باب: امام منبر پر بیٹھے بیٹھے اذان سن کر اس کا جواب دے۔
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: The Imam repeats the wordings of the Adhan when he hears it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
914.
حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے روایت ہے کہ وہ جمعہ کے دن منبر پر تشریف فرما تھے تو مؤذن نے اذان دی۔ جب اس نے الله أكبر الله أكبر کہا تو حضرت معاویہ ؓ نے الله أكبر الله أكبر کہا: جب اس نے أشهد أن لا إله إلا الله کہا تو حضرت معاویہ ؓ نے کہا: میں بھی یہ گواہی دیتا ہوں۔ پھر اس نے أشهد أن محمدا رسول الله کہا تو حضرت معاویہ ؓ نے کہا: میں بھی یہی گواہی دیتا ہوں۔ پھر اذان ختم ہو گئی تو حضرت معاویہ ؓ نے کہا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی مقام پر سنا کہ جب مؤذن نے اذان دی تو آپ بھی وہی فرماتے تھے جو تم نے مجھے کہتے ہوئے سنا ہے۔
تشریح:
اس حدیث سے امام اور خطیب کے لیے اذان کے جواب کا استحباب معلوم ہوتا ہے، دوسرے لوگوں کو بھی اذان کا جواب دینا چاہیے، نیز معلوم ہوا کہ امام اگرچہ منبر پر فروکش ہو تو بھی تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ شہادتین کا جواب صرف ضمیر متکلم سے بھی دیا جا سکتا ہے، چنانچہ امام ابن حبان ؒ نے اپنی صحیح میں اس کے متعلق مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح ابن حبان:97/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
901
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
914
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
914
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
914
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ سے روایت ہے کہ وہ جمعہ کے دن منبر پر تشریف فرما تھے تو مؤذن نے اذان دی۔ جب اس نے الله أكبر الله أكبر کہا تو حضرت معاویہ ؓ نے الله أكبر الله أكبر کہا: جب اس نے أشهد أن لا إله إلا الله کہا تو حضرت معاویہ ؓ نے کہا: میں بھی یہ گواہی دیتا ہوں۔ پھر اس نے أشهد أن محمدا رسول الله کہا تو حضرت معاویہ ؓ نے کہا: میں بھی یہی گواہی دیتا ہوں۔ پھر اذان ختم ہو گئی تو حضرت معاویہ ؓ نے کہا: اے لوگو! میں نے رسول اللہ ﷺ سے اسی مقام پر سنا کہ جب مؤذن نے اذان دی تو آپ بھی وہی فرماتے تھے جو تم نے مجھے کہتے ہوئے سنا ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام اور خطیب کے لیے اذان کے جواب کا استحباب معلوم ہوتا ہے، دوسرے لوگوں کو بھی اذان کا جواب دینا چاہیے، نیز معلوم ہوا کہ امام اگرچہ منبر پر فروکش ہو تو بھی تعلیم و تعلم کا سلسلہ جاری رکھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ شہادتین کا جواب صرف ضمیر متکلم سے بھی دیا جا سکتا ہے، چنانچہ امام ابن حبان ؒ نے اپنی صحیح میں اس کے متعلق مستقل عنوان قائم کیا ہے۔ (صحیح ابن حبان:97/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں ابو بکر بن عثمان بن سہل بن حنیف نے خبر دی، انہیں ابوامامہ بن سہل بن حنیف نے، انہوں نے کہا میں نے معاویہ بن ابی سفیان ؓ کو دیکھا آپ منبر پر بیٹھے، مؤذن نے اذان دی ''الله أكبر الله أكبر'' معاویہ ؓ نے جواب دیا ''الله أكبر الله أكبر'' مؤذن نے کہا ''أشهد أن لا إله إلا الله'' معاویہ نے جواب دیا ''وانا'' اور میں بھی توحید کی گواہی دیتا ہوں مؤذن نے کہا ''أشهد أن محمدا رسول الله'' معاویہ نے جواب دیا ''وانا'' ’’اور میں بھی محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی دیتا ہوں“ جب مؤذن اذان کہہ چکا تو آپ نے کہا حاضرین! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اسی جگہ یعنی منبر پر آپ بیٹھے تھے مؤذن نے اذان دی تو آپ یہی فرما رہے تھے جو تم نے مجھ کو کہتے سنا۔ اذان کے جواب میں سننے والے بھی وہی الفاظ کہتے جائیں جومؤذن سے سنتے ہیں، اس طرح ان کو وہی ثواب ملے گا جو مؤذن کو ملتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Umama bin Sahl bin Hunaif (RA): I heard Muawiyah bin Abi Sufyan (repeating the statements of the Adhan) while he was sitting on the pulpit. When the Muadh-dhin pronounced the Adhan saying, "Allahu-Akbar, Allahu Akbar", Muawiyah said: "Allah Akbar, Allahu Akbar." And when the Muadh-dhin said, "Ash-hadu an la ilaha illal-lah (I testify that none has the right to be worshipped but Allah)", Muawiyah said, "And (so do) I". When he said, "Ash-hadu anna Muhammadan Rasulullah" (I testify that Muhammad is Allah's Apostle) (ﷺ) , Muawiyah said, "And (so do) I". When the Adhan was finished, Muawiyah said, "O people, when the Muadh-dhin pronounced the Adhan I heard Allah's Apostle (ﷺ) on this very pulpit saying what you have just heard me saying".