Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: One should keep quiet and listen while the Imam is delivering the Khutba)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور یہ بھی لغو حرکت ہے کہ اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص سے کوئی کہے کہ ”چپ رہ“ سلمان فارسیؓ نے بھی نبی کریمﷺسے نقل کیا کہ امام جب خطبہ شروع کرے تو خاموش ہو جانا چاہیے۔
934.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تو نے دوران خطبہ میں اپنے ساتھی سے کہہ دیا کہ خاموش رہ، تو نے لغو اور بے ہودہ بات کی۔‘‘
تشریح:
(1) کسی انسان کو دوران خطبہ میں موذی جانور سے خبردار کرنا یا کسی نابینے انسان کی رہنمائی کرنا اس نہی میں شامل نہیں، تاہم بہتر ہے کہ ایسے حالات میں بھی ممکن حد تک اشارے سے کام لیا جائے۔ (2) لغو کے معنی لایعنی کام میں مشغول ہونے کے ہیں۔ (3) دوران خطبہ میں بات کرنے والے کو اشارے سے بھی روکا جا سکتا ہے، اس لیے زبانی روکنا ایک لغو اور بے فائدہ حرکت ہے۔ حدیث میں دوران خطبہ بات کرنے یا گفتگو کرنے والے کو خاموش کرانے کی سخت ممانعت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو کسی کو خاموش رہنے کی تلقین کرتا ہے اس کا جمعہ نہیں ہوتا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ایسے شخص کو جمعہ کے ثواب سے محروم کر دیا جاتا ہے، تاہم فرض کی ادائیگی اس سے ساقط ہو جائے گی۔ (فتح الباري:533/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
921
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
934
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
934
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
934
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
خطبۂ جمعہ کے متعلق دو حکم ہیں: ٭ استماع، یعنی اسے بغور سماعت کرنا۔ ٭ انصات، یعنی اس دوران میں خاموشی اختیار کرنا۔ اور یہ دونوں باتیں ہی مطلوب ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بسا اوقات استماع تو ہوتا ہے مگر مستمع دوران استماع میں کچھ بول بھی دیتا ہے اگرچہ اس کا کان متکلم کی طرف لگا ہوتا ہے اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ خاموش رہتا ہے مگر استماع نہیں ہوتا، یعنی کان نہیں لگاتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے خطبۂ جمعہ کے لیے استماع اور انصات دونوں کا حکم دیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے استماع اور انصات کے متعلق دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ استماع نزدیک والے کے لیے اور انصات دور والے کے لیے ہے جس تک خطبے کی آواز نہیں پہنچ رہی، یعنی جسے خطیب کی آواز نہیں پہنچ رہی اسے بھی خاموشی اختیار کرنے کا حکم ہے۔ والإمام يخطب کے الفاظ بڑھا کر امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک اور اختلاف کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ انصات کب واجب ہے؟ کلامِ امام کے وقت یا خروج امام کے وقت۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کلام امام قاطع کلام ہے، یعنی جب تک امام خطبے کا آغاز نہ کرے حاضرین کو کلام کی اجازت ہے لیکن جب خطبہ شروع کر دے گا تو سامعین کو گفتگو کی اجازت نہیں ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ فوراً خاموش ہو جائیں۔ حدیث میں ہے کہ اگر کوئی جمعہ کے دن دوران خطبہ اپنے ساتھی کو خاموشی اختیار کرنے کے متعلق کہتا ہے تو وہ لغو اور بے ہودہ بات کرتا ہے۔ (سنن النسائی،الجمعۃ،حدیث:1402) حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے (حدیث: 883 میں) متصل سند سے بیان کیا ہے، یعنی جو انسان جمعہ کے دن اپنے گھر سے غسل کر کے آتا ہے، پھر خوشبو اور تیل بھی استعمال کرتا ہے، مسجد میں کسی کی گردن نہیں پھلانگتا، پھر جس قدر میسر ہو نماز پڑھتا ہے اور دوران خطبہ میں خاموشی اختیار کرتا ہے تو اس کے پچھلے جمعہ تک گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ امام ابن خزیمہ نے لکھا ہے کہ انصات سے مراد لوگوں سے گفتگو کے متعلق خاموشی اختیار کرتا ہے، اللہ کا ذکر اسے شامل نہیں لیکن یہ بات درست نہیں کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ دورانِ خطبہ میں قراءت قرآن اور ذکر الٰہی ہو سکتا ہے، حالانکہ الفاظ کے ظاہر کا تقاضا تو انصات سے مراد مطلق طور پر خاموشی اختیار کرنا ہے۔ جو مذکورہ بالا فرق کرتا ہے اسے دلیل پیش کرنی چاہیے، اور خاص دلیل کی بنا پر تحیۃ المسجد کے جواز سے مطلق ذکر کا جواز کشید نہیں کیا جا سکتا۔ (فتح الباری:2/533)
اور یہ بھی لغو حرکت ہے کہ اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص سے کوئی کہے کہ ”چپ رہ“ سلمان فارسیؓ نے بھی نبی کریمﷺسے نقل کیا کہ امام جب خطبہ شروع کرے تو خاموش ہو جانا چاہیے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تو نے دوران خطبہ میں اپنے ساتھی سے کہہ دیا کہ خاموش رہ، تو نے لغو اور بے ہودہ بات کی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) کسی انسان کو دوران خطبہ میں موذی جانور سے خبردار کرنا یا کسی نابینے انسان کی رہنمائی کرنا اس نہی میں شامل نہیں، تاہم بہتر ہے کہ ایسے حالات میں بھی ممکن حد تک اشارے سے کام لیا جائے۔ (2) لغو کے معنی لایعنی کام میں مشغول ہونے کے ہیں۔ (3) دوران خطبہ میں بات کرنے والے کو اشارے سے بھی روکا جا سکتا ہے، اس لیے زبانی روکنا ایک لغو اور بے فائدہ حرکت ہے۔ حدیث میں دوران خطبہ بات کرنے یا گفتگو کرنے والے کو خاموش کرانے کی سخت ممانعت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جو کسی کو خاموش رہنے کی تلقین کرتا ہے اس کا جمعہ نہیں ہوتا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ ایسے شخص کو جمعہ کے ثواب سے محروم کر دیا جاتا ہے، تاہم فرض کی ادائیگی اس سے ساقط ہو جائے گی۔ (فتح الباري:533/2)
ترجمۃ الباب:
جب کوئی دورانِ خطبہ اپنے ساتھی کو خاموشی اختیار کرنے کے متعلق کہتا ہے تو یقینا وہ لغو بات کرتا ہے۔ حضرت سلمان ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جب امام گفتگو کرتا ہے تو وہ خاموشی اختیار کرتا ہے۔"
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے عقیل سے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو اور تو اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہے کہ ’’چپ رہ‘‘ تو تو نے خود ایک لغو حرکت کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "When the Imam is delivering the Khutba, and you ask your companion to keep quiet and listen, then no doubt you have done an evil act."