باب: اس بارے میں کہ کوئی شخص سمجھانے کے لئے(ایک)بات کو تین مرتبہ دہرائے تو یہ ٹھیک ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: Repeating ones talk thrice in order to make others understand)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے “ الاوقول الزور ” اس کو تین بار دہراتے رہے اور حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ میں نے تم کو پہنچا دیا ( یہ جملہ ) آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔
96.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے ایک سفر میں پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ ہمیں آ ملے جبکہ عصر کا وقت ہو چکا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے، چنانچہ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ نے بآواز بلند دو یا تین مرتبہ فرمایا: ’’ایڑیوں کے لیے آگ سے خرابی ہے۔‘‘
تشریح:
بوقت وضو ایڑیوں کے خشک رہ جانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی اہمیت دی کہ ان کے متعلق وعید کو تین مرتبہ دہرایا اس سے بھی ثابت ہوا کہ کسی اہم بات کو کئی دفعہ دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
96
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
96
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
96
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
96
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے “ الاوقول الزور ” اس کو تین بار دہراتے رہے اور حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ میں نے تم کو پہنچا دیا ( یہ جملہ ) آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم سے ایک سفر میں پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ ہمیں آ ملے جبکہ عصر کا وقت ہو چکا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے، چنانچہ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ نے بآواز بلند دو یا تین مرتبہ فرمایا: ’’ایڑیوں کے لیے آگ سے خرابی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
بوقت وضو ایڑیوں کے خشک رہ جانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی اہمیت دی کہ ان کے متعلق وعید کو تین مرتبہ دہرایا اس سے بھی ثابت ہوا کہ کسی اہم بات کو کئی دفعہ دہرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
آپ نے فرمایا: "آگاہ رہو اور جھوٹ بولنا ۔۔" ان کلمات کو بار بار دہراتے رہے۔ ابن عمر ؓ کا بیان ہے: نبی ﷺنے تین مرتبہ یہ فرمایا: "کیا میں نے فریضہ تبلیغ ادا کر دیا؟"
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے ابی بشر کے واسطے سے بیان کیا، وہ یوسف بن ماھک سے بیان کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمرو ؓ سے، وہ کہتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ ہمارے قریب پہنچے۔ تو عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا یا تنگ ہو گیا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے۔ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ ﷺ نے بلند آواز سے فرمایا کہ آگ کے عذاب سے ان ایڑیوں کی (جو خشک رہ جائیں) خرابی ہے۔ یہ دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ۔
حدیث حاشیہ:
ان احادیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ اگر کوئی محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کرے یا طالب علم ہی استاد سے دوبارہ یاسہ بارہ پڑھنے کو کہے تو یہ مکروہ نہیں ہے۔ تین بار سلام اس حالت میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے دروازے پر جائے اور اندرآنے کی اجازت طلب کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب الإستیذان میں بھی لائے ہیں، اس سے بھی یہی نکلتا ہے۔ ورنہ ہمیشہ آپ کی یہ عادت نہ تھی کہ تین بار سلام کرتے، یہ اسی صورت میں تھا کہ گھر والے پہلا سلام نہ سن پاتے توآپ دوبارہ سلام کرتے اگر پھر بھی وہ جواب نہ دیتے توتیسری دفعہ سلام کرتے، پھر بھی جواب نہ ملتا تو آپ واپس ہوجاتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amr (RA): Once Allah's Apostle (ﷺ) remained behind us in a journey. He joined us while we were performing ablution for the 'Asr prayer which was over-due. We were just passing wet hands over our feet (not washing them properly) so the Prophet (ﷺ) addressed us in a loud voice and said twice or thrice, "Save your heels from the fire."