دشواری محسوس ہوئی۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ میں آپ کے لیے اسے نرم کر دیتی ہوں۔ پھر حضرت عائشہ ؓ نے مسواک کے سخت ریشوں کو اپنے دانتوں سے کاٹ کر پھینک دیا اور خود چبا کر انہیں نرم کیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اسے استعمال فرمایا۔ جب رسول اللہ ﷺ مسواک سے فارغ ہوئے تو آپ نے اپنے ہاتھ کی انگلی سے اوپر کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس کے بعد اپنی جان، جان آفریں کے حوالے کر دی۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ اس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میرے اور رسول اللہ ﷺ کے لعاب کو باہم اکٹھا رکھنے کا سبب پیدا کر دیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4449)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا کہ ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے میرے باپ عروہ بن زبیر نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓاسے خبر دی، انہوں نے کہا کہ عبد الرحمن بن ابی بکر (ایک مرتبہ) آئے۔ ان کے ہاتھ میں مسواک تھی جسے وہ استعمال کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے بیماری کی حالت میں ان سے کہا عبدالرحمن یہ مسواک مجھے دے دے۔ انہوں نے دے دی۔ میں نے اس کے سرے کو پہلے توڑا یعنی اتنی لکڑی نکال دی جو عبدالرحمن اپنے منہ سے لگایا کرتے تھے، پھر اسے چبا کر رسول اللہ ﷺ کو دے دیا۔ آنحضرت ﷺ نے اس سے دانت صاف کئے اور آپ ﷺ اس وقت میرے سینے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دوسرے کی مسواک اس سے لے کر استعمال کی جا سکتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دوسرا آدمی مسواک کو اپنے منہ سے چبا کر اپنے بھائی کو دے سکتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت اپنے کسی بھائی سے جن پر ہم کو بھروسہ واعتماد ہو کوئی ضرورت کی چیز اس سے طلب کر سکتے ہیں۔ تعاون باہمی کا یہی مفہوم ہے۔ اس حدیث سے حضرت عائشہ ؓ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ مرض الموت میں ان کو آنحضرت ﷺ کی خصوصی خدمات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ خدا کی مار ان بدشعاروں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی شان اقدس میں کلمات گستاخی استعمال کر کے اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Abdur Rahman bin Abi Bakr came holding a Siwak with which he was cleaning his teeth. Allah's Apostle (ﷺ) looked at him. I requested Abdur-Rahman to give the Siwak to me and after he gave it to me I divided it, chewed it and gave it to Allah's Apostle. Then he cleaned his teeth with it and (at that time) he was resting against my chest.