باب: نماز عید کے لیے پیدل یا سوار ہو کر جانا اور نماز کا، خطبہ سے پہلے، اذان اور اقامت کے بغیر ہونا۔
)
Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: Eid prayer before the Khutba and no Adhan or Iqama for it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
961.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے، پہلے نماز پڑھی پھر لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔ جب نبی ﷺ خطبے سے فارغ ہوئے تو اتر کر عورتوں کے پاس آئے اور انہیں نصیحت فرمائی جبکہ آپ نے حضرت بلال ؓ کے ہاتھ کا سہارا لیا ہوا تھا اور بلال اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے، عورتیں اس میں اپنے صدقات ڈال رہی تھیں۔ (راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں نے حضرت عطاء سے کہا کہ اب بھی آپ امام کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ نماز سے فارغ ہو کر عورتوں کے پاس آئے اور انہیں نصیحت کرے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ان کی ذمہ داری تو ہے لیکن اب انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔
تشریح:
(1) نماز عید کے لیے پیدل چل کر جانے کے متعلق حضرت علی ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے، آپ نے فرمایا کہ عیدگاہ کی جانب پیدل چل کر جانا سنت ہے۔ (جامع الترمذي، العیدین، حدیث:530) امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کے پیش نظر لکھا ہے کہ اہل علم کی اکثریت عید کے لیے پیدل جانے کو پسند کرتی ہے، نیز ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی عذر کے بغیر سوار نہ ہو۔ لیکن امام بخاریؒ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک عید کے لیے پیدل یا سوار ہو کر جانا دونوں طرح جائز ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ شاید امام بخاری ؒ نے اس عنوان کو قائم کر کے نماز عید کے لیے پیدل جانے کے استحباب میں وارد روایات کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباري:582/2) پیدل جانے کے استحباب کے لیے جو حدیث ترمذی کے حوالے سے پیش کی گئی ہے اس میں ایک راوی حارث اعور ہے جسے امام نووی نے بالاتفاق کذاب کہا ہے، اس بنا پر یہ حدیث قابل حجت نہیں ہے۔ (نیل الأوطار:3/325،324) امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی ہیں ان میں پیدل یا سوار ہو کر جانے کی کوئی صراحت نہیں ہے۔ اس اطلاق کا تقاضا ہے کہ اس کے متعلق دونوں پہلو مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امام بخاری ؒ کا ایک اور احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب عورتوں کو وعظ فرمایا تو انہوں نے حضرت بلال ؓ کے ہاتھ کا سہارا لیا ہوا تھا، حالانکہ آپ نے پہلے کسی سہارے کے بغیر خطبہ دیا تھا، جب آپ کو تھکاوٹ محسوس ہوئی تو حضرت بلال ؓ کا سہارا لے لیا، اسی طرح بہتر ہے کہ عیدگاہ پیدل جائے، ہاں! ضرورت کے پیش نظر سواری کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:582/2) (2) عید کی نماز پہلے پڑھی جائے یا خطبہ دیا جائے؟ اس کے متعلق ہم آئندہ بیان کریں گے، البتہ نماز عید کے لیے اذان یا اقامت نہیں کہنی چاہیے جیسا کہ ابن عباس ؓ اور حضرت جابر ؓ سے مروی احادیث ترک اذان کے متعلق واضح ہیں، البتہ بعض دیگر روایات میں اقامت نہ کہنے کی بھی صراحت ہے، چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک یا دو مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ نماز عید اذان اور اقامت کے بغیر پڑھی ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة العیدین، حدیث:2051(887)) اگرچہ بعض فقہاء نے نماز عید کے لیے (الصلاة جامعة) کے الفاظ کہنے کی اجازت دی ہے لیکن ایسے الفاظ کہنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے کیونکہ حضرت جابر ؓ سے مروی بعض طرق میں ہے کہ نماز عید سے پہلے اذان، اقامت یا دوسرے کلمات سے اعلان کرنا صحیح نہیں۔ (فتح الباري:583/2) لہذا نماز عید کے لیے کسی قسم کے الفاظ سے اعلان کرنا صحیح نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
947
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
961
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
961
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
961
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
تمہید باب
یہ عنوان تین احکام پر مشتمل ہے: ٭ عید گاہ میں کس طرح جانا چاہیے، پیدل یا سواری پر؟ ٭ خطبے سے پہلے نماز ادا کرنا۔ اس کے متعلق مستقل عنوان آئندہ آئے گا۔ ٭ نماز عید سے قبل اذان یا تکبیر نہیں ہونی چاہیے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کھڑے ہوئے، پہلے نماز پڑھی پھر لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔ جب نبی ﷺ خطبے سے فارغ ہوئے تو اتر کر عورتوں کے پاس آئے اور انہیں نصیحت فرمائی جبکہ آپ نے حضرت بلال ؓ کے ہاتھ کا سہارا لیا ہوا تھا اور بلال اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے، عورتیں اس میں اپنے صدقات ڈال رہی تھیں۔ (راوی حدیث کہتے ہیں کہ) میں نے حضرت عطاء سے کہا کہ اب بھی آپ امام کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ نماز سے فارغ ہو کر عورتوں کے پاس آئے اور انہیں نصیحت کرے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ان کی ذمہ داری تو ہے لیکن اب انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) نماز عید کے لیے پیدل چل کر جانے کے متعلق حضرت علی ؓ سے مروی ایک حدیث میں ہے، آپ نے فرمایا کہ عیدگاہ کی جانب پیدل چل کر جانا سنت ہے۔ (جامع الترمذي، العیدین، حدیث:530) امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کے پیش نظر لکھا ہے کہ اہل علم کی اکثریت عید کے لیے پیدل جانے کو پسند کرتی ہے، نیز ان کا کہنا ہے کہ کوئی بھی عذر کے بغیر سوار نہ ہو۔ لیکن امام بخاریؒ کے قائم کردہ عنوان اور پیش کردہ احادیث کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک عید کے لیے پیدل یا سوار ہو کر جانا دونوں طرح جائز ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ شاید امام بخاری ؒ نے اس عنوان کو قائم کر کے نماز عید کے لیے پیدل جانے کے استحباب میں وارد روایات کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ (فتح الباري:582/2) پیدل جانے کے استحباب کے لیے جو حدیث ترمذی کے حوالے سے پیش کی گئی ہے اس میں ایک راوی حارث اعور ہے جسے امام نووی نے بالاتفاق کذاب کہا ہے، اس بنا پر یہ حدیث قابل حجت نہیں ہے۔ (نیل الأوطار:3/325،324) امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں جو احادیث پیش کی ہیں ان میں پیدل یا سوار ہو کر جانے کی کوئی صراحت نہیں ہے۔ اس اطلاق کا تقاضا ہے کہ اس کے متعلق دونوں پہلو مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امام بخاری ؒ کا ایک اور احتمال بھی ذکر کیا ہے کہ حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب عورتوں کو وعظ فرمایا تو انہوں نے حضرت بلال ؓ کے ہاتھ کا سہارا لیا ہوا تھا، حالانکہ آپ نے پہلے کسی سہارے کے بغیر خطبہ دیا تھا، جب آپ کو تھکاوٹ محسوس ہوئی تو حضرت بلال ؓ کا سہارا لے لیا، اسی طرح بہتر ہے کہ عیدگاہ پیدل جائے، ہاں! ضرورت کے پیش نظر سواری کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري:582/2) (2) عید کی نماز پہلے پڑھی جائے یا خطبہ دیا جائے؟ اس کے متعلق ہم آئندہ بیان کریں گے، البتہ نماز عید کے لیے اذان یا اقامت نہیں کہنی چاہیے جیسا کہ ابن عباس ؓ اور حضرت جابر ؓ سے مروی احادیث ترک اذان کے متعلق واضح ہیں، البتہ بعض دیگر روایات میں اقامت نہ کہنے کی بھی صراحت ہے، چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک یا دو مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ نماز عید اذان اور اقامت کے بغیر پڑھی ہے۔ (صحیح مسلم، صلاة العیدین، حدیث:2051(887)) اگرچہ بعض فقہاء نے نماز عید کے لیے (الصلاة جامعة) کے الفاظ کہنے کی اجازت دی ہے لیکن ایسے الفاظ کہنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے کیونکہ حضرت جابر ؓ سے مروی بعض طرق میں ہے کہ نماز عید سے پہلے اذان، اقامت یا دوسرے کلمات سے اعلان کرنا صحیح نہیں۔ (فتح الباري:583/2) لہذا نماز عید کے لیے کسی قسم کے الفاظ سے اعلان کرنا صحیح نہیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ (عید کے دن) نبی کریم ﷺ کھڑے ہوئے، پہلے آپ نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا، اس سے فارغ ہوکر آپ ﷺ عورتوں کی طرف گئے اور انہیں نصیحت کی۔ آپ بلال ؓ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھے اور بلال ؓ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا، عورتیں اس میں خیرات ڈال رہی تھیں۔ میں نے اس پر عطاء سے پوچھا کہ کیا اس زمانہ میں بھی آپ امام پر یہ حق سمجھتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ عورتوں کے پاس آ کر انہیں نصیحت کرے۔ انہوں نے فرمایا کہ بےشک یہ ان پر حق ہے اور سبب کیا جو وہ ایسا نہ کریں۔
حدیث حاشیہ:
یزید بن معاویہ کی وفات کے بعد 62ھ میں عبد اللہ بن زبیر ؓ کی بیعت کی گئی۔ اس سے بعضوں نے یہ نکالا ہے کہ امام بخاری ؒ کا ترجمہ باب یوں ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بلال پر ٹیکا دیا معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت عید میں سوارہوکر بھی جانا درست ہے۔ روایت میں عورتوں کو الگ وعظ بھی مذکور ہے، لہذا امام کو چاہیے کہ عید میں مردوں کو وعظ سنا کر عورتوں کو بھی دین کی باتیں سمجھائے اور ان کو نیک کاموں کی رغبت دلائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'At a' said, "I heard Jabir bin 'Abdullah saying, 'The Prophet (ﷺ) stood up and started with the prayer, and after it he delivered the Khutba. When the Prophet (ﷺ) of Allah ( (ﷺ) ) finished (the Khutba), he went to the women and preached to them, while he was leaning on Bilal (RA) 's hand. Bilal (RA) was spreading his garment and the ladies were putting alms in it.' “I said to Ata, "Do you think it incumbent upon an Imam to go to the women and preach to them after finishing the prayer and Khutba?" 'Ata' said, "No doubt it is incumbent on Imams to do so, and why should they not do so?"