باب: جمعہ کے دن نماز فجر میں کون سی سورۃ پڑھی جائے۔
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: What should be recited in the Fajr prayer on Friday)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
891.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جمعہ کے دن نماز فجر میں الم تنزيل السجدة اور ﴿هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ﴾ پڑھا کرتے تھے۔
تشریح:
(1) بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت میں سورۂ سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۂ دہر پڑھتے تھے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، پھر حدیث مذکور میں لفظ كان سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن نماز فجر میں ان سورتوں کے پڑھنے پر مواظبت فرمائی ہے، بلکہ طبرانی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عمل پر مداومت فرمائی۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اہل مدینہ نے اس عمل کو ترک کر دیا تھا، لیکن اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کیونکہ اکثر اہل علم اس کے قائل اور فاعل ہیں حتی کہ ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف جو مدینہ کے کبار تابعین میں سے ہیں ان کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے جمعہ کے دن لوگوں کو نماز فجر پڑھائی اور نماز میں ان دو سورتوں کو تلاوت فرمایا، جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ اسے روایت کیا ہے۔ (فتح الباري:486/2) (2) ان سورتوں کو جمعہ کے دن نماز فجر میں پڑھنے کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان میں خلق آدم اور قیامت آنے کا ذکر ہے، پھر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش جمعہ کے دن ہوئی تھی اور قیامت کے متعلق بھی احادیث میں ہے کہ جمعہ کے دن آئے گی، اس لیے خلق آدم اور آمد قیامت کے مضامین کو تازہ کرنے کے لیے جمعہ کے دن نماز فجر میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ (فتح الباري:487/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
880
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
891
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
891
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
891
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ جمعہ کے دن نماز فجر میں الم تنزيل السجدة اور ﴿هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ﴾ پڑھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت میں سورۂ سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۂ دہر پڑھتے تھے۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، پھر حدیث مذکور میں لفظ كان سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن نماز فجر میں ان سورتوں کے پڑھنے پر مواظبت فرمائی ہے، بلکہ طبرانی کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عمل پر مداومت فرمائی۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ اہل مدینہ نے اس عمل کو ترک کر دیا تھا، لیکن اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، کیونکہ اکثر اہل علم اس کے قائل اور فاعل ہیں حتی کہ ابراہیم بن عبدالرحمٰن بن عوف جو مدینہ کے کبار تابعین میں سے ہیں ان کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ انہوں نے جمعہ کے دن لوگوں کو نماز فجر پڑھائی اور نماز میں ان دو سورتوں کو تلاوت فرمایا، جیسا کہ ابن ابی شیبہ نے صحیح سند کے ساتھ اسے روایت کیا ہے۔ (فتح الباري:486/2) (2) ان سورتوں کو جمعہ کے دن نماز فجر میں پڑھنے کی حکمت یہ بیان کی جاتی ہے کہ ان میں خلق آدم اور قیامت آنے کا ذکر ہے، پھر حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش جمعہ کے دن ہوئی تھی اور قیامت کے متعلق بھی احادیث میں ہے کہ جمعہ کے دن آئے گی، اس لیے خلق آدم اور آمد قیامت کے مضامین کو تازہ کرنے کے لیے جمعہ کے دن نماز فجر میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دہر پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ (فتح الباري:487/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے سعد بن ابراہیم کے واسطے سے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے، ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الٓم تنزیل اور ﴿هَلْ أَتَىٰ عَلَى الْإِنسَانِ﴾ پڑھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
طبرانی کی روایت ہے کہ آپ ہمیشہ ایسا کیا کرتے تھے۔ ان سورتوں میں انسان کی پیدائش اور قیامت وغیرہ کا ذکر ہے اور یہ جمعہ کے دن ہی واقع ہوگی۔ اس حدیث سے مالکیہ کا رد ہوا جو نماز میں سجدہ والی سورت پڑھنا مکروہ جانتے ہیں۔ ابو داؤد کی روایت ہے کہ آپ نے ظہر کی نماز میں سجدے کی سورت پڑھی اور سجدہ کیا (وحید ی) علامہ شوکانی اس بارے میں کئی احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ وھذا الأحادیث فیھا مشروعیة قراءة تنزیل السجدة وھل أتی علی الانسان قال العراقي وممن کان یفعله من الصحابة عبد اللہ بن عباس ومن التابعین إبراهیم بن عبد الرحمن بن عوف وھو مذھب الشافعي و أحمد و أصحاب الأحادیث(نیل الأوطار) یعنی ان احادیث سے ثابت ہوا کہ جمعہ کے دن فجر کی نمازکی پہلی رکعت میں الم تنزیل سجدہ اور دوسری میں ھل أتی علی الانسان پڑھنا مشروع ہے، صحابہ میں سے حضرت عبد اللہ بن عباس اور تابعین میں سے ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف کا یہی عمل تھا اور امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: والتعبیر بکان یشعر بمواظبته علیه الصلوة والسلام علی القراءة بھما فیھا۔ یعنی حدیث مذکور میں لفظ کان بتلا رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن فجر کی نماز میں ان سورتوں پر مواظبت یعنی ہمیشگی فرمائی ہے۔ اگر چہ کچھ علماء مواظبت کو نہیں مانتے، مگر طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یدیم بذلک لفظ موجود ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل پر مداومت فرمائی ( قسطلانی ) کچھ لوگوں نے دعوی کیا تھا کہ اہل مدینہ نے یہ عمل ترک کر دیا تھا، اس کا جواب علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان لفظوں میں دیا ہے: و أما دعواہ أن الناس ترکوا العمل به فباطلة لأن أکثر أهل العلم من الصحابة والتابعین قد قالوا به کما نقله ابن المنذر وغیرہ حتی أنه ثابت عن إبراهیم ابن عرف والاسعد وھو من کبار التابعین من أهل المدینة أنه أم الناس بالمدینة بھما في الفجر یوم الجمعة أخرجه ابن أبي شیبة بإسناد صحیح الخ(فتح الباری) یعنی یہ دعوی کہ لوگوں نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا باطل ہے۔ اس لیے کہ اکثر اہل علم صحابہ وتابعین اس کے قائل ہیں، جیسا کہ ابن منذر وغیرہ نے نقل کیا ہے حتی کہ ابراہیم ابن عوف سے بھی یہ ثابت ہے جو مدینہ کے کبار تابعین سے ہیں کہ انہوں نے جمعہ کے دن لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی اور ان ہی دو سورتوں کو پڑھا۔ ابن ابی شیبہ نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) used to recite the following in the Fajr prayer of Friday, "Alif, Lam, Mim, Tanzil" (Surat-as-Sajda #32) and "Hal-ata-ala-l-Insani" (i.e. Surah-Ad-Dahr #76).