Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: To go walking unhurriedly)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے(سورۃ الجمعہ)میں فرمایاکہ”اللہ کے ذکر کی طرف تیزی کے ساتھ چلو“اور اس کی تفسیر جس نے یہ کہا کہسعى کے معنی عمل کرنا اور چلنا جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ہے سعى لها سعيها یہاںسعى کے یہی معنی ہیں۔ ابن عباس ؓنے کہا کہ خرید و فروخت جمعہ کی اذان ہوتے ہی حرام ہو جاتی ہے عطاء نے کہا کہ تمام کاروبار اس وقت حرام ہو جاتے ہیں۔ ابراہیم بن سعد نے زہری کا یہ قول نقل کیا کہ جمعہ کے دن جب مؤذن اذان دے تو مسافر بھی شرکت کرے۔
907.
حضرت عبایہ بن رفاعہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نماز جمعہ کے لیے جا رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے حضرت ابوعبس (عبدالرحمٰن بن جبر) ؓ کر ملے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جس شخص کے قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہو گئے اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ اس حدیث سے جمعہ کے لیے پیدل جانے کی فضیلت ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صحابئ رسول حضرت ابو عبس ؓ نے اسے جہاد فی سبیل اللہ کے مترادف قرار دیا ہے۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک اس میں عموم ہے، یعنی فی سبیل اللہ میں ہر قسم کی طاعت آ جاتی ہے لیکن ہمارے نزدیک اس قسم کی طاعات کو مجاہدہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن اسے جہاد سے تعبیر کرنا محل نظر ہے، کیونکہ جہاد تو اپنے نفس اور نفیس اشیاء کو قربان کر دینے کا نام ہے، ذیلی طاعات اس کے برابر کیسے ہو سکتی ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث کو امام ترمذی ؒ نے کتاب الجهاد میں بیان کیا ہے لیکن امام بخاری ؒ نے جمعہ کو جہاد کے ساتھ ملحق کیا ہے، تاہم جہاد کے خاص فضائل عالیہ دوسری طاعات پر حاصل نہ ہوں گے۔ (2) صحیح بخاری کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ واقعہ عبایہ بن رفاعہ کو حضرت ابی عبس کے ہمراہ پیش آیا۔ سنن نسائی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ یزید بن ابی مریم کو عبایہ کے ساتھ پیش آیا۔ یزید کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے لیے پیدل جا رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے عبایہ بن رفاعہ ملے جبکہ وہ سوار تھے تو آپ نے فرمایا کہ تجھے مبارک ہو، تیرے یہ قدم اللہ کے راستے میں شمار ہوں گے کیونکہ میں نے ابو عبس بن جبر سے سنا ہے، آگے انہوں نے مذکورہ حدیث بیان کی۔ ممکن ہے کہ یہ واقعہ ہر ایک کے ساتھ پیش آیا ہو۔ اس پر مکمل بحث تو کتاب الجهاد میں آئے گی، تاہم امام بخاری ؒ نے "في سبیل اللہ" کے عموم کے پیش نظر اسے بیان کر دیا ہے جس میں جمعہ بھی شامل ہے۔ (فتح الباري:503/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
894
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
907
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
907
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
907
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان سے چند ایک چیزیں ثابت کرنا چاہتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ جمعہ کے لیے پیدل جانے کی فضیلت۔ ٭ قرآنی آیت میں آنے والے لفظ "سعی" کے معنی کی تعیین۔ ٭ قرآنی آیت میں جمعہ کے لیے دوڑ کر آنے کا حکم اور احادیث میں اس کی ممانعت ہے، اس میں رفع تعارض کا بیان۔ ٭ اذان جمعہ کے بعد آیا صرف خریدوفروخت منع ہے یا دیگر دنیوی مشاغل کی بھی ممانعت ہے؟ ٭ جب مسافر اذان جمعہ سنے تو کیا اسے جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے یا اسے کوئی رخصت ہے؟ چنانچہ عنوان کے تحت پیش کردہ احادیث میں جمعہ کے لیے پیدل آنے کو "في سبيل الله" سے تعبیر کیا گیا ہے اور قرآنی آیت میں مستعمل لفظ سعی کے معنی دوڑ کر آنا نہیں بلکہ اس کے معنی عمل کرنا اور صرف چل کر آنا ہیں جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اس کے معنی عمل کرنا اور کوشش کرنا متعین ہیں۔ اس سے قرآنی آیت اور حدیث میں بظاہر تعارض بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اذان جمعہ کے بعد صرف خریدوفروخت ہی منع نہیں بلکہ ہر قسم کے دنیوی مشاغل ممنوع ہیں جو جمعہ میں رکاوٹ کا باعث ہوں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ابن منذر سے نقل کیا ہے کہ مسافر پر جمعہ فرض نہیں۔ اس پر اہل علم کا اجماع ہے، اس لیے مسافر کے متعلق امام زہری کے قول کی تاویل کرنا ہو گی، یعنی اسے دو حالتوں پر محمول کرنا ہو گا: ٭ مسافر پر جمعہ نہیں کا مطلب ہو گا کہ اس پر فرض نہیں۔ ٭ امام زہری کے قول "مسافر کو جمعہ پڑھنا چاہیے" یہ استحباب پر محمول کیا جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امام زہری سے نقل کرنے والے ابراہیم بن سعد کا قول ایک خاص صورت پر محمول کیا جائے کہ جب اتفاق سے مسافر ایسی جگہ پر موجود ہو جہاں جمعہ ہوتا ہو اور وہاں وہ جمعہ کی اذان سن لے تو اسے جمعہ پڑھنا چاہیے۔ (فتح الباری:2/503)
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الجمعہ) میں فرمایا کہ ”اللہ کے ذکر کی طرف تیزی کے ساتھ چلو“ اور اس کی تفسیر جس نے یہ کہا کہ سعى کے معنی عمل کرنا اور چلنا جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ہے سعى لها سعيها یہاں سعى کے یہی معنی ہیں۔ ابن عباس ؓنے کہا کہ خرید و فروخت جمعہ کی اذان ہوتے ہی حرام ہو جاتی ہے عطاء نے کہا کہ تمام کاروبار اس وقت حرام ہو جاتے ہیں۔ ابراہیم بن سعد نے زہری کا یہ قول نقل کیا کہ جمعہ کے دن جب مؤذن اذان دے تو مسافر بھی شرکت کرے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبایہ بن رفاعہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نماز جمعہ کے لیے جا رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے حضرت ابوعبس (عبدالرحمٰن بن جبر) ؓ کر ملے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جس شخص کے قدم اللہ کے راستے میں غبار آلود ہو گئے اللہ تعالیٰ اسے جہنم پر حرام کر دے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ اس حدیث سے جمعہ کے لیے پیدل جانے کی فضیلت ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صحابئ رسول حضرت ابو عبس ؓ نے اسے جہاد فی سبیل اللہ کے مترادف قرار دیا ہے۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک اس میں عموم ہے، یعنی فی سبیل اللہ میں ہر قسم کی طاعت آ جاتی ہے لیکن ہمارے نزدیک اس قسم کی طاعات کو مجاہدہ تو کہہ سکتے ہیں لیکن اسے جہاد سے تعبیر کرنا محل نظر ہے، کیونکہ جہاد تو اپنے نفس اور نفیس اشیاء کو قربان کر دینے کا نام ہے، ذیلی طاعات اس کے برابر کیسے ہو سکتی ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث کو امام ترمذی ؒ نے کتاب الجهاد میں بیان کیا ہے لیکن امام بخاری ؒ نے جمعہ کو جہاد کے ساتھ ملحق کیا ہے، تاہم جہاد کے خاص فضائل عالیہ دوسری طاعات پر حاصل نہ ہوں گے۔ (2) صحیح بخاری کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ واقعہ عبایہ بن رفاعہ کو حضرت ابی عبس کے ہمراہ پیش آیا۔ سنن نسائی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ یزید بن ابی مریم کو عبایہ کے ساتھ پیش آیا۔ یزید کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے لیے پیدل جا رہا تھا کہ مجھے پیچھے سے عبایہ بن رفاعہ ملے جبکہ وہ سوار تھے تو آپ نے فرمایا کہ تجھے مبارک ہو، تیرے یہ قدم اللہ کے راستے میں شمار ہوں گے کیونکہ میں نے ابو عبس بن جبر سے سنا ہے، آگے انہوں نے مذکورہ حدیث بیان کی۔ ممکن ہے کہ یہ واقعہ ہر ایک کے ساتھ پیش آیا ہو۔ اس پر مکمل بحث تو کتاب الجهاد میں آئے گی، تاہم امام بخاری ؒ نے "في سبیل اللہ" کے عموم کے پیش نظر اسے بیان کر دیا ہے جس میں جمعہ بھی شامل ہے۔ (فتح الباري:503/2)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جب جمعہ کی اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو۔" بعض حضرات کا قول ہے کہ سعی سے مراد عمل کرنا اور چلنا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے آخرت کے لیے کوشش اور محنت کی۔"حضرت ابن عباس ؓ کا فرمان ہے: اذان جمعہ کے بعد خریدوفروخت حرام ہے۔ حضرت عطاء بن ابی رباح کا قول ہے: خریدوفروخت کے ساتھ ساتھ تمام کام اور مشاغل حرام ہیں۔ حضرت ابراہیم بن سعد نے امام زہری سے نقل کیا ہے کہ جمعہ کے دن جب مؤذن اذان دے تو مسافر کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ جمعہ میں شرکت کرے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبایہ بن رفاعہ بن رافع بن خدیج نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں جمعہ کے لیے جا رہا تھا۔ راستے میں ابوعبس ؓ سے میری ملاقات ہوئی، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ جس کے قدم خدا کی راہ میں غبار آلود ہو گئے اللہ تعالی اسے دوزخ پر حرام کر دے گا۔
حدیث حاشیہ:
حدیث اور ترجمہ میں مطابقت لفظ في سبیل اللہ سے ہوتی ہے اس لیے جمعہ کے لیے چلنا في سبیل اللہ ہی میں چلنا ہے گویا حضرت ابو عبس عبد الرحمن انصاری بدری صحابی مشہور نے جمعہ کو بھی جہاد کے حکم میں داخل فرمایا۔ پھر افسوس ہے ان حضرات پر جنہوں نے کتنے ہی دیہات میں جمعہ نہ ہونے کا فتوی دے کر دیہاتی مسلمانوں کو جمعہ کے ثواب سے محروم کر دیا۔ دیہات میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو شہروں میں جمعہ ادا کرنے کے لیے جائیں۔ وہ نماز پنج وقتہ تک میں سستی کرتے ہیں۔ نماز جمعہ کے لیے ان حضرات علماء نے چھوٹ دے دی جس سے ان کو کافی سہارا مل گیا۔ انا للّٰہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu 'Abs (RA): I heard the Prophet (ﷺ) saying, "Anyone whose feet are covered with dust in Allah's cause, shall be saved by Allah from the Hell-Fire."