Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: The afternoon nap after the Jumu'ah (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
941.
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ نمازِ جمعہ پڑھتے تھے پھر ہمارا قیلولہ ہوتا تھا۔
تشریح:
(1) ان احادیث کی اپنے عنوان سے مطابقت ظاہر ہے کیونکہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نماز جمعہ کے بعد قیلولہ کیا کرتے تھے اور اول وقت نماز جمعہ کے لیے گھروں سے روانہ ہو جاتے تھے، لفظ تبکیر کے یہی معنی ہیں کہ کسی کام کے لیے جلدی کرنا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوپہر کے وقت سونا پسندیدہ امر ہے، خود اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن پاک میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ ﴾’’اور ظہر کے وقت جب تم (آرام کرنے کے لیے) اپنے کپڑے اتارتے ہو۔‘‘(النور58:24) اس آیت میں قیلولہ کرنے کا بیان ہے۔ (عمدة القاري:131/5) (2) براعت الاختتام! قیلولے کا حکم تو حدیث انس میں آ چکا تھا لیکن امام بخاری ؒ نے حدیث سہل ؓ بیان کی ہے اور اس کے آخر میں (ثم تكون القائلة) کے الفاظ سے براعت الاختتام کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ کتاب کے اختتام پر ایسا لفظ بیان کرتے ہیں جس سے آخرت اور موت کی یاد دہانی ہو، چنانچہ مشہور ہے کہ نیند، موت کی بہن ہے، اس طرح امام بخاری ؒ نے موت کے لیے تیار رہنے کی تنبیہ فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت میں سرخ رو کرے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ آمین
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
928
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
941
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
941
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
941
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ نمازِ جمعہ پڑھتے تھے پھر ہمارا قیلولہ ہوتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث کی اپنے عنوان سے مطابقت ظاہر ہے کیونکہ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نماز جمعہ کے بعد قیلولہ کیا کرتے تھے اور اول وقت نماز جمعہ کے لیے گھروں سے روانہ ہو جاتے تھے، لفظ تبکیر کے یہی معنی ہیں کہ کسی کام کے لیے جلدی کرنا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوپہر کے وقت سونا پسندیدہ امر ہے، خود اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن پاک میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ ﴾’’اور ظہر کے وقت جب تم (آرام کرنے کے لیے) اپنے کپڑے اتارتے ہو۔‘‘(النور58:24) اس آیت میں قیلولہ کرنے کا بیان ہے۔ (عمدة القاري:131/5) (2) براعت الاختتام! قیلولے کا حکم تو حدیث انس میں آ چکا تھا لیکن امام بخاری ؒ نے حدیث سہل ؓ بیان کی ہے اور اس کے آخر میں (ثم تكون القائلة) کے الفاظ سے براعت الاختتام کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ کتاب کے اختتام پر ایسا لفظ بیان کرتے ہیں جس سے آخرت اور موت کی یاد دہانی ہو، چنانچہ مشہور ہے کہ نیند، موت کی بہن ہے، اس طرح امام بخاری ؒ نے موت کے لیے تیار رہنے کی تنبیہ فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت میں سرخ رو کرے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ آمین
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو غسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو حازم نے سہل بن سعد ؓ سے بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ جمعہ پڑھتے، پھر دوپہر کی نیند لیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:وَظَاهِرُ ذَلِكَ أَنَّهُمْ كَانُوا يُصَلُّونَ الْجُمُعَةَ بَاكِرَ النَّهَارِ.قَالَ الْحَافِظُ: لَكِنَّ طَرِيقَ الْجَمْعِ أَوْلَى مِنْ دَعْوَى التَّعَارُضِ، وَقَدْ تَقَرَّرَ أَنَّ التَّبْكِيرَ يُطْلَقُ عَلَى فِعْلِ الشَّيْءِ فِي أَوَّلِ وَقْتِهِ أَوْ تَقْدِيمِهِ عَلَى غَيْرِهِ وَهُوَ الْمُرَادُ هُنَا. وَالْمَعْنَى: أَنَّهُمْ كَانُوا يَبْدَءُونَ بِالصَّلَاةِ قَبْلَ الْقَيْلُولَةِ، بِخِلَافِ مَا جَرَتْ بِهِ عَادَتُهُمْ فِي صَلَاةِ الظُّهْرِ فِي الْحَرِّ، فَإِنَّهُمْ كَانُوا يَقِيلُونَ ثُمَّ يُصَلُّونَ لِمَشْرُوعِيَّةِ الْإِبْرَادِ اهـ. وَالْمُرَادُ بِالْقَائِلَةِ الْمَذْكُورَةِ فِي الْحَدِيثِ: نَوْمَ نِصْفِ النَّهَارِ قَوْلُهُ۔(نیل الأوطار)یعنی ظاہر یہ کہ وہ صحابی کرام جمعہ کی نماز چڑھتے ہوئے دن میں ادا کرلیتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تعارض پیدا کرنے سے بہتر ہے کہ ہردو قسم کی احادیث میں تطبیق دی جائے اور یہ مقرر ہو چکا ہے کہ تبکیر کا لفظ کسی کام کو اس کے اول وقت میں کرنے یا غیر پر اسے مقدم کرنے پو بولا جاتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز روزانہ کی عادت قیلولہ کے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے حالانکہ گرمیوں میں ان کی عادت تھی کہ وہ ٹھنڈا کرنے کے خیال سے پہلے قیلولہ کرتے بعد میں ظہر کی نماز پڑھتے مگر جمعہ کی نماز بعض دفعہ خلاف عادت قیلولہ سے پہلے ہی پڑھ لیا کرتے تھے، قیلولہ دوپہر کے سونے پر بولا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کو بعد زوال اول وقت پڑھنا ان روایات کا مطلب اور منشا ہے۔ اس طرح جمعہ اول وقت اورآخر وقت ہر دو میں پڑھا جا سکتا ہے بعض حضرات قبل زوال بھی جمعہ کے قائل ہیں۔ مگر ترجیح بعد زوال ہی کو ہے اور یہی امام بخاری ؒ کا مسلک معلوم ہوتا ہے۔ ایک طویل تفصیل کے بعد حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث ؒ فرماتے ہیں: وقد ظهر بما ذكرنا أنه ليس في صلاة الجمعة قبل الزوال حديث صحيح صريح. فالقول الراجح هو ما قال به الجمهور. قال شيخنا في شرح الترمذي: والظاهر المعول عليه هو ما ذهب إليه الجمهور من أنه لا تجوز الجمعة إلا بعد زوال الشمس. وأما ما ذهب إليه بعضهم من أنها تجوز قبل الزوال فليس فيه حديث صريح انتھیٰ۔ (مرعاة ج:2 ص:203)خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ زوال سے پہلے درست نہیں اسی قول کو ترجیح حاصل ہے۔ زوال سے پہلے جمعہ کے صحیح ہونے میں کوئی حدیث صحیح صریح وارد نہیں ہوئی پس جمہور ہی کا مسلک صحیح ہے۔(واللہ أعلم با لصواب)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl (RA): We used to offer the Jumua prayer with the Prophet (ﷺ) and then take the afternoon nap.