باب: اللہ عزوجل کا (سورۃ الجمعہ میں) یہ فرمانا کہ جب جمعہ کی نماز ختم ہو جائے تو اپنے کام کاج کے لیے زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل (روزی، رزق یا علم) کو ڈھونڈو۔
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: When the Salat is ended, you may disperse through the land, and seek of the Bounty of Allah)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
939.
حضرت سہل بن سعد ؓ ہی سے روایت ہے، وہ مذکورہ حدیث کے ساتھ یہ بھی فرماتے تھے کہ ہم نماز جمعہ کے بعد ہی دوپہر کا کھانا تناول کرتے اور قیلولہ کرتے تھے۔
تشریح:
(1) چونکہ نماز جمعہ سے پہلے جمعہ کی تیاری کے لیے لوگوں کو معاش، کسب رزق اور خریدوفروخت سے روک دیا گیا تھا، جمعہ کے بعد اس کی اجازت دی گئی جیسا کہ آیت بالا میں وضاحت ہے۔ (2) بعض اہل ظاہر نے اس اجازت کو وجوب پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ جمعہ کے بعد کاروبار اور خریدوفروخت کر کے رزق تلاش کرنا ضروری ہے۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ مذکورہ آیت میں جو امر کے صیغے ہیں وہ وجوب کے لیے نہیں بلکہ اباحت کے لیے ہیں کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نماز جمعہ کے بعد اپنے آپ کو خریدوفروخت اور کاروبار میں مصروف نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے اپنے معمولات نقل کیے ہیں کہ خریدوفروخت کے بجائے وہ کھانا کھاتے اور ذکر کثیر کرنے کے بجائے وہ قیلولہ کرتے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ آیت کریمہ میں مذکورہ امر اباحت کے لیے ہے، اس پر امت کا اتفاق ہے۔ (فتح الباري:549/2) اس حدیث پر مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا گیا ہے: ’’اس شخص کی دلیل جو نماز جمعہ دن کے پہلے حصے میں جائز قرار دیتا ہے۔‘‘ اور اس حدیث سے ثابت کیا گیا ہے کہ نماز جمعہ قبل از زوال جائز ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث سے یہ موقف ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جمعہ کی تیاری اور اس کی مصروفیت کی وجہ سے دوپہر کا کھانا اور قیلولہ مؤخر کر دیتے تھے۔ اس کی وضاحت پہلے بھی ہو چکی ہے۔ (فتح الباري:550/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
926
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
939
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
939
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
939
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت سہل بن سعد ؓ ہی سے روایت ہے، وہ مذکورہ حدیث کے ساتھ یہ بھی فرماتے تھے کہ ہم نماز جمعہ کے بعد ہی دوپہر کا کھانا تناول کرتے اور قیلولہ کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) چونکہ نماز جمعہ سے پہلے جمعہ کی تیاری کے لیے لوگوں کو معاش، کسب رزق اور خریدوفروخت سے روک دیا گیا تھا، جمعہ کے بعد اس کی اجازت دی گئی جیسا کہ آیت بالا میں وضاحت ہے۔ (2) بعض اہل ظاہر نے اس اجازت کو وجوب پر محمول کیا ہے اور کہا ہے کہ جمعہ کے بعد کاروبار اور خریدوفروخت کر کے رزق تلاش کرنا ضروری ہے۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ مذکورہ آیت میں جو امر کے صیغے ہیں وہ وجوب کے لیے نہیں بلکہ اباحت کے لیے ہیں کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے نماز جمعہ کے بعد اپنے آپ کو خریدوفروخت اور کاروبار میں مصروف نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنے اپنے معمولات نقل کیے ہیں کہ خریدوفروخت کے بجائے وہ کھانا کھاتے اور ذکر کثیر کرنے کے بجائے وہ قیلولہ کرتے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ آیت کریمہ میں مذکورہ امر اباحت کے لیے ہے، اس پر امت کا اتفاق ہے۔ (فتح الباري:549/2) اس حدیث پر مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا گیا ہے: ’’اس شخص کی دلیل جو نماز جمعہ دن کے پہلے حصے میں جائز قرار دیتا ہے۔‘‘ اور اس حدیث سے ثابت کیا گیا ہے کہ نماز جمعہ قبل از زوال جائز ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث سے یہ موقف ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جمعہ کی تیاری اور اس کی مصروفیت کی وجہ سے دوپہر کا کھانا اور قیلولہ مؤخر کر دیتے تھے۔ اس کی وضاحت پہلے بھی ہو چکی ہے۔ (فتح الباري:550/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن ابی حازم نے بیان کیا اپنے باپ سے اور ان سے سہل بن سعد نے یہی بیان کیا اور فرمایا کہ دوپہر کا سونا اور دوپہر کا کھانا جمعہ کی نماز کے بعد رکھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl (RA): As above with the addition: We never had an afternoon nap nor meals except after offering the Jumua prayer.