Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: To listen to the Khutba (religious talk) on Friday)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
929.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب جمعے کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں، پہلے اور اس کے بعد آنے والوں کے ثواب کو لکھتے رہتے ہیں۔ صبح سویرے آنے والے کو اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح، اس کے بعد گائے ذبح کرنے والے کی مثل، پھر مینڈھا قربانی کرنے والے کی طرح، اس کے بعد مرغی اور اس کے بعد انڈا اللہ کی راہ میں دینے کا ثواب ملتا ہے لیکن جب امام خطبے کے لیے برآمد ہوتا ہے تو فرشتے اپنے دفاتر لپیٹ کر ذکر الہٰی سننے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔‘‘
تشریح:
(1) شاہ ولی اللہ ؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے مطابق فرشتے غور اور توجہ سے خطبۂ جمعہ سنتے ہیں دیگر لوگوں کو بطریق اولی کان لگا کر سننا چاہیے، کیونکہ انسان کو عبادت کے لیے مکلف قرار دیا گیا ہے جبکہ فرشتے اللہ کی عبادت کے مکلف نہیں ہیں۔ (2) حاضرین کو کب گفتگو سے باز رہنا چاہیے؟ حدیث سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جب امام خطبہ شروع کرے تو لوگوں کا گفتگو وغیرہ میں مصروف ہونا ناجائز ہے، کیونکہ بغور سننے کی تاکید آغاز خطبہ کے بعد ہو سکتی ہے جبکہ احناف کا موقف ہے کہ جب امام برآمد ہو تو اس وقت گفتگو میں مصروف ہونا ناجائز ہے۔ اس سلسلے میں ایک ضعیف حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جس کی اسنادی حیثیت ہم آئندہ بیان کریں گے۔ (فتح الباري:523/2) اس حدیث کے پیش نظر خطبۂ جمعہ سننا واجب ہے، البتہ امام بوقت ضرورت دوران خطبہ میں کسی کو کوئی بات یا کام کہہ سکتا ہے، اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
916
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
929
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
929
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
929
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب جمعے کا دن ہوتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں، پہلے اور اس کے بعد آنے والوں کے ثواب کو لکھتے رہتے ہیں۔ صبح سویرے آنے والے کو اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح، اس کے بعد گائے ذبح کرنے والے کی مثل، پھر مینڈھا قربانی کرنے والے کی طرح، اس کے بعد مرغی اور اس کے بعد انڈا اللہ کی راہ میں دینے کا ثواب ملتا ہے لیکن جب امام خطبے کے لیے برآمد ہوتا ہے تو فرشتے اپنے دفاتر لپیٹ کر ذکر الہٰی سننے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) شاہ ولی اللہ ؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے مطابق فرشتے غور اور توجہ سے خطبۂ جمعہ سنتے ہیں دیگر لوگوں کو بطریق اولی کان لگا کر سننا چاہیے، کیونکہ انسان کو عبادت کے لیے مکلف قرار دیا گیا ہے جبکہ فرشتے اللہ کی عبادت کے مکلف نہیں ہیں۔ (2) حاضرین کو کب گفتگو سے باز رہنا چاہیے؟ حدیث سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جب امام خطبہ شروع کرے تو لوگوں کا گفتگو وغیرہ میں مصروف ہونا ناجائز ہے، کیونکہ بغور سننے کی تاکید آغاز خطبہ کے بعد ہو سکتی ہے جبکہ احناف کا موقف ہے کہ جب امام برآمد ہو تو اس وقت گفتگو میں مصروف ہونا ناجائز ہے۔ اس سلسلے میں ایک ضعیف حدیث بھی پیش کی جاتی ہے جس کی اسنادی حیثیت ہم آئندہ بیان کریں گے۔ (فتح الباري:523/2) اس حدیث کے پیش نظر خطبۂ جمعہ سننا واجب ہے، البتہ امام بوقت ضرورت دوران خطبہ میں کسی کو کوئی بات یا کام کہہ سکتا ہے، اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبد الرحمن بن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوعبداللہ سلیمان اغرنے، ان سے ابو ہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر آنے والوں کے نام لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح پھر مینڈھے کی قربانی کا ثواب رہتا ہے۔ اس کے بعد مرغی کا، اس کے بعد انڈے کا۔ لیکن جب امام (خطبہ دینے کے لیے) باہر آجاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بہ سلسلہ ذکر ثواب مختلف جانوروں کے ساتھ مرغی اور انڈے کا بھی ذکر ہے۔ اس کے متعلق حضرت مولانا شیخ الحدیث عبید اللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں: والمشکل ذکر الدجاجة والبیضة لأن الھدي لا یکون منھما وأجیب بأنه من باب المشاکلة أي من تسمیة الشيئ باسم قرینة والمراد بلإھداءھنا التصدق لما دل علیه لفظ قرب في روایة أخریٰ وھو یجوز بھما۔(مرعاة ج:2ص293)یعنی مرغی اور انڈے کا بھی ذکر آیا حالانکہ ان کی قربانی نہیں ہوتی، اس کا جواب دیا گیا کہ یہاں یہ ذکر باب مشاکلہ میں ہے یعنی کسی چیز کا ایسا نام رکھ دینا جو اس کے قرین کا نام ہو یہاں قربانی سے مراد صدقہ کرنا ہے جس پر بعض روایات میں آمدہ لفظ قرب دلالت کرتا ہے اور قربت میں رضائے الہی حاصل کرنے کے لیے ان ہر دو چیزوں کو بھی خیرات میں دیا جا سکتا ہے۔ حضرت امام المحدثین نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا کہ نمازیوں کو خطبہ کان لگا کر سننا چاہیے کیونکہ فرشتے بھی کان لگا کرخطبہ سنتے ہیں۔ شافعیہ کے نزدیک خطبہ کی حالت میں کلام کرنا مکروہ ہے لیکن حرام نہیں ہے۔ حنفیہ کے نزدیک خطبے کے وقت نماز اور کلام دونوں منع ہیں۔ بعضوں نے کہا کہ دنیا کا بے کار کلام منع ہے مگر ذکر یا دعا منع نہیں ہے اور امام احمد ؒ کا یہ قول ہے کہ جو خطبہ سنتا ہو یعنی خطبہ کی آواز اس کو پہنچتی ہو اس کو منع ہے جو نہ سنتا ہو اس کو منع نہیں۔ شوکانی نے اہلحدیث کا مذہب یہ لکھا ہے کہ خطبے کے وقت خاموش رہے۔ سید علامہ نے کہا تحیۃ المسجد مستثنیٰ ہے جو شخص مسجد میں آئے اور خطبہ ہو رہا ہو تو دو رکعت تحیۃ المسجد کی پڑھ لے۔ اسی طرح امام کا کسی ضرورت سے بات کرنا جیسے صحیح احادیث میں وارد ہے۔ مسلم کی روایت میں یہ زیادہ ہے کہ (تحیۃ المسجد) کی ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھ لے۔ یہی اہلحدیث اور امام احمد کی دلیل ہے کہ خطبہ کی حالت میں تحیۃ المسجد پڑھ لینا چاہیے۔ حدیث سے یہ نکلا کہ امام خطبہ کی حالت میں ضرورت سے بات کر سکتا ہے اور یہی ترجمہ باب ہے۔ ہلکی پھلکی کا مطلب یہ کہ قرات کو طول نہ دے۔ یہ مطلب نہیں کہ جلدی جلدی پڑھ لے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): The Prophet (ﷺ) said, "When it is a Friday, the angels stand at the gate of the mosque and keep on writing the names of the persons coming to the mosque in succession according to their arrivals. The example of the one who enters the mosque in the earliest hour is that of one offering a camel (in sacrifice). The one coming next is like one offering a cow and then a ram and then a chicken and then an egg respectively. When the Imam comes out (for Jumua prayer) they (i.e. angels) fold their papers and listen to the Khutba."