باب: جمعہ کے دن جہاں دو آدمی بیٹھے ہوئے ہوں ان کے بیچ میں نہ داخل ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: One should not separate two persons on Fridays)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
910.
حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور جس قدر ممکن ہو صفائی کر کے تیل لگائے یا خوشبو استعمال کرے، پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور دو آدمیوں کے درمیان تفریق نہ کرے، پھر جتنی نماز اس کی قسمت میں ہو ادا کرے اور جب امام خطبہ دینے لگے تو خاموش رہے تو اس کے وہ گناہ جو اس جمعہ سے سابقہ جمعہ کے درمیان ہوئے ہوں سب معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ خطبۂ جمعہ کے آداب بیان کر رہے ہیں کہ مسجد میں آ کر دو آدمیوں کے درمیان تفریق نہ کرے۔ اس کے دو معنی ہیں: ٭ دو آدمیوں کے درمیان بیٹھ جانا۔ ٭ دو آدمیوں کے درمیان فساد ڈال دینا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے ایک تیسرے معنی بیان کیے ہیں کہ لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر نہ جائے۔ وہ دو آدمی خواہ بھائی ہوں یا دوست کیونکہ اس طرح ان کے درمیان وحشت اور گھبراہٹ واقع ہو گی۔ یہ انداز اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ گردنیں پھلانگنے کی سنگینی کے متعلق متعدد احادیث ہیں لیکن وہ استنادی ضعف سے خالی نہیں۔ اس بارے میں وارد چند قوی روایات درج ذیل ہیں۔ ٭ دوران خطبہ میں ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بیٹھ جا تو دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بنا ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1118) ٭ ’’جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنوں کو پھلانگا، اس کے لیے ظہر ہو گی (جمعے کے ثواب سے محروم ہو گا)۔‘‘(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:347) زین بن منیر فرماتے ہیں کہ لوگوں کی گردنیں پھلانگنے میں کئی ایک قباحتیں ہیں، یعنی لوگوں کے سروں اور کندھوں تک اپنے پاؤں اٹھانا یہ انتہائی بدتمیزی کی بات ہے۔ بعض اوقات دوسروں کے کپڑے وغیرہ بھی خراب ہو سکتے ہیں جبکہ اس کے پاؤں پر کوئی چیز لگی ہو۔ (فتح الباري:505/2) (3) اس حکم سے مندرجہ ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں: ٭ اگر منبر تک پہنچنے کے لیے خطیب کو راستہ نہ ملے تو اس کے لیے یہ عمل غیر مکروہ ہے کیونکہ منبر تک پہنچنا اس کی ضرورت ہے۔ ٭ آگے صف میں جگہ موجود ہو لیکن وہاں تک پہنچنا اس کے بغیر ناممکن ہو، اب اس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں کہ لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر اگلی صفوں میں موجود خالی جگہ پر کی جائے۔ (المغني لابن قدامة:231/3) (4) ان امور کی ممانعت اس لیے ہے کہ اس عمل سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے جو شرعاً حرام ہے، نیز جمعہ میں اجتماع کی شان ہے، تفریق کا عمل بے محل اور خلاف مقصود ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
897
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
910
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
910
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
910
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت سلمان فارسی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور جس قدر ممکن ہو صفائی کر کے تیل لگائے یا خوشبو استعمال کرے، پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور دو آدمیوں کے درمیان تفریق نہ کرے، پھر جتنی نماز اس کی قسمت میں ہو ادا کرے اور جب امام خطبہ دینے لگے تو خاموش رہے تو اس کے وہ گناہ جو اس جمعہ سے سابقہ جمعہ کے درمیان ہوئے ہوں سب معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ خطبۂ جمعہ کے آداب بیان کر رہے ہیں کہ مسجد میں آ کر دو آدمیوں کے درمیان تفریق نہ کرے۔ اس کے دو معنی ہیں: ٭ دو آدمیوں کے درمیان بیٹھ جانا۔ ٭ دو آدمیوں کے درمیان فساد ڈال دینا۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے ایک تیسرے معنی بیان کیے ہیں کہ لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر نہ جائے۔ وہ دو آدمی خواہ بھائی ہوں یا دوست کیونکہ اس طرح ان کے درمیان وحشت اور گھبراہٹ واقع ہو گی۔ یہ انداز اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ گردنیں پھلانگنے کی سنگینی کے متعلق متعدد احادیث ہیں لیکن وہ استنادی ضعف سے خالی نہیں۔ اس بارے میں وارد چند قوی روایات درج ذیل ہیں۔ ٭ دوران خطبہ میں ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بیٹھ جا تو دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث بنا ہے۔‘‘(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1118) ٭ ’’جس نے جمعہ کے دن لوگوں کی گردنوں کو پھلانگا، اس کے لیے ظہر ہو گی (جمعے کے ثواب سے محروم ہو گا)۔‘‘(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث:347) زین بن منیر فرماتے ہیں کہ لوگوں کی گردنیں پھلانگنے میں کئی ایک قباحتیں ہیں، یعنی لوگوں کے سروں اور کندھوں تک اپنے پاؤں اٹھانا یہ انتہائی بدتمیزی کی بات ہے۔ بعض اوقات دوسروں کے کپڑے وغیرہ بھی خراب ہو سکتے ہیں جبکہ اس کے پاؤں پر کوئی چیز لگی ہو۔ (فتح الباري:505/2) (3) اس حکم سے مندرجہ ذیل صورتیں مستثنیٰ ہیں: ٭ اگر منبر تک پہنچنے کے لیے خطیب کو راستہ نہ ملے تو اس کے لیے یہ عمل غیر مکروہ ہے کیونکہ منبر تک پہنچنا اس کی ضرورت ہے۔ ٭ آگے صف میں جگہ موجود ہو لیکن وہاں تک پہنچنا اس کے بغیر ناممکن ہو، اب اس کے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں کہ لوگوں کی گردنوں کو پھلانگ کر اگلی صفوں میں موجود خالی جگہ پر کی جائے۔ (المغني لابن قدامة:231/3) (4) ان امور کی ممانعت اس لیے ہے کہ اس عمل سے دوسروں کو تکلیف ہوتی ہے جو شرعاً حرام ہے، نیز جمعہ میں اجتماع کی شان ہے، تفریق کا عمل بے محل اور خلاف مقصود ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی انہوں نے کہا کہ ہمیں ا بن ابی ذئب نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے، انہیں ان کے باپ ابو سعید نے، انہیں عبد اللہ بن ودیعہ نے، انہیں سلمان فارسی ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور خوب پاکی حاصل کی اور تیل یا خوشبو استعمال کی، پھر جمعہ کے لیے چلا اور دو آدمیوں کے بیچ میں نہ گھسا اور جتنی اس کی قسمت میں تھی، نماز پڑھی، پھر جب امام باہر آیا اور خطبہ شروع کیا تو خاموش ہو گیا، اس کے اس جمعہ میں سے دوسرے جمعہ تک کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے۔
حدیث حاشیہ:
آداب جمعہ میں سے ضرورادب ہے کہ آنے والا نہایت ہی ادب ومتانت کے ساتھ جہاں جگہ پائے بیٹھ جائے۔ کسی کی گردن پھلانگ کر آگے نہ بڑھے کیونکہ یہ شرعا ممنوع اور معیوب ہے۔ اس سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ شریعت اسلامی میں کسی کو ایذا پہنچانا خواہ وہ ایذا بنام عبادت نمازہی کیوں نہ ہو، وہ عند اللہ گناہ ہے۔ اسی مضمون کی اگلی حدیث میں مزید تفصیل آرہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salman Al-Farsi (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Anyone who takes a bath on Friday and cleans himself as much as he can and puts oil (on his hair) or scents himself; and then proceeds for the prayer and does not force his way between two persons (assembled in the mosque for the Friday prayer), and prays as much as is written for him and remains quiet when the Imam delivers the Khutba, all his sins in between the present and the last Friday will be forgiven."