باب: خوف کی نماز میں نمازی ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں۔
)
Sahi-Bukhari:
Fear Prayer
(Chapter: To guard one another during the Salat-ul-Khauf)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
944.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ نبی ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ جب آپ نے تکبیر تحریمہ کہی تو انہوں نے بھی آپ کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہی۔ پھر آپ نے رکوع کیا اور لوگوں میں سے چند ایک نے رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا تو ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا، پھر جب آپ دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو وہ لوگ بھی آپ کے ہمراہ کھڑے ہو گئے جنہوں نے سجدہ کر لیا تھا اور وہ اپنے بھائیوں کی حفاظت کرنے لگے، چنانچہ دوسرا گروہ آیا اور انہوں نے آپ کے ہمراہ رکوع اور سجدہ کیا دریں اثنا تمام لوگ نماز میں تھے لیکن ایک دوسرے کی حفاظت کرتے تھے۔
تشریح:
حافظ ابن حجر ؒ کے نزدیک امام بخاری ؒ نے نماز خوف کی ایک دوسری صورت بیان فرمائی ہے۔ آپ کی عادت ہے کہ بعض اوقات بطور تفنن عنوان قائم کر دیتے ہیں، لیکن اصل مقصود روایت بیان کرنا ہوتا ہے۔ اس مقام پر نماز خوف کی دوسری صورت یہ ہے کہ اگر دشمن قبلہ کی طرف ہو تو مجاہدین کو الگ الگ دو حصوں میں تقسیم نہیں کیا جائے گا لیکن اگر دشمن قبلہ کے علاوہ کسی دوسری طرف ہو تو انہیں الگ الگ دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا جیسا کہ قبل ازیں حضرت ابن عمر ؓ سے مروی روایت میں وضاحت ہے۔ اس روایت کے مطابق تمام مجاہدین امام کے ساتھ نماز کا آغاز کریں گے، پھر رکوع اور سجدہ صرف امام کے متصل صف والے ادا کریں اور دوسری صف والے ان کی حفاظت میں مصروف رہیں گے۔ جب امام ایک رکعت مکمل کر لے گا تو پہلی صف والے پیچھے ہٹ جائیں گے جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (سنن النسائي، صلاة الخوف، حدیث:1535) پھر دوسری صف والے آگے بڑھ کر امام کے ساتھ دوسری رکعت پڑھیں گے، ان میں سے کوئی بھی فوت شدہ رکعت کو پورا نہیں کرے گا جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (سنن النسائي، صلاة الخوف، حدیث:1534) حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ایک روایت میں یہ بھی صراحت ہے کہ انہوں نے دوسری رکعت نہیں پڑھی۔ اس صورت میں امام کی دو رکعت اور مجاہدین کی ایک ایک رکعت ہو گی۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بھی نماز خوف کی یہ صورت بیان ہوئی ہے۔ (سنن النسائي، صلاة الخوف، حدیث:1548) اس صورت میں تائید کی ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رسول کے ذریعے سے حضر کی چار رکعت، سفر کی دو رکعت اور صلاۃ خوف کی ایک رکعت کو فرض کیا ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1575 (687)) جمہور کے نزدیک نماز خوف میں صرف ایک رکعت پر اکتفا جائز نہیں لیکن صریح اور صحیح احادیث کے پیش نظر ان کا موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:558/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
931
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
944
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
944
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
944
تمہید کتاب
پرامن حالات میں جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے صلاة الطمانينة کہتے ہیں، اس کے مقابلے میں جب جنگی حالات ہوں اور چاروں طرف سے خطرات منڈلا رہے ہوں تو ایسے حالات میں صلاة الخوف ادا کی جاتی ہے۔ اس کی بہت سی انواع ہیں کیونکہ دشمن کبھی قبلہ کی سمت ہوتا ہے اور کبھی قبلے کی مخالف سمت میں۔ کوئی نماز چار رکعت، کوئی تین رکعت جبکہ نماز فجر دو رکعت پر مشتمل ہے۔ کبھی جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے اور کبھی مسلسل جنگ کی حالت میں باجماعت ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ مجاہدین کبھی سوار ہوتے ہیں اور کبھی پیدل چلتے ہیں، بعض اوقات حالت نماز میں مسلسل چلنا پڑتا ہے، اس لیے احادیث میں نماز خوف کی متعدد صورتیں بیان ہوئی ہیں۔ صحیح بخاری میں دو، سنن ابی داود میں چھ اور صحیح ابن حبان میں نو طریقے بیان ہوئے ہیں، کچھ دوسری کتب حدیث میں مروی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قرد، عسفان، نجد اور طائف وغیرہ میں نماز خوف ادا کی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز جمعہ کے بعد نماز خوف کو بیان فرمایا ہے جبکہ اس کے برعکس دیگر محدثین نماز جمعہ کے بعد نماز عیدین کو بیان کرتے ہیں۔ دیگر محدثین اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ جمعہ بھی عید ہے اور اس میں تجمل ہوتا ہے، لہذا اس مناسبت سے اس کے بعد نماز عیدین کو بیان کرتے ہیں جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھا کیونکہ نماز جمعہ فرض ہے، نماز خوف بھی فرض ہے، نماز جمعہ، ظہر کا بدل ہے اور نماز خوف بھی صلاة طمانينة کا بدل ہے، اسی منابست سے انہوں نے اسے نماز جمعہ کے بعد بیان فرمایا ہے۔بعض فقہاء نے غزوۂ خندق میں نمازوں کو مؤخر کر دینے کی وجہ سے نماز خوف کو منسوخ کہا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید کرتے ہوئے اس کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے نماز خوف سے متعلق آیت کریمہ کا حوالہ دیا ہے جو غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے نزول کے بعد پہلی مرتبہ نماز خوف، غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر ادا کی۔ اس کے چار سال بعد مقام عسفان پر اسے ادا کیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چھ موصول احادیث بیان کی ہیں جن میں دو مکرر اور چار خالص ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابہ اور تابعین کے چھ آثار بھی بیان کیے ہیں جن میں امام مجاہد کا اثر موصول اور باقی آثار کو معلق طور پر بیان کیا ہے۔ انہوں نے ان احادیث و آثار سے مختلف مسائل و احکام کا استنباط کیا ہے جس کے لیے چھ مختلف عنوان قائم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد حقائق و معارف، اسرار و رموز اور استنادی مباحث کو ذکر کیا ہے جو پڑھنے سے متعلق ہیں۔ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کی قوتِ استدلال، دقت فہم اور محدثانہ بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ رحمة الله عليه رحمة واسعة
تمہید باب
اس عنوان سے نماز خوف کی کوئی صورت بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ اس بات پر تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ اکثر احادیث میں بحالت نماز التفات سے منع فرمایا گیا ہے کہ بندہ جب ادھر ادھر التفات کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف سے توجہ ہٹا لیتا ہے۔ لیکن نماز خوف میں ایک دوسرے کی حفاظت کا بھی خیال رکھنا چاہیے کیونکہ نماز خوف میں بہت سے افعال جائز قرار دیے گئے ہیں جو عام نمازوں میں منع ہیں، اس لیے نمازِ خوف میں اگر التفات، ایک دوسرے کی حفاظت کے لیے ہو تو اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ نبی ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو لوگ بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ جب آپ نے تکبیر تحریمہ کہی تو انہوں نے بھی آپ کے ساتھ تکبیر تحریمہ کہی۔ پھر آپ نے رکوع کیا اور لوگوں میں سے چند ایک نے رکوع کیا، پھر آپ نے سجدہ کیا تو ان لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا، پھر جب آپ دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو وہ لوگ بھی آپ کے ہمراہ کھڑے ہو گئے جنہوں نے سجدہ کر لیا تھا اور وہ اپنے بھائیوں کی حفاظت کرنے لگے، چنانچہ دوسرا گروہ آیا اور انہوں نے آپ کے ہمراہ رکوع اور سجدہ کیا دریں اثنا تمام لوگ نماز میں تھے لیکن ایک دوسرے کی حفاظت کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ کے نزدیک امام بخاری ؒ نے نماز خوف کی ایک دوسری صورت بیان فرمائی ہے۔ آپ کی عادت ہے کہ بعض اوقات بطور تفنن عنوان قائم کر دیتے ہیں، لیکن اصل مقصود روایت بیان کرنا ہوتا ہے۔ اس مقام پر نماز خوف کی دوسری صورت یہ ہے کہ اگر دشمن قبلہ کی طرف ہو تو مجاہدین کو الگ الگ دو حصوں میں تقسیم نہیں کیا جائے گا لیکن اگر دشمن قبلہ کے علاوہ کسی دوسری طرف ہو تو انہیں الگ الگ دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے گا جیسا کہ قبل ازیں حضرت ابن عمر ؓ سے مروی روایت میں وضاحت ہے۔ اس روایت کے مطابق تمام مجاہدین امام کے ساتھ نماز کا آغاز کریں گے، پھر رکوع اور سجدہ صرف امام کے متصل صف والے ادا کریں اور دوسری صف والے ان کی حفاظت میں مصروف رہیں گے۔ جب امام ایک رکعت مکمل کر لے گا تو پہلی صف والے پیچھے ہٹ جائیں گے جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ (سنن النسائي، صلاة الخوف، حدیث:1535) پھر دوسری صف والے آگے بڑھ کر امام کے ساتھ دوسری رکعت پڑھیں گے، ان میں سے کوئی بھی فوت شدہ رکعت کو پورا نہیں کرے گا جیسا کہ دیگر احادیث میں اس کی وضاحت ہے۔ (سنن النسائي، صلاة الخوف، حدیث:1534) حضرت حذیفہ ؓ سے مروی ایک روایت میں یہ بھی صراحت ہے کہ انہوں نے دوسری رکعت نہیں پڑھی۔ اس صورت میں امام کی دو رکعت اور مجاہدین کی ایک ایک رکعت ہو گی۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں بھی نماز خوف کی یہ صورت بیان ہوئی ہے۔ (سنن النسائي، صلاة الخوف، حدیث:1548) اس صورت میں تائید کی ایک دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے جسے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رسول کے ذریعے سے حضر کی چار رکعت، سفر کی دو رکعت اور صلاۃ خوف کی ایک رکعت کو فرض کیا ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1575 (687)) جمہور کے نزدیک نماز خوف میں صرف ایک رکعت پر اکتفا جائز نہیں لیکن صریح اور صحیح احادیث کے پیش نظر ان کا موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔(فتح الباري:558/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن حرب نے زبیدی سے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے، ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کھڑے ہوئے اور دوسرے لوگ بھی آپ کی اقتداء میں کھڑے ہوئے۔ حضور ﷺ نے تکبیر کہی تو لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔ آپ نے رکوع کیا تو لوگوں نے آپ کے ساتھ رکوع اور سجدہ کر لیا تھا وہ کھڑے کھڑے اپنے بھائیوں کی نگرانی کرتے رہے۔ اور دوسرا گروہ آیا۔ (جواب تک حفاظت کے لیے دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہا بعد میں) اس نے بھی رکوع اور سجدے کئے۔ سب لوگ نماز میں تھے لیکن لوگ ایک دوسرے کی حفاظت کر رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): Once the Prophet (ﷺ) led the fear prayer and the people stood behind him. He said Takbir (Allahu-Akbar) and the people said the same. He bowed and some of them bowed. Then he prostrated and they also prostrated. Then he stood for the second Raka and those who had prayed the first Raka left and guarded their brothers. The second party joined him and performed bowing and prostration with him. All the people were in prayer but they were guarding one another during the prayer.