باب: اس بارے میں کہ اس وقت (جب دشمن کے) قلعوں کی فتح کے امکانات روشن ہوں اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو رہی ہو تو اس وقت نماز پڑھے یا نہیں
)
Sahi-Bukhari:
Fear Prayer
(Chapter: As-Salat at the time of besieging a fort and at the time of meeting the enemy)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور امام اوزاعی نے کہا کہ جب فتح سامنے ہو اور نماز پڑھنی ممکن نہ رہے تو اشارہ سے نماز پڑھ لیں۔ ہر شخص اکیلے اکیلے اگر اشارہ بھی نہ کر سکیں تو لڑائی کے ختم ہونے تک یا امن ہو نے تک نماز موقوف رکھیں، اس کے بعد دو رکعتیں پڑھ لیں۔ اگر دو رکعت نہ پڑھ سکیں تو ایک ہی رکوع اور دو سجدے کر لیں اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو صرف تکبیر تحریمہ کافی نہیں ہے، امن ہونے تک نماز میں دیر کریں۔ مکحول تابعی کا یہ قو ل ہے۔
اور حضرت انس بن مالک نے کہا کہ صبح روشنی میں ''تستر'' کے قلعہ پر جب چڑھائی ہو رہی تھی اس وقت میں موجود تھا۔ لڑائی کی آگ خوب بھڑک رہی تھی تو لوگ نماز نہ پڑھ سکے۔ جب دن چڑھ گیا اس وقت صبح کی نماز پڑھی گئی۔ ابو موسیٰ اشعری بھی ساتھ تھے پھر قلعہ فتح ہو گیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس دن جو نماز ہم نے پڑھی ( گو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھی ) اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ ساری دنیا ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوگی۔
تستر اہواز کے شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ وہاں کا قلعہ سخت جنگ کے بعد بعہد خلافت فاروقی 20ھ میں فتح ہوا۔ اس تعلیق کو ابن سعد اور ابن ابی شیبہ نے وصل کیا۔ ابو موسی اشعری اس فوج کے افسر تھے جس نے اس قلعہ پر چڑھائی کی تھی۔ اس نماز کی خوشی ہوئی تھی کہ یہ مجاہدوں کی نماز تھی نہ آجکل کے بزدل مسلمانوں کی نماز۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت انس ؓ نے نماز فوت ہونے پر افسوس کیا یعنی اگر یہ نماز وقت پر پڑھ لیتے تو ساری دنیا کے ملنے سے زیادہ مجھ کو خوشی ہوتی مگر پہلے معنی کو ترجیح ہے
945.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ غزوہ خندق کے دن حضرت عمر ؓ تشریف لائے اور کفار قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے کہنے لگے: اللہ کے رسول! میں نماز عصر نہیں پڑھ سکا تاآنکہ سورج غروب کے قریب ہو گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں بھی ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھ سکا ہوں۔‘‘ اس کے بعد آپ وادی بطحان میں اترے، وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد نماز عصر ادا کی اور اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔
تشریح:
(1) غزوۂ خندق کے موقع پر نماز عصر مؤخر کر دینے کی کئی ایک وجوہات ممکن ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ سہو و نسیان کی بنا پر ایسا ہوا کہ نماز پڑھنے کا خیال نہ آیا۔ ٭ درج ذیل وجوہات کی بنا پر دانستہ ایسا کیا- ٭ جنگی مصروفیات کی وجہ سے نماز پڑھنے کا موقع نہ مل سکا۔ ٭ حالات کی سنگینی کی وجہ سے وضو کا وقت میسر نہ آ سکا۔ ٭ نماز خوف کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک نماز خوف کے احکام نازل ہو چکے تھے لیکن جنگی مصروفیات کی وجہ سے نماز باجماعت یا الگ الگ پڑھنے کا موقع نہ مل سکا اور نہ اشارے ہی سے پڑھنے کی قدرت تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز عصر کو مؤخر کر دیا۔ (2) اس سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ جنگی مصروفیات کی وجہ سے اگر نماز باجماعت پڑھنے کی قدرت نہ ہو تو الگ الگ ہر شخص اشارے سے پڑھ لے۔ اگر اشارے سے نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو نماز کو مؤخر کر دیا جائے اور حالات کے سازگار ہونے کا انتظار کیا جائے۔ ایسے حالات میں تسبیح، تحلیل اور تکبیر وغیرہ نماز ادا کرنے کے قائم مقام نہیں ہو گی۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
932
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
945
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
945
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
945
تمہید کتاب
پرامن حالات میں جو نماز ادا کی جاتی ہے اسے صلاة الطمانينة کہتے ہیں، اس کے مقابلے میں جب جنگی حالات ہوں اور چاروں طرف سے خطرات منڈلا رہے ہوں تو ایسے حالات میں صلاة الخوف ادا کی جاتی ہے۔ اس کی بہت سی انواع ہیں کیونکہ دشمن کبھی قبلہ کی سمت ہوتا ہے اور کبھی قبلے کی مخالف سمت میں۔ کوئی نماز چار رکعت، کوئی تین رکعت جبکہ نماز فجر دو رکعت پر مشتمل ہے۔ کبھی جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے اور کبھی مسلسل جنگ کی حالت میں باجماعت ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ مجاہدین کبھی سوار ہوتے ہیں اور کبھی پیدل چلتے ہیں، بعض اوقات حالت نماز میں مسلسل چلنا پڑتا ہے، اس لیے احادیث میں نماز خوف کی متعدد صورتیں بیان ہوئی ہیں۔ صحیح بخاری میں دو، سنن ابی داود میں چھ اور صحیح ابن حبان میں نو طریقے بیان ہوئے ہیں، کچھ دوسری کتب حدیث میں مروی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قرد، عسفان، نجد اور طائف وغیرہ میں نماز خوف ادا کی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز جمعہ کے بعد نماز خوف کو بیان فرمایا ہے جبکہ اس کے برعکس دیگر محدثین نماز جمعہ کے بعد نماز عیدین کو بیان کرتے ہیں۔ دیگر محدثین اس لیے ایسا کرتے ہیں کہ جمعہ بھی عید ہے اور اس میں تجمل ہوتا ہے، لہذا اس مناسبت سے اس کے بعد نماز عیدین کو بیان کرتے ہیں جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس ترتیب کو ملحوظ نہیں رکھا کیونکہ نماز جمعہ فرض ہے، نماز خوف بھی فرض ہے، نماز جمعہ، ظہر کا بدل ہے اور نماز خوف بھی صلاة طمانينة کا بدل ہے، اسی منابست سے انہوں نے اسے نماز جمعہ کے بعد بیان فرمایا ہے۔بعض فقہاء نے غزوۂ خندق میں نمازوں کو مؤخر کر دینے کی وجہ سے نماز خوف کو منسوخ کہا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید کرتے ہوئے اس کی مشروعیت کو ثابت کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے نماز خوف سے متعلق آیت کریمہ کا حوالہ دیا ہے جو غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر نازل ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے نزول کے بعد پہلی مرتبہ نماز خوف، غزوۂ ذات الرقاع کے موقع پر ادا کی۔ اس کے چار سال بعد مقام عسفان پر اسے ادا کیا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں چھ موصول احادیث بیان کی ہیں جن میں دو مکرر اور چار خالص ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابہ اور تابعین کے چھ آثار بھی بیان کیے ہیں جن میں امام مجاہد کا اثر موصول اور باقی آثار کو معلق طور پر بیان کیا ہے۔ انہوں نے ان احادیث و آثار سے مختلف مسائل و احکام کا استنباط کیا ہے جس کے لیے چھ مختلف عنوان قائم کیے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد حقائق و معارف، اسرار و رموز اور استنادی مباحث کو ذکر کیا ہے جو پڑھنے سے متعلق ہیں۔ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کی قوتِ استدلال، دقت فہم اور محدثانہ بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ رحمة الله عليه رحمة واسعة
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں عبدالرحمٰن بن عمرو اوزاعی کے موقف کی طرف اشارہ کیا ہے جسے ولید بن مسلم نے اپنی کتاب "السبر" میں بیان کیا ہے۔ چونکہ بعض تابعین کا موقف ہے کہ اگر گھمسان کی جنگ جاری ہو اور اشارے وغیرہ سے نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو سبحان الله والحمدلله ولا إله إلا الله والله أكبر پڑھتا رہے، یہی مجاہد کی نماز ہے۔ حصول امن کے بعد نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ سفیان ثوری رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔ حضرت امام مجاہد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی اسے اختیار کیا ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے امام اوزاعی اور امام مکحول کا موقف پیش کیا ہے کہ ایسے حالات میں نماز کو مؤخر کر دیا جائے۔ تکبیر و تسبیح اور تحمید وغیرہ کافی نہیں ہو گی۔ امام مکحول کے اثر کو عبد بن حمید نے اپنی تفسیر میں متصل سند سے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: "جنگی حالات کے پیش نظر اگر زمین پر نماز نہ پڑھی جا سکے تو سواری پر دو رکعت پڑھ لی جائیں۔ اگر دو رکعت پڑھنے کا وقت نہ مل سکے تو ایک رکعت ہی کافی ہے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو حالات پرامن ہونے تک نماز کو مؤخر کر دیا جائے۔" (فتح الباری:2/580) حضرت انس رضی اللہ عنہ کے اثر کو ابن سعد اور ابن ابی شیبہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ ان کے علاوہ عمر بن شبہ نے اپنی کتاب "اخبار بصرہ" میں بیان کیا ہے کہ حضرت قتادہ سے شدت جنگ کے وقت نماز سے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا کہ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے زیر کمان علاقۂ اہواز کے شہر شوشتر کے قلعہ پر چڑھائی کی تو مذکورہ واقعہ پیش آیا جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ (فتح الباری:2/580)
اور امام اوزاعی نے کہا کہ جب فتح سامنے ہو اور نماز پڑھنی ممکن نہ رہے تو اشارہ سے نماز پڑھ لیں۔ ہر شخص اکیلے اکیلے اگر اشارہ بھی نہ کر سکیں تو لڑائی کے ختم ہونے تک یا امن ہو نے تک نماز موقوف رکھیں، اس کے بعد دو رکعتیں پڑھ لیں۔ اگر دو رکعت نہ پڑھ سکیں تو ایک ہی رکوع اور دو سجدے کر لیں اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو صرف تکبیر تحریمہ کافی نہیں ہے، امن ہونے تک نماز میں دیر کریں۔ مکحول تابعی کا یہ قو ل ہے۔
اور حضرت انس بن مالک نے کہا کہ صبح روشنی میں ''تستر'' کے قلعہ پر جب چڑھائی ہو رہی تھی اس وقت میں موجود تھا۔ لڑائی کی آگ خوب بھڑک رہی تھی تو لوگ نماز نہ پڑھ سکے۔ جب دن چڑھ گیا اس وقت صبح کی نماز پڑھی گئی۔ ابو موسیٰ اشعری بھی ساتھ تھے پھر قلعہ فتح ہو گیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس دن جو نماز ہم نے پڑھی ( گو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھی ) اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ ساری دنیا ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوگی۔
تستر اہواز کے شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ وہاں کا قلعہ سخت جنگ کے بعد بعہد خلافت فاروقی 20ھ میں فتح ہوا۔ اس تعلیق کو ابن سعد اور ابن ابی شیبہ نے وصل کیا۔ ابو موسی اشعری اس فوج کے افسر تھے جس نے اس قلعہ پر چڑھائی کی تھی۔ اس نماز کی خوشی ہوئی تھی کہ یہ مجاہدوں کی نماز تھی نہ آجکل کے بزدل مسلمانوں کی نماز۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت انس ؓ نے نماز فوت ہونے پر افسوس کیا یعنی اگر یہ نماز وقت پر پڑھ لیتے تو ساری دنیا کے ملنے سے زیادہ مجھ کو خوشی ہوتی مگر پہلے معنی کو ترجیح ہے
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ غزوہ خندق کے دن حضرت عمر ؓ تشریف لائے اور کفار قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے کہنے لگے: اللہ کے رسول! میں نماز عصر نہیں پڑھ سکا تاآنکہ سورج غروب کے قریب ہو گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم! میں بھی ابھی تک نماز عصر نہیں پڑھ سکا ہوں۔‘‘ اس کے بعد آپ وادی بطحان میں اترے، وضو کیا اور سورج غروب ہونے کے بعد نماز عصر ادا کی اور اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) غزوۂ خندق کے موقع پر نماز عصر مؤخر کر دینے کی کئی ایک وجوہات ممکن ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ سہو و نسیان کی بنا پر ایسا ہوا کہ نماز پڑھنے کا خیال نہ آیا۔ ٭ درج ذیل وجوہات کی بنا پر دانستہ ایسا کیا- ٭ جنگی مصروفیات کی وجہ سے نماز پڑھنے کا موقع نہ مل سکا۔ ٭ حالات کی سنگینی کی وجہ سے وضو کا وقت میسر نہ آ سکا۔ ٭ نماز خوف کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک نماز خوف کے احکام نازل ہو چکے تھے لیکن جنگی مصروفیات کی وجہ سے نماز باجماعت یا الگ الگ پڑھنے کا موقع نہ مل سکا اور نہ اشارے ہی سے پڑھنے کی قدرت تھی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے نماز عصر کو مؤخر کر دیا۔ (2) اس سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ جنگی مصروفیات کی وجہ سے اگر نماز باجماعت پڑھنے کی قدرت نہ ہو تو الگ الگ ہر شخص اشارے سے پڑھ لے۔ اگر اشارے سے نماز پڑھنا ممکن نہ ہو تو نماز کو مؤخر کر دیا جائے اور حالات کے سازگار ہونے کا انتظار کیا جائے۔ ایسے حالات میں تسبیح، تحلیل اور تکبیر وغیرہ نماز ادا کرنے کے قائم مقام نہیں ہو گی۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
امام اوزاعی کا بیان ہے کہ اگر فتح قریب ہو اور مجاہدین نماز پڑھنے پر قادر نہ ہو سکیں تو ہر مجاہد الگ الگ اشارے سے نماز پڑھے۔ اگر اشارے سے بھی پڑھنے کی قدرت نہ ہو تو نماز کو مؤخر کر دیں یہاں تک کہ لڑائی کا فیصلہ ہو جائے اور مجاہدین محفوظ ہو جائیں تو پھر د رکعت ادا کریں، اگر دو رکعت پڑھنے کی فرصت نہ ہو تو ایک رکوع اور دو سجدے کر لیں، اگر اس پر بھی قادر نہ ہوں تو انہیں محض "اللہ اکبر" کہنا کافی نہیں ہو گا بلکہ امن کے وقت تک اسے مؤخر کر دیں، مکحول تابعی کا بھی یہی قول ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں قلعہ شوشتر پر چڑھائی کے وقت وہاں موجود تھا جبکہ فریقین کی جنگ فجر روشن ہونے کے وقت شروع ہوئی، گھمسان کی جنگ جاری تھی۔ مجاہدین نماز صبح ادا کرنے پر قادر نہ تھے، چنانچہ ہم نے نماز فجر کو طلوع آفتاب کے بعد ادا کیا، ہم نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے ہمراہ نماز پڑھی جبکہ وہ قلعہ فتح ہو گیا۔ حضرت انس ؓ نے مزید فرمایا کہ اس نماز کے عوض ہمیں دنیا اور اس کی تمام چیزیں بھی خوش نہ کر سکیں
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحیی ابن جعفر نے بیان کیا کہ ہم سے وکیع نے علی بن مبارک سے بیان کیا، ان سے یحیی بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے جابر بن عبد اللہ انصاری ؓ نے کہ حضرت عمر ؓ غزوہ خندق کے دن کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے آئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ! سورج ڈوبنے ہی کو ہے اور میں نے تو اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی، اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ بخد ا میں نے بھی ابھی تک نہیں پڑھی انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ بطحان کی طرف گئے (جو مدینہ میں ایک میدان تھا) اور وضو کر کے آپ نے وہاں سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
باب کا ترجمہ اس حدیث سے نکلا کہ آنحضرت ﷺ کو لڑائی میں مصروف رہنے سے بالکل نماز کی فرصت نہ ملی تھی تو آپ نے نماز میں دیر کی۔ قسطلانی ؒ نے کہا ممکن ہے کہ اس وقت تک خوف کی نماز کا حکم نہیں اترا ہوگا۔ یا نماز کا آپ کو خیال نہ رہا ہو گا یا خیال ہو گا مگر طہارت کرنے کا موقع نہ ملا ہو گا۔ وقيل: أخرها عمداً؛ لأنه كانت قبل نزول صلاة الخوف، ذهب إليه الجمهور، كما قال ابن رشد، وبه جزم ابن القيم في الهدي، والحافظ في الفتح، والقرطبي في شرح مسلم، وعياض في الشفاء، والزيلعي في نصب الراية، وابن القصار. وهذا هو الراجح عندنا. (مرعاة المفاتیح، ج:2، ص318)یعنی کہا گیا ( شدت جنگ کی وجہ سے ) آپ ﷺ نے عمدا نماز عصر کو مؤخر فرمایا، اس لیے کہ اس وقت تک صلوۃ خوف کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ بقول ابن رشد جمہور کا یہی قول ہے اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس خیال پر جزم کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور قرطبی نے شرح مسلم میں اور قاضی عیاض نے شفاءمیں اور زیلعی نے نصب الرایہ میں اور ابن قصار نے اسی خیال کو ترجیح دی ہے اور حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مؤلف مرعاۃ المفاتیح فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک بھی اسی خیال کو ترجیح حاصل ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA): On the day of the Khandaq Umar came, cursing the disbelievers of Quraish and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have not offered the 'Asr prayer and the sun has set." The Prophet (ﷺ) replied, "By Allah! I too, have not offered the prayer yet. "The Prophet (ﷺ) then went to Buthan, performed ablution and performed the 'Asr prayer after the sun had set and then offered the Maghrib prayer after it."