Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: (to deliver) the Khutba on the pulpit)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور انس ؓ نے کہا کہ نبی کریمﷺ نے منبر پر خطبہ پڑھا۔
917.
حضرت ابوحازم بن دینار سے روایت ہے کہ کچھ لوگ حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ کے پاس آئے جنہیں رسول اللہ ﷺ کے منبر کے متعلق شک تھا کہ وہ کس لکڑی سے تیار ہوا تھا؟ انہوں نے اس کی بابت حضرت سہل ؓ سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے خوب پہچان ہے کہ وہ کس سے تیار ہوا تھا۔ میں نے اسے پہلے دن بھی دیکھا جب اسے تیار کر کے رکھا گیا تھا اور اس وقت بھی دیکھا جب اس پر پہلے دن رسول اللہ ﷺ تشریف فرما ہوئے۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک انصاری عورت کی طرف پیغام بھیجا، جس کا نام حضرت سہل ؓ نے لیا تھا لیکن میں اسے بھول گیا ہوں: ’’تم اپنے بڑھئی غلام کو کہو وہ میرے لیے لکڑیوں کا ایک منبر بنا دے تاکہ میں جب لوگوں سے مخاطب ہوں تو اس پر بیٹھا کروں۔‘‘ چنانچہ اس عورت نے اپنے غلام کو یہ حکم دیا تو وہ غابہ جنگل کے جھاؤ سے (منبر) تیار کر کے اس کے پاس لے آیا۔ اس نے وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ آپ نے حکم دیا کہ اسے اس جگہ پر رکھ دیا جائے۔ پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر نماز پڑھنا شروع کی، تکبیر تحریمہ اس پر کہی، پھر آپ نے رکوع بھی اسی پر کیا۔ پھر الٹے پاؤں نیچے اتر آئے اور منبر کی جڑ میں سجدہ کیا۔ پھر واپس منبر پر آ گئے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’لوگو! میں نے یہ سب کچھ اس لیے کیا ہے تاکہ تم میری اقتدا کرو اور میری نماز سیکھ لو۔‘‘
تشریح:
(1) بعض حضرات کا خیال ہے کہ منبر پر خطبہ دینا امیر المومنین کا حق ہے، چنانچہ ابن بطال نے لکھا ہے کہ اگر خطیب مسلمانوں کا خلیفہ ہو تو اسے چاہیے کہ منبر پر خطبہ دے، اگر اس کے علاوہ ہو تو اسے اختیار ہے منبر استعمال کرے یا زمین پر کھڑا ہو جائے۔ علامہ زین بن منیر کہتے ہیں کہ یہ بات امام بخاری ؒ کے مقصود کے برعکس ہے۔ اصل بات تو سامعین کو وعظ کرنا اور انہیں امور دین کی تعلیم دینا ہے۔ جو بھی یہ فریضہ سر انجام دے گا اسے منبر پر خطبہ دینے کی اجازت ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام اگر کوئی خلاف عادت کام کرے تو اسے چاہیے کہ عامۃ الناس کے سامنے اس کی وضاحت کر دے تاکہ شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں۔ (فتح الباري:514/2) (3) اس روایت میں تکبیر تحریمہ کے بعد قراءت کرنے اور رکوع کے بعد کھڑے ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ اس قسم کی تفصیل ابو حازم سے سفیان نے بیان کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کہا، پھر قراءت فرمائی، اس کے بعد رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنے سر کو اٹھایا، اس کے بعد الٹے پاؤں واپس ہوئے۔ اس کے علاوہ طبرانی کی روایت یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے خطبہ دیا، پھر تکبیر کہی گئی تو آپ نے منبر پر ہی تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز کا آغاز فرمایا۔ (المعجم الکبیر للطبراني:134/6، حدیث:5752) اس روایت سے پتہ چلا کہ خطبہ نماز سے پہلے ہے۔ (فتح الباري:514/2) امام ابن حزم نے اس نماز کو نفل قرار دیا ہے لیکن طبرانی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے منبر پر جمعے کا خطبہ دیا، پھر نماز جمعہ ادا فرمائی تھی۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
904
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
917
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
917
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
917
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس معلق روایت کو کتاب الفتن (حدیث: 7089) اور کتاب الاعتصام (حدیث: 7294) میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔
اور انس ؓ نے کہا کہ نبی کریمﷺ نے منبر پر خطبہ پڑھا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوحازم بن دینار سے روایت ہے کہ کچھ لوگ حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ کے پاس آئے جنہیں رسول اللہ ﷺ کے منبر کے متعلق شک تھا کہ وہ کس لکڑی سے تیار ہوا تھا؟ انہوں نے اس کی بابت حضرت سہل ؓ سے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے خوب پہچان ہے کہ وہ کس سے تیار ہوا تھا۔ میں نے اسے پہلے دن بھی دیکھا جب اسے تیار کر کے رکھا گیا تھا اور اس وقت بھی دیکھا جب اس پر پہلے دن رسول اللہ ﷺ تشریف فرما ہوئے۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک انصاری عورت کی طرف پیغام بھیجا، جس کا نام حضرت سہل ؓ نے لیا تھا لیکن میں اسے بھول گیا ہوں: ’’تم اپنے بڑھئی غلام کو کہو وہ میرے لیے لکڑیوں کا ایک منبر بنا دے تاکہ میں جب لوگوں سے مخاطب ہوں تو اس پر بیٹھا کروں۔‘‘ چنانچہ اس عورت نے اپنے غلام کو یہ حکم دیا تو وہ غابہ جنگل کے جھاؤ سے (منبر) تیار کر کے اس کے پاس لے آیا۔ اس نے وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ آپ نے حکم دیا کہ اسے اس جگہ پر رکھ دیا جائے۔ پھر میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے اس پر نماز پڑھنا شروع کی، تکبیر تحریمہ اس پر کہی، پھر آپ نے رکوع بھی اسی پر کیا۔ پھر الٹے پاؤں نیچے اتر آئے اور منبر کی جڑ میں سجدہ کیا۔ پھر واپس منبر پر آ گئے۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا: ’’لوگو! میں نے یہ سب کچھ اس لیے کیا ہے تاکہ تم میری اقتدا کرو اور میری نماز سیکھ لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) بعض حضرات کا خیال ہے کہ منبر پر خطبہ دینا امیر المومنین کا حق ہے، چنانچہ ابن بطال نے لکھا ہے کہ اگر خطیب مسلمانوں کا خلیفہ ہو تو اسے چاہیے کہ منبر پر خطبہ دے، اگر اس کے علاوہ ہو تو اسے اختیار ہے منبر استعمال کرے یا زمین پر کھڑا ہو جائے۔ علامہ زین بن منیر کہتے ہیں کہ یہ بات امام بخاری ؒ کے مقصود کے برعکس ہے۔ اصل بات تو سامعین کو وعظ کرنا اور انہیں امور دین کی تعلیم دینا ہے۔ جو بھی یہ فریضہ سر انجام دے گا اسے منبر پر خطبہ دینے کی اجازت ہے۔ امام بخاری ؒ کا مقصود بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام اگر کوئی خلاف عادت کام کرے تو اسے چاہیے کہ عامۃ الناس کے سامنے اس کی وضاحت کر دے تاکہ شکوک و شبہات پیدا نہ ہوں۔ (فتح الباري:514/2) (3) اس روایت میں تکبیر تحریمہ کے بعد قراءت کرنے اور رکوع کے بعد کھڑے ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ اس قسم کی تفصیل ابو حازم سے سفیان نے بیان کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ أکبر کہا، پھر قراءت فرمائی، اس کے بعد رکوع کیا، پھر رکوع سے اپنے سر کو اٹھایا، اس کے بعد الٹے پاؤں واپس ہوئے۔ اس کے علاوہ طبرانی کی روایت یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پہلے خطبہ دیا، پھر تکبیر کہی گئی تو آپ نے منبر پر ہی تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز کا آغاز فرمایا۔ (المعجم الکبیر للطبراني:134/6، حدیث:5752) اس روایت سے پتہ چلا کہ خطبہ نماز سے پہلے ہے۔ (فتح الباري:514/2) امام ابن حزم نے اس نماز کو نفل قرار دیا ہے لیکن طبرانی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے منبر پر جمعے کا خطبہ دیا، پھر نماز جمعہ ادا فرمائی تھی۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے منبر پر خطبہ دیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبد الرحمن بن محمد بن عبداللہ بن عبد القاری قرشی اسکندرانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ کچھ لوگ حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ کے پاس آئے۔ ان کا آپس میں اس پراختلاف تھا کہ منبر نبوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی لکڑی کس درخت کی تھی۔ اس لیے سعد ؓ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا آپ نے فرمایا خدا گواہ ہے میں جانتا ہوں کہ منبر نبوی کس لکڑی کا تھا۔ پہلے دن جب وہ رکھا گیا اور سب سے پہلے جب اس پر رسول اللہ ﷺ بیٹھے تو میں اس کو بھی جانتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے انصار کی فلاں عورت کے پاس جن کا حضرت سعد ؓ نے نام بھی بتا یا تھا۔ آدمی بھیجا کہ وہ اپنے بڑھئی غلام سے میرے لیے لکڑی جوڑ دینے کے لیے کہیں۔ تاکہ جب مجھے لوگوں سے کچھ کہنا ہوتو اس پر بیٹھا کروں چنانچہ انہوں نے اپنے غلام سے کہا اور وہ غابہ کے جھاؤ کی لکڑی سے اسے بنا کر لایا۔ انصاری خاتون نے اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ آنحضور ﷺ نے اسے یہاں رکھوایا میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے اسی پر (کھڑے ہو کر) نماز پڑھائی۔ اسی پر کھڑے کھڑے تکبیر کہی۔ اسی پر رکوع کیا۔ پھر الٹے پاؤں لوٹے اور منبر کی جڑ میں سجدہ کیا اور پھر دوبارہ اسی طرح کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو خطاب فرمایا۔ لوگو! میں نے یہ اس لیے کیا کہ تم میری پیروی کرو اور میری طرح نماز پڑھنی سیکھ لو۔
حدیث حاشیہ:
یعنی کھڑے کھڑے ان لکڑیوں پر وعظ کہا کروں جب بیٹھنے کی ضرورت ہو تو ان پر بیٹھ جاؤں۔ پس ترجمہ باب نکل آیا بعضوں نے کہا کہ امام بخاری ؒ نے یہ حدیث لا کر اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو طبرانی نے نکالا کہ آپ نے اس منبر پر خطبہ پڑھا۔ غابہ نامی ایک گاؤں مدینہ کے قریب تھا وہاں جھاؤ کے درخت بہت تھے۔ آپ اس لیے الٹے پاؤں اترے تاکہ منہ قبلہ ہی کی طرف رہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hazim bin Dinar (RA): Some people went to Sahl bin Sad As-Sa'idi (RA) and told him that they had different opinions regarding the wood of the pulpit. They asked him about it and he said, "By Allah, I know of what wood the pulpit was made, and no doubt I saw it on thy very first day when Allah's Apostle (ﷺ) I took his seat on it. Allah's Apostle (ﷺ) sent for such and such an Ansari woman (and Sahl mentioned her name) and said to her, 'Order your slave-carpenter to prepare for me some pieces of wood (i.e. pulpit) on which I may sit at the time of addressing the people.' So she ordered her slave-carpenter and he made it from the tamarisk of the forest and brought it (to the woman). The woman sent that (pulpit) to Allah's Apostle (ﷺ) who ordered it to be placed here. Then I saw Allah's Apostle (ﷺ) praying on it and then bowed on it. Then he stepped back, got down and prostrated on the ground near the foot of the pulpit and again ascended the pulpit. After finishing the prayer he faced the people and said, 'I have done this so that you may follow me and learn the way I pray.'"