Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: Eating on the day of Nahr (10th of Dhul-Hijjah))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
955.
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے عید الاضحیٰ کے دن نماز کے بعد ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ہمارے جیسی نماز پڑھے اور ہمارے جیسی قربانی کرے تو اس کا فریضہ پورا ہو گیا اور جس نے نماز سے قبل قربانی کی تو وہ نماز سے پہلے ہونے کی بنا پر قربانی نہیں ہے۔‘‘ اس پر حضرت براء ؓ کے ماموں ابوبردہ بن نیار ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بکری نماز سے پہلے ہی ذبح کر دی ہے کیونکہ میرے علم میں تھا کہ آج کھانے پینے کا دن ہے، اس لیے میری خواہش تھی کہ سب سے پہلے میرے ہی گھر میں بکری ذبح کی جائے، اس بنا پر میں نے اپنی بکری ذبح کر دی اور نماز کے لیے آنے سے قبل کچھ ناشتہ بھی کر لیا، آپ نے فرمایا: ’’تمہاری بکری تو صرف گوشت کی بکری ٹھہری (قربانی نہیں ہے)۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس بھیڑ کا ایک سالہ بچہ ہے جو مجھے دو بکریوں سے زیادہ عزیز ہے کیا وہ میرے لیے کافی ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں! لیکن تمہارے علاوہ کسی دوسرے کو کافی نہ ہو گا۔‘‘
تشریح:
(1) اس سے پہلی حدیث میں قبل از وقت ذبح کی گئی قربانی کو کھانے کا ذکر نہیں تھا جبکہ اس روایت میں اس سے ناشتہ کرنے کی صراحت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صرف قربانی کے متعلق فرمایا کہ یہ غیر معتبر ہے، کیونکہ یہ قبل از وقت کی گئی ہے لیکن اسے تناول کرنے پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا۔ اسی خاموشی سے امام بخاری ؒ نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ عید الاضحیٰ کے دن کھانے پینے کے متعلق کوئی پابندی نہیں ہے، اگرچہ حضرت ابو بردہ بن نیار ؓ سے یہ عمل محض عدم علم کی بنا پر ہوا لیکن آپ نے اسے برقرار رکھا، البتہ قابل اصلاح عمل کی اصلاح فرما دی کہ قربانی دوبارہ کی جائے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین کسی کے پاکیزہ جذبات کا نام نہیں بلکہ اس کے لیے منزل من اللہ ہونا ضروری ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ عنوان کا ثبوت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صرف قربانی دوبارہ ذبح کرنے کا حکم دیا جو اس بات کے جائز ہونے کا ثبوت ہے کہ ذبح شدہ جانور کو پکا کر کھایا جا سکتا ہے۔ لوگ عید سے پہلے کھانا جائز نہیں سمجھتے تھے، آپ نے نماز سے پہلے کھانے پر سکوت فرما کر گویا اس کے جواز کو برقرار رکھا۔ علامہ عینی ؒ نے امام بخاری ؒ کے استدلال کی بایں الفاظ وضاحت کی ہے کہ حضرت ابو بردہ بن نیار نے رسول اللہ ﷺ کے حضور عرض کیا کہ عید کا دن کھانے پینے کا دن ہے، نیز انہوں نے کہا کہ میں نے قبل از نماز ناشتہ بھی کر لیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس عمل پر اسے کوئی ملامت نہیں فرمائی۔ اس سے پتہ چلا کہ نماز سے پہلے کھانا یا ناشتہ کرنا قابل ملامت نہیں ہے۔ (عمدة القاري:188/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
941
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
955
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
955
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
955
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے عید الاضحیٰ کے دن نماز کے بعد ہمارے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ہمارے جیسی نماز پڑھے اور ہمارے جیسی قربانی کرے تو اس کا فریضہ پورا ہو گیا اور جس نے نماز سے قبل قربانی کی تو وہ نماز سے پہلے ہونے کی بنا پر قربانی نہیں ہے۔‘‘ اس پر حضرت براء ؓ کے ماموں ابوبردہ بن نیار ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنی بکری نماز سے پہلے ہی ذبح کر دی ہے کیونکہ میرے علم میں تھا کہ آج کھانے پینے کا دن ہے، اس لیے میری خواہش تھی کہ سب سے پہلے میرے ہی گھر میں بکری ذبح کی جائے، اس بنا پر میں نے اپنی بکری ذبح کر دی اور نماز کے لیے آنے سے قبل کچھ ناشتہ بھی کر لیا، آپ نے فرمایا: ’’تمہاری بکری تو صرف گوشت کی بکری ٹھہری (قربانی نہیں ہے)۔‘‘ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس بھیڑ کا ایک سالہ بچہ ہے جو مجھے دو بکریوں سے زیادہ عزیز ہے کیا وہ میرے لیے کافی ہو جائے گا؟ آپ نے فرمایا: ’’ہاں! لیکن تمہارے علاوہ کسی دوسرے کو کافی نہ ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس سے پہلی حدیث میں قبل از وقت ذبح کی گئی قربانی کو کھانے کا ذکر نہیں تھا جبکہ اس روایت میں اس سے ناشتہ کرنے کی صراحت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے صرف قربانی کے متعلق فرمایا کہ یہ غیر معتبر ہے، کیونکہ یہ قبل از وقت کی گئی ہے لیکن اسے تناول کرنے پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا۔ اسی خاموشی سے امام بخاری ؒ نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ عید الاضحیٰ کے دن کھانے پینے کے متعلق کوئی پابندی نہیں ہے، اگرچہ حضرت ابو بردہ بن نیار ؓ سے یہ عمل محض عدم علم کی بنا پر ہوا لیکن آپ نے اسے برقرار رکھا، البتہ قابل اصلاح عمل کی اصلاح فرما دی کہ قربانی دوبارہ کی جائے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دین کسی کے پاکیزہ جذبات کا نام نہیں بلکہ اس کے لیے منزل من اللہ ہونا ضروری ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ عنوان کا ثبوت اس طرح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صرف قربانی دوبارہ ذبح کرنے کا حکم دیا جو اس بات کے جائز ہونے کا ثبوت ہے کہ ذبح شدہ جانور کو پکا کر کھایا جا سکتا ہے۔ لوگ عید سے پہلے کھانا جائز نہیں سمجھتے تھے، آپ نے نماز سے پہلے کھانے پر سکوت فرما کر گویا اس کے جواز کو برقرار رکھا۔ علامہ عینی ؒ نے امام بخاری ؒ کے استدلال کی بایں الفاظ وضاحت کی ہے کہ حضرت ابو بردہ بن نیار نے رسول اللہ ﷺ کے حضور عرض کیا کہ عید کا دن کھانے پینے کا دن ہے، نیز انہوں نے کہا کہ میں نے قبل از نماز ناشتہ بھی کر لیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس عمل پر اسے کوئی ملامت نہیں فرمائی۔ اس سے پتہ چلا کہ نماز سے پہلے کھانا یا ناشتہ کرنا قابل ملامت نہیں ہے۔ (عمدة القاري:188/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصورنے، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب ؓ نے، آپ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے عید الاضحی کی نماز کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے ہماری نماز کی سی نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرے وہ نماز سے پہلے ہی گوشت کھاتا ہے مگر وہ قربانی نہیں۔ براء کے ماموں ابوبردہ بن نیاریہ سن کر بولے کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنی بکری کی قربانی نماز سے پہلے کر دی میں نے سوچا کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے میری بکری اگر گھر کا پہلا ذبیحہ بنے تو بہت اچھا ہو۔ اس خیال سے میں نے بکری ذبح کر دی اور نماز سے پہلے ہی اس کا گوشت بھی کھا لیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی۔ ابو بردہ بن نیار نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے اور وہ مجھے گوشت کی دو بکریوں سے بھی عزیز ہے، کیا اس سے میری قربانی ہو جائے گی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں لیکن تمہارے بعد کسی کی قربانی اس عمر کے بچے سے کافی نہ ہوگی۔
حدیث حاشیہ:
کیونکہ قربانی میں مسنہ بکری ضروری ہے جو دوسرے سال میں ہو اور دانت نکال چکی ہو۔ بغیر دانت نکالے بکری قربانی کے لائق نہیں ہوتی۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: قوله المسنة قال العلماءالمسنة ھی الثنیة من کل شيئ من الإبل والبقر والغنم فما فوقھا الخ۔ مسجد میں ہے کہ الثنیة جمعه ثنایا وھي أسنان مقدم الفم ثنتان من فوق وثنتان من أسفل۔یعنی ثنیہ سامنے کے اوپر نیچے کے دانت کو کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے حدیث کے یہ معنی ہوئے کہ دانت والے جانوروں کی قربانی کرو اس سے لازم یہی نتیجہ نکلا کہ کھیرے کی قربانی نہ کرو اس لیے ایک روایت میں ہے: ینفی من الضحایا التي لم تسن۔قربانی کے جانوروں میں سے وہ جانور نکال ڈالا جائے گا جس کے دانت نہ اگے ہوں گے۔ اگر مجبوری کی حالت میں مسنہ نہ ملے مشکل ودشوار ہو تو جذعۃ من الضان بھی کر سکتے ہیں جیسا کہ اسی حدیث کے آخر میں آپ ﷺ نے فرمایا: إلاأن یعسر علیکم فتذبحوا جذعة من الضأن۔ لغات الحدیث میں لکھا ہے پانچویں برس میں جو اونٹ لگا ہواور دوسرے برس میں جو گائے بکری لگی ہو اور چوتھے برس میں جو گھوڑا لگا ہو۔ بعضوں نے کہا جو گائے تیسرے برس میں لگی ہو اور جو بھیڑ ایک برس کی ہو گئی جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ضحینا من رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بالجذع من الضأن والثني من المعز۔ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک برس کی بھیڑ اور دو برس کی ( جو تیسرے میں لگی ہو ) بکری قربانی کی۔ اور تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ بکری ثنی وہ ہے جو دو سال گزار چکی ہو اور جذعہ اسے کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو گیا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Bara' bin 'Azib (RA): The Prophet (ﷺ) delivered the Khutba after offering the prayer on the Day of Nahr and said, "Whoever offers the prayer like us and slaughters like us then his Nusuk (sacrifice) will be accepted by Allah. And whoever slaughters his sacrifice before the 'Id prayer then he has not done the sacrifice." Abi Burda bin Niyar, the uncle of Al-Bara' said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have slaughtered my sheep before the 'Id prayer and I thought today as a day of eating and drinking (not alcoholic drinks), and I liked that my sheep should be the first to be slaughtered in my house. So slaughtered my sheep and took my food before coming for the prayer." The Prophet (ﷺ) said, "The sheep which you have slaughtered is just mutton (not a Nusuk)." He (Abu Burda) said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have a young she-goat which is dearer to me than two sheep. Will that be sufficient as a Nusuk on my behalf? "The Prophet (ﷺ) said, "Yes, it will be sufficient for you but it will not be sufficient (as a Nusuk) for anyone else after you."