باب: خوف کی نماز پیدل اور سوار رہ کر پڑھنا قرآن شریف میں «رجالا»، «راجل» کی جمع ہے (یعنی پاپیادہ)۔
)
Sahi-Bukhari:
Fear Prayer
(Chapter: The Salat-ul-Khauf while standing or riding)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
943.
حضرت نافع سے روایت ہے، وہ حضرت ابن عمر ؓ سے مجاہد کے قول کی طرح بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں کی دشمن سے مڈبھیڑ ہو جائے تو کھڑے کھڑے ہی نماز پڑھ لیں۔ البتہ حضرت ابن عمر ؓ نے نبی ﷺ سے یہ اضافہ بیان کیا ہے: ’’اگر دشمن زیادہ ہوں تو مسلمان کھڑے کھڑے یا سوار ہو کر، یعنی جس طرح بھی ممکن ہو سکے نماز پڑھیں۔‘‘
تشریح:
(1) حضرت نافع ایک دوسرے مقام پر وضاحت کرتے ہیں کہ جب حضرت ابن عمر ؓ سے نماز خوف کے متعلق سوال کیا جاتا تو آپ نماز خوف کے طریقے سے آگاہ فرماتے، نیز کہتے کہ اگر حالات زیادہ سنگین ہوں تو لوگ پا پیادہ کھڑے کھڑے نماز پڑھیں گے اور اگر سوار ہوں تو اپنی سواریوں پر اسے ادا کریں گے، خواہ اس وقت قبلے کی جانب منہ ہو سکے یا نہ ہو سکے۔ حضرت نافع نے کہا مجھے اطمینان ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ ہی سے استفادہ کر کے بیان کی ہو گی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4535) (2) امام بخاری ؒ نے اس مقام پر مجاہد کے حوالے سے اس روایت کو بیان کیا ہے لیکن مجاہد کی بات کو کسی جگہ پر بیان نہیں کیا، اس لیے موجودہ عبارت کے مفہوم میں اختلاف پیدا ہوا، البتہ علامہ اسماعیلی نے مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ جب دشمن سے مڈبھیڑ (مقابلہ) ہو جائے تو سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح حضرت ابن عمر ؓ کا قول بھی مجاہد کی طرح بیان ہوا ہے کہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو جائے تو زبان سے ذکر اور سر کے اشارے سے نماز ادا کی جائے، جیسا کہ ابن عمر ؓ سے منقول ہے، البتہ ان دونوں کے اقوال میں فرق یہ ہے کہ حضرت مجاہد نے اپنی رائے کی بنیاد پر یہ موقف اختیار کیا ہے جبکہ حضرت ابن عمر ؓ کا موقف، رسول اللہ ﷺ سے مروی حدیث کی بنا پر ہے۔ امام بخاری ؒ کی بیان کردہ روایت کی تشریح امام ابن بطال نے صحیح طور پر کی ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ (عمدة القاري:140/5) (3) حافظ ابن حجرؒ نے إذا اختلطوا قياما میں لفظ قياما کو تصحیف قرار دیا ہے، وہ فرماتے ہیں دراصل یہ لفظ إنما ہے، کیونکہ روایات میں (إذا اختلطوا فإنما هو الإشارة بالرأس) ہے۔ (فتح الباري:556/2) لیکن ہمارے نزدیک اسے تصحیف قرار دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ امام بخاری ؒ نے رجالاً کے معنی قياماً سے کیے ہیں۔ یہ معنی اس وقت درست ہو سکتے ہیں جب روایت میں قياماً کے لفظ کو صحیح تسلیم کیا جائے، بصورت دیگر امام بخاری ؒ کا عنوان بلا دلیل رہے گا۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
930
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
943
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
943
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
943
تمہید کتاب
پرامن حالات میں جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے صلاة الطمانينة کہتے ہیں، اس کے مقابلے میں جب جنگی حالات ہوں اور چاروں طرف سے خطرات منڈلا رہے ہوں تو ایسے حالات میں صلاة الخوف ادا کی جاتی ہے۔ اس کی بہت سی انواع ہیں کیونکہ دشمن کبھی قبلہ کی سمت ہوتا ہے اور کبھی قبلے کی مخالف سمت میں۔ کوئی نماز چار رکعت، کوئی تین رکعت جبکہ نماز فجر دو رکعت پر مشتمل ہے۔ کبھی جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے اور کبھی مسلسل جنگ کی حالت میں باجماعت ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ مجاہدین کبھی سوار ہوتے ہیں اور کبھی پیدل چلتے ہیں، بعض اوقات حالت نماز میں مسلسل چلنا پڑتا ہے، اس لیے احادیث میں نماز خوف کی متعدد صورتیں بیان ہوئی ہیں۔ صحیح بخاری میں دو، سنن ابی داود میں چھ اور صحیح ابن حبان میں نو طریقے بیان ہوئے ہیں، کچھ دوسری کتب حدیث میں مروی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قرد، عسفان، نجد اور طائف وغیرہ میں نماز خوف ادا کی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز جمعہ کے بعد نماز خوف کو بیان فرمایا ہے جبکہ اس کے برعکس دیگر محدثین نماز جمعہ کے بعد نماز عیدین کو بیان کرتے ہیں۔ دیگر محدثین اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ جمعہ بھی عید ہے اور اس میں تجمل ہوتا ہے، لہذا اس مناسبت سے اس کے بعد نماز عیدین کو بیان کرتے ہیں جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھا کیونکہ نماز جمعہ فرض ہے، نماز خوف بھی فرض ہے، نماز جمعہ، ظہر کا بدل ہے اور نماز خوف بھی صلاة طمانينة کا بدل ہے، اسی منابست سے انہوں نے اسے نماز جمعہ کے بعد بیان فرمایا ہے۔بعض فقہاء نے غزوۂ خندق میں نمازوں کو مؤخر کر دینے کی وجہ سے نماز خوف کو منسوخ کہا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید کرتے ہوئے اس کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے نماز خوف سے متعلق آیت کریمہ کا حوالہ دیا ہے جو غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے نزول کے بعد پہلی مرتبہ نماز خوف، غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر ادا کی۔ اس کے چار سال بعد مقام عسفان پر اسے ادا کیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چھ موصول احادیث بیان کی ہیں جن میں دو مکرر اور چار خالص ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابہ اور تابعین کے چھ آثار بھی بیان کیے ہیں جن میں امام مجاہد کا اثر موصول اور باقی آثار کو معلق طور پر بیان کیا ہے۔ انہوں نے ان احادیث و آثار سے مختلف مسائل و احکام کا استنباط کیا ہے جس کے لیے چھ مختلف عنوان قائم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد حقائق و معارف، اسرار و رموز اور استنادی مباحث کو ذکر کیا ہے جو پڑھنے سے متعلق ہیں۔ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کی قوتِ استدلال، دقت فہم اور محدثانہ بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ رحمة الله عليه رحمة واسعة
تمہید باب
خوف کی دو اقسام ہیں: ٭ حالت قتال کا خوف جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا ۖ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ﴿٢٣٩﴾) "اگر تم حالت خوف میں ہو تو خواہ پیدل ہو یا سوار (تو جیسے ممکن ہو نماز ادا کر لو) مگر جب امن میسر آ جائے تو اللہ کو اسی طریقے سے یاد کرو جو اس نے تمہیں سکھایا ہے جسے تم پہلے نہیں جانتے تھے۔" (البقرۃ239:2) ٭ حالت غیر قتال کا خوف جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا) "جب تم زمین میں سفر کرو تو تمہارے لیے نماز قصر کر لینے میں کوئی حرج نہیں جبکہ تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں تشویش میں ڈال دیں گے۔" (الصفاء101:4) امام بخاری رحمہ اللہ بتانا چاہتے ہیں کہ جب میدان کارزار گرم ہو تو مجاہدین چلتے پھرتے یا سواری کی حالت میں بھی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مجاہد اگر اپنی سواری سے نہیں اتر سکتا، ایسی مجبوری کے وقت بھی نماز معاف نہیں ہے۔ وہ سواری ہی پر نماز پڑھ لے، رکوع اور سجدہ اشارے سے کرتا رہے اور جس طرف بھی اس کا منہ ہو جائے نماز کی ادائیگی میں لگا رہے، اسی طرح پیدل چلتے بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت کریمہ میں لفظ (رجال) استعمال ہوا ہے امام بخاری نے اس کی لغوی تفسیر بیان فرمائی ہے کہ اس سے مراد رُجل، یعنی آدمی کی جمع رجال نہیں بلکہ اس سے مراد پیدل چلنے والا ہے جیسا کہ سورۂ حج میں ہے: (وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا) "آپ لوگوں میں حج کا اعلان کر دیں تو وہ آپ کے پاس پیدل چل کر آئیں گے۔" (الحج27:22)
حضرت نافع سے روایت ہے، وہ حضرت ابن عمر ؓ سے مجاہد کے قول کی طرح بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں کی دشمن سے مڈبھیڑ ہو جائے تو کھڑے کھڑے ہی نماز پڑھ لیں۔ البتہ حضرت ابن عمر ؓ نے نبی ﷺ سے یہ اضافہ بیان کیا ہے: ’’اگر دشمن زیادہ ہوں تو مسلمان کھڑے کھڑے یا سوار ہو کر، یعنی جس طرح بھی ممکن ہو سکے نماز پڑھیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت نافع ایک دوسرے مقام پر وضاحت کرتے ہیں کہ جب حضرت ابن عمر ؓ سے نماز خوف کے متعلق سوال کیا جاتا تو آپ نماز خوف کے طریقے سے آگاہ فرماتے، نیز کہتے کہ اگر حالات زیادہ سنگین ہوں تو لوگ پا پیادہ کھڑے کھڑے نماز پڑھیں گے اور اگر سوار ہوں تو اپنی سواریوں پر اسے ادا کریں گے، خواہ اس وقت قبلے کی جانب منہ ہو سکے یا نہ ہو سکے۔ حضرت نافع نے کہا مجھے اطمینان ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ بات رسول اللہ ﷺ ہی سے استفادہ کر کے بیان کی ہو گی۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4535) (2) امام بخاری ؒ نے اس مقام پر مجاہد کے حوالے سے اس روایت کو بیان کیا ہے لیکن مجاہد کی بات کو کسی جگہ پر بیان نہیں کیا، اس لیے موجودہ عبارت کے مفہوم میں اختلاف پیدا ہوا، البتہ علامہ اسماعیلی نے مجاہد کا قول نقل کیا ہے کہ جب دشمن سے مڈبھیڑ (مقابلہ) ہو جائے تو سر کے اشارے سے بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح حضرت ابن عمر ؓ کا قول بھی مجاہد کی طرح بیان ہوا ہے کہ جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو جائے تو زبان سے ذکر اور سر کے اشارے سے نماز ادا کی جائے، جیسا کہ ابن عمر ؓ سے منقول ہے، البتہ ان دونوں کے اقوال میں فرق یہ ہے کہ حضرت مجاہد نے اپنی رائے کی بنیاد پر یہ موقف اختیار کیا ہے جبکہ حضرت ابن عمر ؓ کا موقف، رسول اللہ ﷺ سے مروی حدیث کی بنا پر ہے۔ امام بخاری ؒ کی بیان کردہ روایت کی تشریح امام ابن بطال نے صحیح طور پر کی ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ (عمدة القاري:140/5) (3) حافظ ابن حجرؒ نے إذا اختلطوا قياما میں لفظ قياما کو تصحیف قرار دیا ہے، وہ فرماتے ہیں دراصل یہ لفظ إنما ہے، کیونکہ روایات میں (إذا اختلطوا فإنما هو الإشارة بالرأس) ہے۔ (فتح الباري:556/2) لیکن ہمارے نزدیک اسے تصحیف قرار دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ امام بخاری ؒ نے رجالاً کے معنی قياماً سے کیے ہیں۔ یہ معنی اس وقت درست ہو سکتے ہیں جب روایت میں قياماً کے لفظ کو صحیح تسلیم کیا جائے، بصورت دیگر امام بخاری ؒ کا عنوان بلا دلیل رہے گا۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سعید بن یحییٰ بن سعید قرشی نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے باپ یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن جریج نے بیان کیا، ان سے موسی بن عقبہ نے، ان سے نافع نے، ان سے عبد اللہ بن عمر ؓ نے مجاہد کے قول کی طرح بیان کیا کہ جب جنگ میں لوگ ایک دوسرے سے گٹھ جائیں تو کھڑے کھڑے نماز پڑھ لیں اور ا بن عمر ؓ نے نبی کریم ﷺ سے اپنی روایت میں اضافہ اور کیا ہے کہ اگر کافر بہت سارے ہوں کہ مسلمانوں کو دم نہ لینے دیں تو کھڑے کھڑے اور سوار رہ کر (جس طور ممکن ہو) اشاروں سے ہی سہی مگر نماز پڑھ لیں۔
حدیث حاشیہ:
علامہ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: قیل مقصودہ إن الصلوة لا تسقط عند العجز عن النزول عن العرابة ولا تؤخر عن وقتھا بل تصلى علی أي وجه حصلت القدرة علیه بدلیل الآیة۔(فتح الباري)یعنی مقصود یہ ہے کہ نماز اس وقت بھی ساقط نہیں ہوتی جب کہ نمازی سواری سے اترنے سے عاجز ہو اور نہ وہ وقت سے مؤخر کی جا سکتی ہے بلکہ ہر حالت میں اپنی قدرت کے مطابق اسے پڑھنا ہی ہوگا جیسا کہ آیت بالا اس پر دال ہے۔ زمانہ حاضرہ میں ریلوں، موٹروں، ہوائی جہازوں میں بہت سے ایسے ہی مواقع آجاتے ہیں کہ ان سے اترنا نا ممکن ہو جاتا ہے بہر حال نماز جس طور بھی ممکن ہو وقت مقررہ پر پڑھ ہی لینی چاہیے۔ ایسی ہی دشواریوں کے پیش نظر شارع ؑ نے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کر کے ادا کرنا جائز قرار دیا ہے اور سفر میں قصر اور بوقت جہاد اور بھی مزید رعایت دی گئی مگر نماز کو معاف نہیں کیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi': Ibn Umar (RA) said something similar to Mujahid's saying: Whenever (Muslims and non-Muslims) stand face to face in battle, the Muslims can pray while standing. Ibn Umar (RA) added, "The Prophet (ﷺ) said, 'If the number of the enemy is greater than the Muslims, they can pray while standing or riding (individually).' "