باب: اس بارے میں کہ مسلمانوں کے لیے عید کے دن پہلی سنت کیا ہے
)
Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: The legal way of the celebrations on the two 'Eid festivals)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
951.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: ’’سب سے پہلی چیز جس سے ہم آج کے دن کا آغاز کریں وہ ہمارا نماز پڑھنا ہے، پھر گھر واپس جا کر قربانی کرنا ہے، جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عیدین کے موقع پر سب سے پہلے نماز ادا کی جائے پھر قربانی کی جائے، حالانکہ قربانی کا تعلق عیدالاضحیٰ سے ہے۔ اس کا جواب علامہ زین بن منیر ؒ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ اس دن اصل کام تو نماز پڑھنا ہے اور خطبہ دینا، قربانی کرنا اور دیگر اذکار میں مصروف ہونا ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی دونوں عیدوں میں قدر مشترک ہے، اس لیے باب دونوں عیدوں کے بارے میں باندھا۔ (فتح الباري:575/2) (2) امام بخاری ؒ نے نماز عید کا طریقہ نہیں بتایا۔ ممکن ہے کہ جن احادیث میں طریقہ بیان ہوا ہے وہ آپ کی شرائط کے مطابق نہ ہوں، چنانچہ احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے قولی اور عملی دونوں طریقے بیان ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہی جائیں اور قراءت ان تکبیرات کے بعد کی جائے، (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1151) نیز حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عیدین کی پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ (جامع الترمذي، العیدین، حدیث:538) نیز احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین کی نماز میں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾ اور ﴿هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ﴾ کی قراءت کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:2028 (878)) بعض اوقات رسول اللہ ﷺ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز میں ﴿ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ﴾ اور ﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ﴾ کی قراءت فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة العیدین، حدیث:2059 (891)) ایک روایت میں ہے کہ ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک کلمہ کی مقدار کے برابر فاصلہ ہونا چاہیے۔ (مجمع الزوائد:205/2) لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
937
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
951
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
951
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
951
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
تمہید باب
باب میں مذکور لفظ سنت سے مراد مسنون طریقہ ہے، یعنی عیدین کے موقع پر کون کون سے کام مسنون ہیں، یا سنت سے مراد مطلق طریقہ ہے، یعنی عیدین کے موقع پر اہل اسلام کا طریق کار بیان کرنا مقصود ہے، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ سنت بمعنیٰ استنان ہے، یعنی طریقہ جاری ہونا۔ مطلب یہ ہے کہ اہل اسلام کے لیے عیدین کا کیا طریقہ جاری ہے۔
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: ’’سب سے پہلی چیز جس سے ہم آج کے دن کا آغاز کریں وہ ہمارا نماز پڑھنا ہے، پھر گھر واپس جا کر قربانی کرنا ہے، جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کو پا لیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عیدین کے موقع پر سب سے پہلے نماز ادا کی جائے پھر قربانی کی جائے، حالانکہ قربانی کا تعلق عیدالاضحیٰ سے ہے۔ اس کا جواب علامہ زین بن منیر ؒ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ اس دن اصل کام تو نماز پڑھنا ہے اور خطبہ دینا، قربانی کرنا اور دیگر اذکار میں مصروف ہونا ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ نماز کی ادائیگی دونوں عیدوں میں قدر مشترک ہے، اس لیے باب دونوں عیدوں کے بارے میں باندھا۔ (فتح الباري:575/2) (2) امام بخاری ؒ نے نماز عید کا طریقہ نہیں بتایا۔ ممکن ہے کہ جن احادیث میں طریقہ بیان ہوا ہے وہ آپ کی شرائط کے مطابق نہ ہوں، چنانچہ احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے قولی اور عملی دونوں طریقے بیان ہوئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عید الفطر کی پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہی جائیں اور قراءت ان تکبیرات کے بعد کی جائے، (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1151) نیز حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے نماز عیدین کی پہلی رکعت میں قراءت سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قراءت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔ (جامع الترمذي، العیدین، حدیث:538) نیز احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ عیدین کی نماز میں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾ اور ﴿هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ﴾ کی قراءت کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:2028 (878)) بعض اوقات رسول اللہ ﷺ عید الفطر اور عید الاضحیٰ کی نماز میں ﴿ق ۚ وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ﴾ اور ﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ﴾ کی قراءت فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة العیدین، حدیث:2059 (891)) ایک روایت میں ہے کہ ہر دو تکبیروں کے درمیان ایک کلمہ کی مقدار کے برابر فاصلہ ہونا چاہیے۔ (مجمع الزوائد:205/2) لیکن یہ روایت ضعیف ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں زبید بن حارث نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، ان سے براء بن عازب ؓ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے عید کے دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلا کام جو ہم آج کے دن (عید الاضحیٰ) میں کرتے ہیں، یہ ہے کہ پہلے ہم نماز پڑھیں پھر واپس آ کر قربا نی کریں۔ جس نے اس طرح کیا وہ ہمارے طریق پر چلا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara': I heard the Prophet (ﷺ) delivering a Khutba saying, "The first thing to be done on this day (first day of 'Id ul Adha) is to pray; and after returning from the prayer we slaughter our sacrifices (in the name of Allah) and whoever does so, he acted according to our Sunna (traditions)."