باب: عید کے دن اور حرم کے اندر ہتھیار باندھنا مکروہ ہے
)
Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: It is disliked to carry arms on 'Eid and in the Haram)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور امام حسن بصری نے فرمایا کہ عید کے دن ہتھیار لے جانے کی ممانعت تھی مگر جب دشمن کا خوف ہوتا۔
967.
حضرت سعید بن عمرو سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حجاج، حضرت ابن عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت میں بھی آپ کے پاس تھا، اس نے آپ کا حال پوچھا تو آپ نے فرمایا: ٹھیک ہوں، اس نے پوچھا کہ آپ کو یہ تکلیف کس نے پہنچائی ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ مجھے اس شخص نے تکلیف پہنچائی ہے جس نے ایسے دن میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی جس دن ہتھیار اٹھانا جائز نہ تھا، انہوں نے اس سے حجاج کو مراد لیا۔
تشریح:
(1) عید کے دن اور حرم پاک میں ہتھیار اٹھانے کی نفی مطلق اور مقید دونوں طرح احادیث میں آئی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عید کے دن ہتھیار اٹھا کر جانے سے منع فرمایا ہے، نیز حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں ہتھیار اٹھانے سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عیدین کے موقع پر ہتھیار لگا کر نکلنے سے منع فرمایا ہے، ہاں! اگر دشمن سامنے ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:586/2) (2) اس واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ کسی معاملے میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی مخالفت نہ کرنا۔ یہ پابندی اس کے لیے بہت گراں گزری تو اس نے ایک آدمی کو زہر آلود نیزہ دے کر آپ کا کام تمام کرنے پر مامور کیا۔ اس شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاؤں میں نیزہ چبھو دیا۔ چند دن کے بعد آپ کی وفات ہو گئی۔ پہلی حدیث میں صراحت کے ساتھ حجاج بن یوسف کو ’’مجرم‘‘ ٹھہرایا گیا جبکہ دوسری ہدایت میں اشارے کے ساتھ اس کی طرف جرم کی نسبت کی گئی۔ ایک تیسری روایت کے مطابق حضرت ابن عمر ؓ نے اس کے متعلق گفتگو کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ ان تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق حجاج نے جو منصوبہ سازی کی تو خود بار بار تیمارداری کرنے کے لیے حاضر ہوا، چنانچہ پہلی مرتبہ تو خود اسے مجرم ٹھہرایا گیا، پھر اس کی طرف اشارہ کیا، تیسری مرتبہ اسے نظر انداز کر کے اس سے گفتگو کرنا بھی گوارا نہ فرمائی۔ ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاج بن یوسف نے حرم پاک اور عید کے دنوں میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت دے رکھی تھی جس کی شرعاً اجازت نہ تھی۔ امام بخاری ؒ نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عیدین اور حرم پاک میں ہتھیار اٹھانا جائز نہیں۔ (فتح الباري:587/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
953
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
967
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
967
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
967
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
تمہید باب
اس سے قبل امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا: (باب الحراب والدرق يوم العيد) "عیدین کے دن برچھیوں اور ڈھالوں سے کھیلنا" بظاہر دونوں عنوانات میں تعارض ہے کیونکہ قبل ازیں عنوان سے ہتھیاروں کا استعمال جائز اور مستحب معلوم ہوتا ہے جبکہ اس عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ عیدین کے موقع پر ہتھیار اٹھانا مکروہ ہیں۔ ان دونوں میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ پہلی صورت جہادی مشق پر محمول ہے بشرطیکہ کسی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو جبکہ دوسری صورت تکبر اور فتنہ انگیزی کے طور پر ہتھیار اٹھانے پر محمول ہے بالخصوص جبکہ تنگ راستوں پر لوگوں کی بھیڑ ہو تو ہتھیار اٹھانے کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ حضرت حسن بصری کا مذکورہ اثر متصل سند سے نہیں مل سکا، البتہ امام ابن منذر نے حضرت حسن سے اس سے ملتے جلتے الفاظ نقل کیے ہیں۔ (فتح الباری:2/586)
اور امام حسن بصری نے فرمایا کہ عید کے دن ہتھیار لے جانے کی ممانعت تھی مگر جب دشمن کا خوف ہوتا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت سعید بن عمرو سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حجاج، حضرت ابن عمر ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت میں بھی آپ کے پاس تھا، اس نے آپ کا حال پوچھا تو آپ نے فرمایا: ٹھیک ہوں، اس نے پوچھا کہ آپ کو یہ تکلیف کس نے پہنچائی ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ مجھے اس شخص نے تکلیف پہنچائی ہے جس نے ایسے دن میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت دی جس دن ہتھیار اٹھانا جائز نہ تھا، انہوں نے اس سے حجاج کو مراد لیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) عید کے دن اور حرم پاک میں ہتھیار اٹھانے کی نفی مطلق اور مقید دونوں طرح احادیث میں آئی ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عید کے دن ہتھیار اٹھا کر جانے سے منع فرمایا ہے، نیز حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مکہ مکرمہ میں ہتھیار اٹھانے سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عیدین کے موقع پر ہتھیار لگا کر نکلنے سے منع فرمایا ہے، ہاں! اگر دشمن سامنے ہو تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:586/2) (2) اس واقعے کا پس منظر یہ ہے کہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو لکھا کہ کسی معاملے میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کی مخالفت نہ کرنا۔ یہ پابندی اس کے لیے بہت گراں گزری تو اس نے ایک آدمی کو زہر آلود نیزہ دے کر آپ کا کام تمام کرنے پر مامور کیا۔ اس شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پاؤں میں نیزہ چبھو دیا۔ چند دن کے بعد آپ کی وفات ہو گئی۔ پہلی حدیث میں صراحت کے ساتھ حجاج بن یوسف کو ’’مجرم‘‘ ٹھہرایا گیا جبکہ دوسری ہدایت میں اشارے کے ساتھ اس کی طرف جرم کی نسبت کی گئی۔ ایک تیسری روایت کے مطابق حضرت ابن عمر ؓ نے اس کے متعلق گفتگو کرنا بھی گوارا نہ کیا۔ ان تمام روایات کا حاصل یہ ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق حجاج نے جو منصوبہ سازی کی تو خود بار بار تیمارداری کرنے کے لیے حاضر ہوا، چنانچہ پہلی مرتبہ تو خود اسے مجرم ٹھہرایا گیا، پھر اس کی طرف اشارہ کیا، تیسری مرتبہ اسے نظر انداز کر کے اس سے گفتگو کرنا بھی گوارا نہ فرمائی۔ ان دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حجاج بن یوسف نے حرم پاک اور عید کے دنوں میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت دے رکھی تھی جس کی شرعاً اجازت نہ تھی۔ امام بخاری ؒ نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عیدین اور حرم پاک میں ہتھیار اٹھانا جائز نہیں۔ (فتح الباري:587/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کو عید کے دن ہتھیار اٹھانے سے روک دیا گیا، ہاں! اگر دشمن کا خطرہ ہو تو اجازت ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے احمد بن یعقوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص نے اپنے باپ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ حجاج عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس آیا میں بھی آپ کی خدمت میں موجود تھا۔ حجاج نے مزاج پوچھا عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ اچھا ہوں۔ اس نے پوچھا کہ آپ کو یہ برچھا کس نے مارا؟ ابن عمر نے فرمایا کہ مجھے اس شخص نے مارا جس نے اس دن ہتھیار ساتھ لے جانے کی اجازت دی جس دن ہتھیار ساتھ نہیں لے جایا جاتا تھا۔ آپ کی مراد حجاج ہی سے تھی۔
حدیث حاشیہ:
حجاج ظالم دل میں عبد اللہ بن عمر سے دشمنی رکھتا تھا۔ کیونکہ انہوں نے اس کو کعبہ پر منجنیق لگانے اور عبد اللہ بن زبیر کے قتل کرنے پر ملامت کی تھی۔ دوسرے عبد الملک بن مروان نے جو خلیفہ وقت تھا، حجاج کو یہ کہلا بھیجا تھا کہ عبد اللہ بن عمر کی اطاعت کرتا رہے، یہ امر اس مردود پر شاق گزرا اور اس نے چپکے سے ایک شخص کو اشارہ کر دیا اس نے زہر آلود برچھا عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاؤں میں گھسیڑ دیا۔ خود ہی تو یہ شرارت کی اور خود ہی کیا مسکین بن کر عبد اللہ کی عیادت کو آیا۔ واہ رے مکار خدا کو کیا جواب دے گا۔ آخر عبد اللہ بن عمر ؓ نے جو اللہ کے بڑے مقبول بندے اور بڑے عالم اور عابد اور زاہد اور صحابی رسول ﷺ تھے، ان کا مکر پہچان لیا اور فرمایا کہ تم نے ہی تو مارا ہے اور تو ہی کہتا ہے ہم مجرم کو پالیں تو اس کو سخت سزا دیں۔ جفا کردی و خود کشتی بہ تیغ ظلم مارا بہانہ میں برائے پرسش بیماری آئی ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ دنیا دار مسلمانوں نے کس کس طرح سے علماءاسلام کو تکالیف دی ہیں پھر بھی وہ مردان حق پرست امر حق کی دعوت دیتے رہے۔ آج بھی علماء کو ان بزرگوں کی اقتداءلازمی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin 'Amr bin Said bin Al-'Aas (RA): Al-Hajjaj went to Ibn Umar (RA) while I was present there. Al-Hajjaj asked Ibn Umar (RA) , "How are you?" Ibn Umar (RA) replied, "I am all right," Al-Hajjaj asked, "Who wounded you?" Ibn Umar (RA) replied, "The person who allowed arms to be carried on the day on which it was forbidden to carry them (he meant Al-Hajjaj)"