باب: اس بارے میں کہ کوئی شخص سمجھانے کے لئے(ایک)بات کو تین مرتبہ دہرائے تو یہ ٹھیک ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Repeating ones talk thrice in order to make others understand)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے “ الاوقول الزور ” اس کو تین بار دہراتے رہے اور حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ میں نے تم کو پہنچا دیا ( یہ جملہ ) آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔
94.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ جب سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی بات فرماتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے (تاآنکہ اسے خوب سمجھ لیا جاتا۔)
تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص اوقات میں تین دفعہ سلام کرنے کا معمول تھا مثلاً کسی کے گھر آنے کی اجازت طلب کرتے تو ایسا ہوتا تھا۔ یا ایک مرتبہ اجازت کے لیے، دوسرا جب ان کے پاس جاتے اور تیسرا جب ان سے رخصت ہوتے۔ عام حالات میں تین مرتبہ سلام کرنا آپ کے معمولات سے ثابت نہیں۔ (شرح الکرماني: 86/2) ’’آگاہ رہو اور جھوٹ بولنا‘‘ پوری حدیث اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمھیں بڑے بڑے گناہوں کی خبرنہ دوں؟‘‘ ہم نے کہا: کیوں نہیں! آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا والدین کی نا فرمانی کرنا۔‘‘ (اس کے بعد) آپ سنبھل کر بیٹھ گئے جب کہ پہلے آپ نے ٹیک لگائی ہوئی تھی (اور فرمایا:)’’آگاہ رہو اور جھوٹ بولنا‘‘ اس پر آپ نے اس قدر زور دیا کہ باربار تکرار کرتے رہے حتی کہ ہم نے کہا: کاش!آپ خاموشی اختیار فرما لیں۔ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2654) اس مخصوص طرز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ تکرار کی یہ صورت ہر موقع پر نہ ہوتی تھی بلکہ کسی چیز کی اہمیت کے پیش نظر بار بار اعادہ ہوتا تھا غالباً اسی لیے آگے روایت میں(ثلاثاً) کی قید لگی ہوئی ہے یعنی جب آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ضروری نصیحتیں فرمائیں تو آخر میں تین مرتبہ فرمایا:’’کیا میں نے فریضہ تبلیغ ادا کردیا۔؟‘‘
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
94
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
94
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
94
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
94
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے “ الاوقول الزور ” اس کو تین بار دہراتے رہے اور حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ میں نے تم کو پہنچا دیا ( یہ جملہ ) آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ جب سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی بات فرماتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے (تاآنکہ اسے خوب سمجھ لیا جاتا۔)
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص اوقات میں تین دفعہ سلام کرنے کا معمول تھا مثلاً کسی کے گھر آنے کی اجازت طلب کرتے تو ایسا ہوتا تھا۔ یا ایک مرتبہ اجازت کے لیے، دوسرا جب ان کے پاس جاتے اور تیسرا جب ان سے رخصت ہوتے۔ عام حالات میں تین مرتبہ سلام کرنا آپ کے معمولات سے ثابت نہیں۔ (شرح الکرماني: 86/2) ’’آگاہ رہو اور جھوٹ بولنا‘‘ پوری حدیث اس طرح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمھیں بڑے بڑے گناہوں کی خبرنہ دوں؟‘‘ ہم نے کہا: کیوں نہیں! آپ نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ شرک کرنا والدین کی نا فرمانی کرنا۔‘‘ (اس کے بعد) آپ سنبھل کر بیٹھ گئے جب کہ پہلے آپ نے ٹیک لگائی ہوئی تھی (اور فرمایا:)’’آگاہ رہو اور جھوٹ بولنا‘‘ اس پر آپ نے اس قدر زور دیا کہ باربار تکرار کرتے رہے حتی کہ ہم نے کہا: کاش!آپ خاموشی اختیار فرما لیں۔ (صحیح البخاري، الشھادات، حدیث: 2654) اس مخصوص طرز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ تکرار کی یہ صورت ہر موقع پر نہ ہوتی تھی بلکہ کسی چیز کی اہمیت کے پیش نظر بار بار اعادہ ہوتا تھا غالباً اسی لیے آگے روایت میں(ثلاثاً) کی قید لگی ہوئی ہے یعنی جب آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ضروری نصیحتیں فرمائیں تو آخر میں تین مرتبہ فرمایا:’’کیا میں نے فریضہ تبلیغ ادا کردیا۔؟‘‘
ترجمۃ الباب:
آپ نے فرمایا: "آگاہ رہو اور جھوٹ بولنا ۔۔" ان کلمات کو بار بار دہراتے رہے۔ ابن عمر ؓ کا بیان ہے: نبی ﷺنے تین مرتبہ یہ فرمایا: "کیا میں نے فریضہ تبلیغ ادا کر دیا؟"
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدہ نے بیان کیا، ان سے عبدالصمد نے، ان سے عبداللہ بن مثنی نے، ان سے ثمامہ بن عبداللہ بن انس نے، ان سے حضرت انس ؓ نے بیان کیا، وہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی کلمہ ارشاد فرماتے تو اسے تین بار دہراتے یہاں تک کہ خوب سمجھ لیا جاتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Whenever the Prophet (ﷺ) asked permission to enter, he knocked the door thrice with greeting and whenever he spoke a sentence (said a thing) he used to repeat it thrice.