Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: (to deliver) the Khutba on the pulpit)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور انس ؓ نے کہا کہ نبی کریمﷺ نے منبر پر خطبہ پڑھا۔
918.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ مسجد میں ایک کھجور کا تنا تھا جس پر ٹیک لگا کر نبی ﷺ کھڑے ہوتے تھے۔ جب آپ کے لیے منبر رکھا گیا تو ہم نے اس تنے سے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی کے بلبلا نے جیسی آواز سنی۔ آخرکار نبی ﷺ منبر سے اترے اور اس تنے پر اپنا دست مبارک رکھا۔ سلیمان بن بلال نے بھی یحییٰ بن سعید سے اسی طرح بیان کیا ہے (تاہم انہوں نے ابن انس کا نام بھی ذکر کیا ہے)۔
تشریح:
(1) صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب اس تنے پر ہاتھ رکھا تو اسے سکون آ گیا اور اس نے رونا بند کر دیا۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3585) ایک روایت میں اس کے رونے کی وجہ بھی بیان ہوئی ہے کہ وہ اللہ کا ذکر سنا کرتا تھا جس سے وہ محروم ہو گیا۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3584) لیکن سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی جدائی کی وجہ سے اس پر لرزہ طاری ہو گیا اور اس طرح رونے لگا جس طرح گم شدہ بچے والی اونٹنی روتی ہے۔ اس کی مکمل وضاحت ہم کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام میں کریں گے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس روایت سے منبر پر خطبہ دینا ثابت کیا ہے جس کی صراحت حدیث: 3584 اور 3585 میں ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
905
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
918
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
918
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
918
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس معلق روایت کو کتاب الفتن (حدیث: 7089) اور کتاب الاعتصام (حدیث: 7294) میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔
اور انس ؓ نے کہا کہ نبی کریمﷺ نے منبر پر خطبہ پڑھا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ مسجد میں ایک کھجور کا تنا تھا جس پر ٹیک لگا کر نبی ﷺ کھڑے ہوتے تھے۔ جب آپ کے لیے منبر رکھا گیا تو ہم نے اس تنے سے دس ماہ کی حاملہ اونٹنی کے بلبلا نے جیسی آواز سنی۔ آخرکار نبی ﷺ منبر سے اترے اور اس تنے پر اپنا دست مبارک رکھا۔ سلیمان بن بلال نے بھی یحییٰ بن سعید سے اسی طرح بیان کیا ہے (تاہم انہوں نے ابن انس کا نام بھی ذکر کیا ہے)۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب اس تنے پر ہاتھ رکھا تو اسے سکون آ گیا اور اس نے رونا بند کر دیا۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3585) ایک روایت میں اس کے رونے کی وجہ بھی بیان ہوئی ہے کہ وہ اللہ کا ذکر سنا کرتا تھا جس سے وہ محروم ہو گیا۔ (صحیح البخاري، المناقب، حدیث:3584) لیکن سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی جدائی کی وجہ سے اس پر لرزہ طاری ہو گیا اور اس طرح رونے لگا جس طرح گم شدہ بچے والی اونٹنی روتی ہے۔ اس کی مکمل وضاحت ہم کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام میں کریں گے۔ (2) امام بخاری ؒ نے اس روایت سے منبر پر خطبہ دینا ثابت کیا ہے جس کی صراحت حدیث: 3584 اور 3585 میں ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے منبر پر خطبہ دیا۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یحیٰ بن سعید نے خبر دی، کہا کہ مجھے حفص بن عبد اللہ بن انس نے خبر دی، انہوں نے جابر بن عبد اللہ ؓ سے سنا کہ ایک کھجور کا تنا تھا جس پر نبی کریم ﷺ ٹیک لگا کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ جب آپ کے لیے منبر بن گیا (آپ نے اس تنے پر ٹیک نہیں لگایا) تو ہم نے اس سے رونے کی آواز سنی جیسے دس مہینے کی گابھن اونٹنی آواز کرتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے منبر سے اتر کر اپنا ہاتھ اس پر رکھا (تب وہ آواز موقوف ہوئی) اور سلیمان نے یحییٰ سے یوں حدیث بیان کی کہ مجھے حفص بن عبید اللہ بن انس نے خبر دی اور انہوں نے جابر سے سنا۔
حدیث حاشیہ:
سلیمان کی روایت کو خود امام بخاری ؒ نے علامات النبوة میں نکالا اس حدیث میں انس کے بیٹے کا نام مذکور ہے۔ یہ لکڑی آنحضرت ﷺ کی جدائی میں رونے لگی جب آپ نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو اس کو تسلی ہو گئی کیا مومنوں کو اس لکڑی کے برابر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں۔ جو آپ کے کلام پر دوسروں کی رائے اور قیاس کو مقدم سمجھتے ہیں (مولانا وحید الزماں مرحوم) آنحضرت ﷺ کی جدائی میں اس لکڑی کا رونا یہ معجزات نبوی میں سے ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): The Prophet (ﷺ) used to stand by a stem of a date-palm tree (while delivering a sermon). When the pulpit was placed for him we heard that stem crying like a pregnant she-camel till the Prophet (ﷺ) got down from the pulpit and placed his hand over it.