Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: The time for the Jumu'ah (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عمر اور علی اور نعمان بن بشیر اور عمرو بن حریث ؓ اجمعین سے اسی طرح مروی ہے۔
905.
حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ جمعہ کے دن صبح سویرے نکلتے اور جمعہ سے فراغت کے بعد قیلولہ کرتے تھے۔
تشریح:
(1) پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی پڑھا کرتے تھے جبکہ دوسری حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آپ نماز جمعہ صبح صبح پڑھ لیتے تھے لیکن احادیث میں تعارض پیدا کرنے کے بجائے ان میں تطبیق کی صورت پیدا کرنی چاہیے، چنانچہ تبکیر کے دو معنی ہیں: ایک کسی کام کو جلدی کرنا اور دوسرا کسی کام کو صبح صبح سر انجام دینا۔ اس مقام پر پہلا معنی مقصود ہے، یعنی اسے دوسرے کاموں سے پہلے جلدی ادا کر لیتے تھے اور قیلولہ نماز جمعہ کے بعد کرتے لیکن نماز ظہر میں پہلے قیلولہ کرتے، پھر نماز پڑھتے تھے، گویا امام بخاری ؒ نے پہلی روایت سے دوسری روایت کی تفسیر بیان کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ان احادیث کے درمیان کوئی تعارض نہیں۔ (فتح الباري:498/2) (2) ایک روایت میں ہے کہ ہم لوگ دوپہر کا کھانا اور قیلولہ نماز جمعہ کے بعد کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:939) اس روایت سے بھی نماز جمعہ قبل از زوال پڑھنے پر استدلال کیا گیا ہے کیونکہ دوپہر کے کھانے اور قیلولہ کرنے کا وقت قبل از زوال ہے۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس روایت سے قبل از زوال نماز پڑھنے کا استدلال صحیح نہیں کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا کہنا ہے کہ ہم لوگ نماز سے قبل جمعہ کی تیاری کرتے، انتظار نماز، پھر ادائے نماز کی وجہ سے ہمارے روزانہ کے معمولات بدل جاتے تھے، یعنی قبل از زوال معلوم ہوتا ہے کیونکہ اپنی عادت کے مطابق وہ زوال سے پہلے کھانے کے بعد قیلولہ کرتے تھے لیکن جمعہ کے متعلق صحابی نے خبر دی ہے کہ ہم لوگ جمعہ کے لیے تیاری اور مصروفیت کی وجہ سے طعام اور قیلولہ مؤخر کر دیتے تھے، یعنی انہیں نماز جمعہ کے بعد سر انجام دیتے تھے۔ (فتح الباري:550/2) مختصر یہ ہے کہ جمعہ کے دن دوپہر کا کھانا اور قیلولہ نماز کے بعد کرنے کی صورت یہ نہ تھی کہ زوال سے پہلے نماز پڑھ لیتے اور اپنے روزانہ کے معمولات کے مطابق کھانا اور قیلولہ بھی اپنے وقت پر زوال سے پہلے کرتے تھے بلکہ اس کی صورت یہ تھی کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم صبح ہی سے نماز جمعہ کی تیاری میں لگ جاتے، مسجد میں جا کر نماز جمعہ کا انتظار کرتے اور اس سے فراغت کے بعد گھروں میں پہنچ کر کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے جو روزانہ کے معمول سے مؤخر ہوتا تھا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
892
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
905
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
905
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
905
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق سویہ بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ نماز جمعہ بعد از زوال آفتاب پڑھی۔ مصنف ابن ابی شیبہ (2/217) میں یہ صحیح سند کے ساتھ مروی ہے۔ اسی طرح حدیث سقیفہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن جب سورج ڈھل گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور منبر پر رونق افروز ہوئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی یہی معمول تھا کہ وہ بھی زوال آفتاب کے بعد جمعہ پڑھتے تھے، چنانچہ ابو رزین کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جمعہ پڑھتے، کبھی دیواروں کا سایہ مل جاتا اور کبھی اس سے محروم رہتے، نیز ابو اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں نماز جمعہ بعد از زوال آفتاب ادا کی تھی۔ ان آثار کو ابن ابی شیبہ نے (2/549-550 میں) صحیح سند سے بیان کیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ جو یزید بن معاویہ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے ان کے متعلق سماک بن حرب بیان کرتے ہیں کہ ہمیں زوال آفتاب کے بعد جمعہ پڑھاتے تھے۔ عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ کے متعلق ولید بن بزار بیان کرتے ہیں کہ میں نے کسی کو ان سے اچھی نماز جمعہ پڑھاتے نہیں دیکھا، وہ ہمیشہ زوال آفتاب کے بعد نماز پڑھاتے تھے۔ ان آثار کو امام ابن ابی شیبہ نے بیان کیا ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ:2/550) حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما سے اس کے خلاف بھی مروی ہے کہ انہوں نے بوقت چاشت جمعہ پڑھا تھا لیکن اس کی اسناد صحیح نہیں۔ (فتح الباری:2/498)
اور عمر اور علی اور نعمان بن بشیر اور عمرو بن حریث ؓ اجمعین سے اسی طرح مروی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ جمعہ کے دن صبح سویرے نکلتے اور جمعہ سے فراغت کے بعد قیلولہ کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ نماز جمعہ زوال آفتاب کے بعد ہی پڑھا کرتے تھے جبکہ دوسری حدیث سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آپ نماز جمعہ صبح صبح پڑھ لیتے تھے لیکن احادیث میں تعارض پیدا کرنے کے بجائے ان میں تطبیق کی صورت پیدا کرنی چاہیے، چنانچہ تبکیر کے دو معنی ہیں: ایک کسی کام کو جلدی کرنا اور دوسرا کسی کام کو صبح صبح سر انجام دینا۔ اس مقام پر پہلا معنی مقصود ہے، یعنی اسے دوسرے کاموں سے پہلے جلدی ادا کر لیتے تھے اور قیلولہ نماز جمعہ کے بعد کرتے لیکن نماز ظہر میں پہلے قیلولہ کرتے، پھر نماز پڑھتے تھے، گویا امام بخاری ؒ نے پہلی روایت سے دوسری روایت کی تفسیر بیان کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ ان احادیث کے درمیان کوئی تعارض نہیں۔ (فتح الباري:498/2) (2) ایک روایت میں ہے کہ ہم لوگ دوپہر کا کھانا اور قیلولہ نماز جمعہ کے بعد کرتے تھے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:939) اس روایت سے بھی نماز جمعہ قبل از زوال پڑھنے پر استدلال کیا گیا ہے کیونکہ دوپہر کے کھانے اور قیلولہ کرنے کا وقت قبل از زوال ہے۔ اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس روایت سے قبل از زوال نماز پڑھنے کا استدلال صحیح نہیں کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا کہنا ہے کہ ہم لوگ نماز سے قبل جمعہ کی تیاری کرتے، انتظار نماز، پھر ادائے نماز کی وجہ سے ہمارے روزانہ کے معمولات بدل جاتے تھے، یعنی قبل از زوال معلوم ہوتا ہے کیونکہ اپنی عادت کے مطابق وہ زوال سے پہلے کھانے کے بعد قیلولہ کرتے تھے لیکن جمعہ کے متعلق صحابی نے خبر دی ہے کہ ہم لوگ جمعہ کے لیے تیاری اور مصروفیت کی وجہ سے طعام اور قیلولہ مؤخر کر دیتے تھے، یعنی انہیں نماز جمعہ کے بعد سر انجام دیتے تھے۔ (فتح الباري:550/2) مختصر یہ ہے کہ جمعہ کے دن دوپہر کا کھانا اور قیلولہ نماز کے بعد کرنے کی صورت یہ نہ تھی کہ زوال سے پہلے نماز پڑھ لیتے اور اپنے روزانہ کے معمولات کے مطابق کھانا اور قیلولہ بھی اپنے وقت پر زوال سے پہلے کرتے تھے بلکہ اس کی صورت یہ تھی کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم صبح ہی سے نماز جمعہ کی تیاری میں لگ جاتے، مسجد میں جا کر نماز جمعہ کا انتظار کرتے اور اس سے فراغت کے بعد گھروں میں پہنچ کر کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے جو روزانہ کے معمول سے مؤخر ہوتا تھا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت عمر، حضرت علی، حضرت نعمان بن بشیر اور حضرت عمرو بن حریث ؓ سے اسی طرح بیان کیا جاتا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں حمید طویل نے انس بن مالک ؓ سے خبر دی۔ آپ نے فرمایا کہ ہم جمعہ سویرے پڑھ لیا کرتے اور جمعہ کے بعد آرام کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے وہی مذہب اختیار کیا جو جمہور کا ہے کہ جمعہ کا وقت زوال آفتاب سے شروع ہوتا ہے کیونکہ وہ ظہر کا قائم مقام ہے بعض احادیث سے جمعہ قبل الزوال بھی جائز معلوم ہوتا ہے یہاں لفظ نبکر بالجمعة۔یعنی صحابہ کہتے ہیں کہ ہم جمعہ کی نماز کے لیے جلدی جایا کرتے تھے۔ (اس سے قبل الزوال کے لیے گنجائش نکلتی ہے) اس کے بارے میں علامہ امام شوکانی مرحوم فرماتے ہیں۔ وَظَاهِرُ ذَلِكَ أَنَّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ الْجُمُعَةَ بَاكِرَ النَّهَارِ.قَالَ الْحَافِظُ: لَكِنَّ طَرِيقَ الْجَمْعِ أَوْلَى مِنْ دَعْوَى التَّعَارُضِ، وَقَدْ تَقَرَّرَ أَنَّ التَّبْكِيرَ يُطْلَقُ عَلَى فِعْلِ الشَّيْءِ فِي أَوَّلِ وَقْتِهِ أَوْ تَقْدِيمِهِ عَلَى غَيْرِهِ وَهُوَ الْمُرَادُ هُنَا. وَالْمَعْنَى: أَنَّهُمْ كَانُوا يَبْدَءُونَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْقَيْلُولَةِ، بِخِلَافِ مَا جَرَتْ بِهِ عَادَتُهُمْ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ فِي الْحَرِّ، فَإِنَّهُمْ كَانُوا يَقِيلُونَ ثُمَّ يُصَلُّونَ لِمَشْرُوعِيَّةِ الْإِبْرَادِ۔یعنی حدیث بالا سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جمعہ اول دن میں ادا کر لیا کر تے تھے۔ حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ ہر دو احادیث میں تعارض پیدا کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ان میں تطبیق دی جائے۔ یہ امر محقق ہے کہ تبکیر کا لفظ کسی کام کا اوّل وقت میں کرنے پر بولا جاتا ہے یا اس کا غیر پر مقدم کرنا۔ یہاں یہی مراد ہے معنی یہ ہواکہ وہ قیلولہ سے قبل جمعہ کی نماز پڑھ لیا کرتے تھے بخلاف ظہر کے کیونکہ گرمیوں میں ان کی عادت یہ تھی کہ پہلے قیلولہ کرتے پھر ظہر کی نماز ادا کرتے تا کہ ٹھنڈا وقت کرنے کی مشروعیت پر عمل ہو۔ مگر لفظ حین تمیل الشمس ( یعنی آنحضرت ﷺ سورج ڈھلنے پر جمعہ ادا فرمایا کرتے تھے ) پر علامہ شوکانی فرماتے ہیں: فیه إشعار بمواظبتة صلی اللہ علیه وسلم علی صلوة الجمعة إذا زالت الشمس۔یعنی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ زوال شمس کے بعد نماز جمعہ ادا فرمایا کرتے تھے۔ امام بخاری ؒ اور جمہور کا مسلک یہی ہے، اگر چہ بعض صحابہ اور سلف سے زوال سے پہلے بھی جمعہ کا جواز منقول ہے مگر امام بخاری ؒ کے نزدیک ترجیح اسی مسلک کو حاصل ہے۔ ایسا ہی علامہ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں: والظاھر المعول علیه ھو ما ذھب إلیه الجمھور من أنه لا تجوز الجمعة إلا بعد زوال الشمس وإماما ذھب إلیه بعضھم من أنھا تجوز قبل الزوال فلیس فیه حدیث صحیح صریح واللہ أعلم۔(تحفة الأحوذی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): We used to offer the Jumua prayer early and then have an afternoon nap.