ترجمة الباب:
لقول الله جل وعز : إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله سورة الجمعة آية 9 ، وقال عطاء : إذا كنت في قرية جامعة فنودي بالصلاة من يوم الجمعة فحق عليك ان تشهدها سمعت النداء او لم تسمعه وكان انس رضي الله عنه في قصره احيانا يجمع واحيانا لا يجمع وهو بالزاوية على فرسخين
باب: جمعہ کے لیے کتنی دور والوں کو آنا چاہیے اور کن لوگوں پر جمعہ واجب ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: For whom is the Jumu'ah (prayer) compulsory?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الجمعہ میں) ارشاد ہے «إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة» ”جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان ہو (تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو)“ عطاء نے کہا کہ جب تم ایسی بستی میں ہو جہاں جمعہ ہو رہا ہے اور جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو تمہارے لیے جمعہ کی نماز پڑھنے آنا واجب ہے۔ اذان سنی ہو یا نہ سنی ہو۔ اور انس بن مالک ؓ (بصرہ سے) چھ میل دور مقام زاویہ میں رہتے تھے، آپ یہاں کبھی اپنے گھر میں جمعہ پڑھ لیتے اور کبھی یہاں جمعہ نہیں پڑھتے۔ (بلکہ بصرہ کی جامع مسجد میں جمعہ کے لیے تشریف لایا کرتے تھے)۔
902.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ لوگ اپنے گھروں اور مدینہ کے بالائی علاقوں سے نماز جمعہ پڑھنے کے لیے باری باری آتے تھے۔ چونکہ وہ گردوغبار میں چل کر آتے، اس لیے ان کے بدن سے غبار اور پسینے کی وجہ سے بدبو آنے لگتی، چنانچہ ان میں سے ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا جبکہ آپ اس وقت میرے گھر میں تھے، تب نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کاش کہ تم لوگ اس مبارک دن میں نہا دھو لیا کرو۔‘‘
تشریح:
(1) عوالی، مدینہ کے بالائی علاقے میں تین چار میل پر واقع آبادی کو کہتے ہیں۔ معلوم ہوا اتنی مسافت پر رہنے والوں کو شہر کی مساجد میں جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری نہیں۔ اگر ضروری ہوتا تو باری باری آنے کی بجائے سب کے سب حاضر ہوتے۔ ان حضرات کا باری باری آنا تعلیم کے لیے تھا جیسا کہ حضرت عمرؓ اور ایک انصاری صحابی باری باری مسجد نبوی میں حصول علم کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ (2) اس حدیث سے کئی ایک چیزوں کا پتہ چلتا ہے، مثلاً: ٭ عالم دین کو طلباء کے ساتھ نرمی کرنی چاہیے۔ ٭ اہل خیر کی مجالس میں نظافت اور صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ ٭ مسلمان کی اذیت رسانی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ٭ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم امتثال اوامر پربڑے حریص تھے اگرچہ انہیں مشقت اٹھانا پڑتی تھی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
889
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
902
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
902
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
902
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
(1) اس عنوان کا مطلب یہ ہے کہ جہاں جمعہ واجب ہے، اس کے ارد گرد رہنے والوں پر جمعہ واجب ہے یا نہیں؟ چونکہ آیت کریمہ آس پاس کے لوگوں پر جمعہ فرض ہونے کے متعلق صریح نہ تھی، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے وجوب کو بطریق استفہام پیش کیا ہے اور اپنی طرف سے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ جمہور کے نزدیک جو حضرات اذان جمعہ سنتے ہوں یا سننے کی پوزیشن میں ہوں ان سب پر جمعہ واجب ہو جاتا ہے، خواہ شہر کے اندرون رہائش پذیر ہوں یا بیرون شہر رہنے والے ہوں۔ امام شافعی کے نزدیک محل وجوب کا تعین اس طرح ہے کہ مؤذن بلند آواز ہو، ماحول پرسکون ہو اور آدمی کی قوت سماعت متاثر نہ ہو، ایسے حالات میں جتنے فاصلے پر آواز پہنچے گی وہاں کے رہنے والوں پر جمعہ فرض ہو گا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں ایک مرفوع حدیث مروی ہے: "جمعہ ہر اس انسان پر واجب ہے جو اذان سنتا ہے۔" (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1056،والارواء،حدیث:593) باقی رہی ایک دوسری حدیث کہ جو جمعہ پڑھ کر رات تک گھر واپس جا سکتے ہیں ان پر بھی جمعہ فرض ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے ضعیف کہا ہے، نیز یہ روایت اس لیے بھی مرجوح ہے کہ اس سے جمعے کے لیے سعی اور بھاگ دوڑ شروع دن سے لازم آتی ہے جو آیت کریمہ کے مفہوم کے خلاف ہے کیونکہ جب اتنی مسافت پر جمعہ واجب ہوا کہ رات تک گھر پہنچ سکے تو گھر سے محل جمعہ تک بھی اتنی ہی مسافت طے کرے گا، لہذا صبح ہی سے چلے گا تاکہ جمعہ پڑھ سکے جبکہ آیت کریمہ سے اذان جمعہ کے بعد گھر سے چلنے کا حکم ہے۔ (فتح الباری:2/495) (2) عطاء بن ابی رباح کے اثر کو امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف (3/163) میں ابن جریج سے موصولاً بیان کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اندرون شہر جب اذان ہو جائے تو نماز جمعہ کے لیے آنا ضروری ہے، خواہ اسے خود سنے یا نہ سنے۔ امام احمد نے اس بات کی صراحت کی ہے اور علامہ نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس کے متعلق کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مصنف عبدالرزاق میں یہ اضافہ ہے کہ حضرت عطاء سے قریہ جامعہ کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ جہاں جماعت ہو، امیر ہو، قاضی ہو، نیز بہت سے گھر ایک جگہ جمع ہوں اور ایک دوسرے سے متصل ہوں جیسا کہ جدوشہر ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت دو مختلف آثار سے مرکب ہے۔ مذکورہ اثر کو امام مسدد نے اپنی مسند کبیر میں متصل سند سے بیان کیا ہے جبکہ مصنف بن ابی شیبہ (2/539) میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ زاویہ سے جمعہ پڑھنے کے لیے بصرہ جایا کرتے تھے جو اس سے دو فرسخ، یعنی چھ میل کی مسافت پر تھا۔ اور عبدالرزاق نے اپنی مصنف (3/163) میں روایت کیا ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی زمین میں ہوتے جو بصرہ سے تین میل کی مسافت پر تھی تو وہاں سے جمعہ پڑھنے کے لیے بصرہ آیا کرتے تھے۔ ان دونوں آثار میں تطبیق یہ ہے کہ بصرہ سے قصر چھ میل کی مسافت پر تھا وہاں سے کبھی جمعہ پڑھنے کے لیے بصرہ آ جاتے اور کبھی وہیں جمعہ پڑھ لیتے اور فارم کی اراضی صرف تین میل پر تھی، وہاں سے جمعہ پڑھنے کے لیے بصرہ ضرور آتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے نزدیک اگر چہر سے تین میل دور ہو تو اسے شہر میں جمعہ پڑھنا ضروری ہے اور اگر اس سے زیادہ مسافت ہو تو جمعہ پڑھنے کے لیے شہر میں آنا ضروری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قصر میں جمعہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کا اختیار مروی ہے جبکہ زرعی فارم پر اس قسم کی تخییر کی روایت نہیں ملتی۔ (فتح الباری:2/498) واللہ اعلم
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الجمعہ میں) ارشاد ہے «إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة» ”جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان ہو (تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو)“ عطاء نے کہا کہ جب تم ایسی بستی میں ہو جہاں جمعہ ہو رہا ہے اور جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو تمہارے لیے جمعہ کی نماز پڑھنے آنا واجب ہے۔ اذان سنی ہو یا نہ سنی ہو۔ اور انس بن مالک ؓ (بصرہ سے) چھ میل دور مقام زاویہ میں رہتے تھے، آپ یہاں کبھی اپنے گھر میں جمعہ پڑھ لیتے اور کبھی یہاں جمعہ نہیں پڑھتے۔ (بلکہ بصرہ کی جامع مسجد میں جمعہ کے لیے تشریف لایا کرتے تھے)۔
حدیث ترجمہ:
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ لوگ اپنے گھروں اور مدینہ کے بالائی علاقوں سے نماز جمعہ پڑھنے کے لیے باری باری آتے تھے۔ چونکہ وہ گردوغبار میں چل کر آتے، اس لیے ان کے بدن سے غبار اور پسینے کی وجہ سے بدبو آنے لگتی، چنانچہ ان میں سے ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا جبکہ آپ اس وقت میرے گھر میں تھے، تب نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کاش کہ تم لوگ اس مبارک دن میں نہا دھو لیا کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) عوالی، مدینہ کے بالائی علاقے میں تین چار میل پر واقع آبادی کو کہتے ہیں۔ معلوم ہوا اتنی مسافت پر رہنے والوں کو شہر کی مساجد میں جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری نہیں۔ اگر ضروری ہوتا تو باری باری آنے کی بجائے سب کے سب حاضر ہوتے۔ ان حضرات کا باری باری آنا تعلیم کے لیے تھا جیسا کہ حضرت عمرؓ اور ایک انصاری صحابی باری باری مسجد نبوی میں حصول علم کے لیے حاضر ہوتے تھے۔ (2) اس حدیث سے کئی ایک چیزوں کا پتہ چلتا ہے، مثلاً: ٭ عالم دین کو طلباء کے ساتھ نرمی کرنی چاہیے۔ ٭ اہل خیر کی مجالس میں نظافت اور صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ ٭ مسلمان کی اذیت رسانی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ٭ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم امتثال اوامر پربڑے حریص تھے اگرچہ انہیں مشقت اٹھانا پڑتی تھی۔
ترجمۃ الباب:
عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ جب تم کسی بستی میں ہو جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو اور جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو تم پر نماز جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے، خواہ تم اذان سنو یا نہ سنو۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے قصر (محل) میں رہتے تھے جو کہ زاویہ میں بصرہ سے چھ میل کے فاصلے پر تھا، آپ کبھی وہاں جمعہ پڑھتے اور کبھی نہ پڑھتے تھے۔ (بلکہ بصرہ کی جامع مسجد میں جمعہ کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔)
فائدہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے نزدیک اگر شہر سے تین میل دور ہو تو اسے شہر میں جمعہ پڑھنا ضروری ہے اور اگر اس سے زیادہ مسافت ہو تو جمعہ پڑھنے کے لیے شہر میں آنا ضروری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قصر میں جمعہ پڑھنے یا نہ پڑھنے کا اختیار مروی ہے جبکہ زرعی فارم پر اس قسم کی تخییر کی روایت نہیں ملتی۔ (فتح الباری: 2/496) واللہ اعلم
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے عبید اللہ بن ابی جعفر نے کہ محمد بن جعفر بن زبیر نے ان سے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ نے، آپ نے کہا کہ لوگ جمعہ کی نماز پڑھنے اپنے گھروں سے اور اطراف مدینہ گاؤں سے (مسجد نبوی میں) باری باری آیا کرتے تھے۔ لوگ گردوغبار میں چلے آتے، گرد میں اٹے ہوئے اور پسینہ میں شرابور۔ اس قدر پسینہ ہوتا کہ تھمتا نہیں تھا۔ اسی حالت میں ایک آدمی رسول کریم ﷺ کے پاس آیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اس دن (جمعہ میں) غسل کر لیا کرتے تو بہتر ہوتا۔
حدیث حاشیہ:
جمعہ کے دن غسل کرنا موجب اجر وثواب ہے مگر یہ غسل واجب ہے یا مستحب، اس میں اختلاف ہے۔ بعض احادیث میں اس کے لیے لفظ واجب استعمال ہوا ہے اور بعض میں صیغہ امر بھی ہے جس سے اس کا وجوب ثابت ہوتا ہے مگر ایک روایت میں سمرہ ابن جندب ؓ سے ان لفظوں میں بھی مروی ہے۔ أن نبي اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال من توضأ للجمعة فبھا ونعمت ومن اغتسل فذلك أفضل۔(رواہ الخمسة إلا ابن ماجة)یعنی آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس نے جمعہ کے لیے وضو کیا پس اچھا کیا اور بہت ہی اچھا کیا اور جس نے غسل بھی کر لیا پس یہ غسل افضل ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ہے اسی بناءپر علامہ شوکانی فرماتے ہیں:۔ قال النووي فحکی وجوبه عن طائفة من السلف حکوہ عن بعض الصحابة وبه قال أھل الظاھر۔یعنی ( حدیث بخاری کے تحت ) سلف میں سے ایک جماعت سے غسل جمعہ کا وجوب نقل ہوا ہے بعض صحابہ سے بھی منقول ہے اور اہل ظاہر کا یہی فتوی ہے۔ مگر دوسری روایت کی بنا پر حضرت علامہ شوکانی فرماتے ہیں: وذھب جمھور العلماء من السلف والخلف وفقھاءالأمصار إلی أنھا مستحب۔ (نیل) یعنی سلف اور خلف سے جمہور علماءفقہاءامصار اس طرف گئے ہیں کہ یہ مستحب ہے جن روایات میں حق اور واجب کا لفظ آیا ہے اس سے مراد تاکید ہے اور وہ وجوب مراد نہیں ہے جن کے ترک سے گناہ لازم آئے ( نیل ) ہاں جن لوگوں کا یہ حال ہو وہ ہفتہ بھر نہ نہاتے ہوں اور ان کے جسم ولباس سے بدبو آرہی ہو، ان کے لیے غسل جمعہ ضروری ہے۔ حضرت علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں۔ قلت قد جاء في ھذا الباب أحادیث مختلفة بعضھا یدل علی أن الغسل یوم الجمعة واجب وبعضھا یدل علی أنه مستحب والظاھر عندي أنه سنة مؤکدة وبھذا یحصل الجمع بین الأحادیث المختلفة واللہ تعالی أعلم۔ (تحفۃ الاحوذی) یعنی میں کہتا ہوں کہ اس مسئلہ میں مختلف احادیث آئی ہیں بعض سے وجوب غسل ثابت ہوتا ہے اور بعض سے صرف استحباب اور میرے نزدیک ظاہر مسئلہ یہ ہے کہ غسل جمعہ سنت مؤکدہ ہے اور اسی طرح سے مختلف احادیث واردہ میں تطبیق دی جا سکتی ہے۔ احادیث مذکورہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اہل دیہات جمعہ کے لیے ضرور حاضر ہوا کرتے تھے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءان کے لیے باعث صد فخر تھی اور وہ اہل دیہات بھی ایسے کہ اونٹ اور بکریوں کے چرانے والے، عسرت کی زندگی گزارنے والے، بعض دفعہ غسل کے لیے موقع بھی نہ ملتا اور بدن کے پسینوں کی بو آتی رہتی تھی۔ اگر اسلام میں اہل دیہات کے لیے جمعہ کی ادائیگی معاف ہوتی تو ضرور کبھی نہ کبھی آنحضرت ان سے فرما دیتے کہ تم لوگ اس قدر محنت مشقت کیوں اٹھاتے ہو، تمہارے لیے جمعہ کی حاضری فرض نہیں ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ بھی کبھی ایسا نہیں فرمایا جس سے صاف ظاہر ہے کہ جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے ہاں جن کوخود صاحب شریعت نے مستثنی فرما دیا، ان پر فرض نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ غسل جمعہ بہر حال ہونا چاہیے کیونکہ اسلام میں صفائی ستھرائی کی بڑی تاکید ہے۔ قرآن مجید میں اللہ پاک نے فرمایا:﴿اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِینَ وَیُحِبُّ المُتَطَھَّرِینَ ﴾ ( البقرۃ:222 ) ’’بے شک اللہ پاک توبہ کرنے والوں اور پاکی حاصل کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ ‘‘ غسل بھی پاکی حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے، اسلام میں یہ اصول مقرر کیا گیا کہ بغیر پاکی حاصل کئے نماز ہی درست نہ ہوگی جس میں بوقت ضرورت استنجائ، غسل، وضو سب طریقے داخل ہیں۔ حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں۔ قال النبی صلی اللہ عله وسلم الطھور شطر الإیمان۔أقول المراد بالإیمان ھھنا ھیئة نفسانیة مرکبة من نور الطھارة والأخبات والإحسان أوضح منه في هذا المعنی ولا شك أن الطھور شطرہ۔ ( حجۃ اللہ البالغۃ ) یعنی نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’طہارت نصف ایمان ہے‘‘میں کہتاہوں کہ یہاں ایمان سے ایک ایسی ہیئت نفسانیہ مراد ہے جو نور طہارت اور خشوع سے مرکب ہے اور لفظ احسان اس معنی میں ایمان سے زیادہ واضح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ طہارت اس کانصف ہے۔ خلاصۃ المرام یہ کہ جمعہ کے دن خاص طور پر نہا دھوکر خوب پاک صاف ہو کر نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے جانا موجب صداجر وثواب ہے اور نہانے دھونے سے صفائی ستھرائی کا حصول صحت جسمانی کے لیے بھی مفید ہے۔ جو لوگ روز انہ غسل کے عادی ہیں ان کا تو ذکر ہی کیا ہے مگر جو لوگ کسی وجہ سے روزانہ غسل نہیں کر سکتے کم از کم جمعہ کے دن وہ ضرورضرورغسل کر کے صفائی حاصل کریں۔ جمعہ کے دن غسل کے علاوہ بوقت جنابت مرد وعورت دونوں کے لیے غسل واجب ہے، یہ مسئلہ اپنی جگہ پر تفصیل سے آچکا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): (The wife of the Prophet) The people used to come from their abodes and from Al-'Awali (i.e. outskirts of Madinah up to a distance of four miles or more from Medina). They used to pass through dust and used to be drenched with sweat and covered with dust; so sweat used to trickle from them. One of them came to Allah's Apostle (ﷺ) who was in my house. The Prophet (ﷺ) said to him, "I wish that you keep yourself clean on this day of yours (i.e. take a bath)."