Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: Eating on the day of Nahr (10th of Dhul-Hijjah))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
954.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا:’’جس شخص نے نماز عید سے پہلے قربانی کو ذبح کر لیا وہ دوبارہ قربانی کرے۔‘‘ ایک شخص کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا کہ آج کے دن گوشت کی بہت خواہش ہوتی ہے اور اس نے اپنے پڑوسیوں کا تذکرہ کیا، نبی ﷺ نے اس کی باتوں پر مہر تصدیق ثبت فرمائی۔ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔ نبی ﷺ نے اسے ذبح کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ راوی کہتا ہے کہ اب مجھے پتہ نہیں کہ یہ اجازت اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی ہے یا نہیں۔
تشریح:
ایک روایت کے مطابق اس شخص نے اپنے پڑوسیوں کی بھوک اور تنگ دستی کا ذکر کیا۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:984) بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب اس نے اپنے ہمسائے کی محتاجی کا ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے معذور خیال فرمایا۔ (صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث:5581) دیگر روایات میں صراحت ہے کہ وہ شخص ابو بردہ بن نیار تھے اور رسول اللہ ﷺ نے اسے قربانی کے لیے یک سالہ بکری کا بچہ ذبح کرنے کی اجازت دی اور فرمایا کہ یہ رخصت صرف تیرے لیے ہے، کسی دوسرے کو اس رخصت سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں۔ (صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث:5560) امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں عید الاضحیٰ کے دن کھانا تناول کرنے کو کسی وقت کے ساتھ مشروط نہیں کیا جیسا کہ عید الفطر کے دن نماز سے پہلے کے ساتھ مقید کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک عیدالاضحیٰ کے دن کھانے کے متعلق کوئی پابندی نہیں، خواہ قربانی ذبح کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں، چنانچہ مذکورہ حدیث میں ہے کہ جب اس شخص نے اپنی قربانی نماز سے پہلے ذبح کر ڈالی اور عرض کیا کہ اس دن گوشت کھانے کی ہر ایک کو چاہت ہوتی ہے تو آپ نے قبل از وقت قربانی ذبح کرنے پر تو انکار کیا لیکن نماز عید سے پہلے گوشت کھانے پر سکوت فرما کر اس عمل کو برقرار رکھا، شاید اس انداز سے امام بخاری ؒ نے ان احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن میں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر کھانے کے متعلق فرق کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے دن اس وقت تک نہ نکلے جب تک کچھ کھا نہ لیتے اور عید الاضحیٰ میں اس وقت تک کچھ نہ کھاتے جب تک نماز نہ پڑھ لیتے۔ (جامع الترمذي، العیدین، حدیث:542) اس قسم کی دیگر احادیث کے متعلق بھی محدثین نے کلام کیا ہے۔ (فتح الباري:578/2) اگرچہ محدثین نے ان روایات پر کلام کیا ہے، تاہم راجح بات یہی ہے کہ یہ روایات صحیح اور حسن درجے کی ہیں۔ جیسا کہ شیخ البانی ؒ اور دیگر کئی محققین نے اس کی صراحت کی ہے، اس لیے عیدالاضحیٰ کے روز عید کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا ہی سنت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
940
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
954
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
954
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
954
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا:’’جس شخص نے نماز عید سے پہلے قربانی کو ذبح کر لیا وہ دوبارہ قربانی کرے۔‘‘ ایک شخص کھڑا ہو کر عرض کرنے لگا کہ آج کے دن گوشت کی بہت خواہش ہوتی ہے اور اس نے اپنے پڑوسیوں کا تذکرہ کیا، نبی ﷺ نے اس کی باتوں پر مہر تصدیق ثبت فرمائی۔ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک بکری کا بچہ ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔ نبی ﷺ نے اسے ذبح کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ راوی کہتا ہے کہ اب مجھے پتہ نہیں کہ یہ اجازت اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی ہے یا نہیں۔
حدیث حاشیہ:
ایک روایت کے مطابق اس شخص نے اپنے پڑوسیوں کی بھوک اور تنگ دستی کا ذکر کیا۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:984) بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ جب اس نے اپنے ہمسائے کی محتاجی کا ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے معذور خیال فرمایا۔ (صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث:5581) دیگر روایات میں صراحت ہے کہ وہ شخص ابو بردہ بن نیار تھے اور رسول اللہ ﷺ نے اسے قربانی کے لیے یک سالہ بکری کا بچہ ذبح کرنے کی اجازت دی اور فرمایا کہ یہ رخصت صرف تیرے لیے ہے، کسی دوسرے کو اس رخصت سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں۔ (صحیح البخاري، الأضاحي، حدیث:5560) امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں عید الاضحیٰ کے دن کھانا تناول کرنے کو کسی وقت کے ساتھ مشروط نہیں کیا جیسا کہ عید الفطر کے دن نماز سے پہلے کے ساتھ مقید کیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک عیدالاضحیٰ کے دن کھانے کے متعلق کوئی پابندی نہیں، خواہ قربانی ذبح کرنے سے پہلے ہو یا بعد میں، چنانچہ مذکورہ حدیث میں ہے کہ جب اس شخص نے اپنی قربانی نماز سے پہلے ذبح کر ڈالی اور عرض کیا کہ اس دن گوشت کھانے کی ہر ایک کو چاہت ہوتی ہے تو آپ نے قبل از وقت قربانی ذبح کرنے پر تو انکار کیا لیکن نماز عید سے پہلے گوشت کھانے پر سکوت فرما کر اس عمل کو برقرار رکھا، شاید اس انداز سے امام بخاری ؒ نے ان احادیث کے ضعف کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن میں عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر کھانے کے متعلق فرق کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ عید الفطر کے دن اس وقت تک نہ نکلے جب تک کچھ کھا نہ لیتے اور عید الاضحیٰ میں اس وقت تک کچھ نہ کھاتے جب تک نماز نہ پڑھ لیتے۔ (جامع الترمذي، العیدین، حدیث:542) اس قسم کی دیگر احادیث کے متعلق بھی محدثین نے کلام کیا ہے۔ (فتح الباري:578/2) اگرچہ محدثین نے ان روایات پر کلام کیا ہے، تاہم راجح بات یہی ہے کہ یہ روایات صحیح اور حسن درجے کی ہیں۔ جیسا کہ شیخ البانی ؒ اور دیگر کئی محققین نے اس کی صراحت کی ہے، اس لیے عیدالاضحیٰ کے روز عید کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا ہی سنت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے محمد بن سیرین سے بیان کیا، ان سے انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص نماز سے پہلے قربانی کر دے اسے دوبارہ کر نی چاہیے۔ اس پر ایک شخص (ابو بردہ) نے کھڑے ہو کر کہا کہ یہ ایسا دن ہے جس میں گوشت کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اور اس نے اپنے پڑوسیوں کی تنگی کا حال بیان کیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس کو سچا سمجھا اس شخص نے کہا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے بھی مجھے زیادہ پیاری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر اسے اجازت دے دی کہ وہی قربانی کرے۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ اجازت دوسروں کے لیے بھی ہے یا نہیں۔
حدیث حاشیہ:
یہ اجازت خاص ابو بردہ کے لیے تھی۔ جیسا کہ آگے آرہا ہے حضرت انس ؓ کو ان کی خبر نہیں ہوئی، اس لیے انہوں نے ایسا کہا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) said, "Whoever slaughtered (his sacrifice) before the 'Id prayer, should slaughter again." A man stood up and said, "This is the day on which one has desire for meat," and he mentioned something about his neighbors. It seemed that the Prophet (ﷺ) I believed him. Then the same man added, "I have a young she-goat which is dearer to me than the meat of two sheep." The Prophet (ﷺ) permitted him to slaughter it as a sacrifice. I do not know whether that permission was valid only for him or for others as well.